قطر اور سعودی عرب نے ریڈیکل اسلام ( وہابیت ) کو پھیلانے کے لئے پیسے فراہم کرکے پوری دنیا کو ایک ٹائم بم پر لاکر بٹھادیا ہے – جنرل جوناتھن
ادارتی نوٹ : جنرل جوناتھن شاہ برطاںیہ کی فوج کے سابق اسسٹنٹ چیف آف سٹاف رہے ہیں انھوں نے حال ہی میں دئے گئے انٹرویو میں ” ریڈیکل اسلام ( وہابیت ) کے پھیلاؤ کا زمہ دار قطر اور سعودی عرب کو قرار دیا ہے – ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل جوناتھن شاہ کی بات نصف سچائی ہے اور پورا سچ یہ ہے کہ قطر اور سعودی عرب کے نام کی وہابی ریاستوں کو خود برطانوی سامراج وجود میں لایا تھا اور اس نے آل سعود کو حجاز اور آل خلیفہ کو قطر کا اقتدار دیا تھا اور پہلے مرحلے میں عربوں پر وہابیت مسلط کی گئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ سامراجی کیمپ کے سربراہ کی خٹیت سے ابھرا اور سوویت یونین کے اشتراکی بلاک اور امریکہ و اس کے اتحادیوں کے مغربی بلاک کے درمیان ” سرد جنگ ” شروع ہوئی تو سرمایہ داری بلاک نے پوری دنیا کے اندر ” مذھبی جنونیت ” کو سوویت یونین کے اتحادیوں کے حلاف استعمال کرنے کی ٹھان لی
اور افغانستان کے اندر اس نے پوری دنیا سے وہابی دھشت گرد ” مجاہدوں ” کے روپ میں بھیجے اور اس کے لئے سعودی عرب اور قطر کو وہابی آئیڈیالوجی کے پھیلاؤ کا ٹاسک دیا گیا اور یہ سب مغربی سامراجی طاقتوں کی مرضی اور منشاء سے کیا گیا اور آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک سعودی عرب ، قطر ، اردن ، ترکی وغیرہ کے ساتھ کھڑے ہیں جو پورے عالم اسلام میں ” وہابیت کو پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے رپورٹر ڈیوڈ بلئیر نے رپورٹ کیا ہے برطانیہ کے اسٹنٹ چیف آف سٹاف رہنے والے جو 2012 ء میں ریٹائر ہوئے اور انہوں نے عراق میں برطانوی افواج کے دستوں کی کمانڈ بھی کی تھی جنرل جوناتھن شا نے کہا ہے کہ قطر اور سعودی عرب نے ریڈیکل اسلام ( وہابیت ) کو پھیلانے کے لئے پیسے فراہم کرکے پوری دنیا کو ایک ٹائم بم پر لاکر بٹھادیا ہے جو ٹک ٹک کرتا کسی وقت بھی پھدٹ سکتا ہے – انھوں نے ” دی ٹیلی گراف ” کو بتایا کہ قطر اور سعودی عرب انتہا پسند اسلام کو ابھارنے کے زمہ دار ہیں جس سے داعش انسپائر ہے دونوں گلف ریاستوں نے ایک ایسے جںگجو اور جنونیت پر مبنی مذھب کی تعبیر کے پھیلاؤ پر اربوں ڈالر خرچ کئے جو کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے نظریات پر مبنی ہے جوکہ 18 ویں صدی کا ایک ایسا مولوی تھا جو اپنے انتہا پسند خیالات کو اسلاف سے منسلک کرتا تھا ( یہاں پر جوناتھن شا یہ بتانا بھول کيا کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کو برطانیہ کے ہی جاسوس ہمفرے جو لارنس آف عربیہ کے نام سے معروف تھا پروموٹ کیا تھا )
جنرل جو ناتھن شا کا کہنا تھا کہ ” وہابیت کے پھیلاؤ ” پر اربوں ڈالر خرچ کرکے سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں کو امریکہ اور برطانیہ سے کہيں زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہيں ، کیونکہ داعش قطری اور سعودی دونوں حکومتوں کا تختہ الٹانا چاہتی ہے اور وہ ان دونوں کو بدعنوان ، عیاش کہہ کر مسترد کرتی ہے لیکن جنرل جوناتھن اس بات کے فوری بعد یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر کو داعش کے خلاف نظریاتی جنگ پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے ، یہ اپنی بات کی نفی کرنے والا مشورہ ہے کیونکہ قطر اور سعودی عرب داعش کی طرح سلفی وہابی ازم کے علمبردار ہیں تو یہ دونوں ملک داعش کے خلاف کیا نظریاتی محاذ کھولیں گے جنرل جوناتھن شا کا کہنا ہے کہ ” مغرب کی فوجی جارجیت ” سے داعش کی دھشت گرد تحریک کا راستہ روکنا بے کار ہوگا
جنرل جوناتھن شا کا کہنا تھا کہ وہابی سلفی ازم تعلیم کے لبادے میں ایک ٹائم بم ہے جو کہ دنیائے عالم کے نیچے نصب کردیا گیا ہے اور اس کی ٹک ٹک سنائی دے رہی ہے اور وہابی سلفی ازم جیسے قطر اور سعودی عرب کی طرف سے فنڈ کیا جارہا ہے اسے روکا جانا چاہئیے جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ” لوگوں پر بمباری کرنا کیا اس سے نمٹنے کا ٹھیک طریقہ ہے ؟ تو ان کا کہنا تھا کہ مرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے ، مرے خیال میں ہمیں فزیکل لڑائی سے زیادہ ” نظریاتی جنگ ” کو تیز کرنے کی ضرورت ہے
جنرل جوناتھن کے خیال میں داعش کو صرف سیاسی اور نظریاتی زرایع سے شکست دی جاسکتی ہے اور مغرب کی داعش کے خلاف فضائی کاروائی ٹیکٹکل کامیابی تو وقتی طور پر دلا سکتی ہے لیکن اس سے آگے کچھ اور اس سے حاصل ہونے والا نہیں ہے
جنرل جوناھن نے مزید کہا کہ جب فکری ، نظریاتی جدوجہد کی بات آتی ہے تو قطر اور سعودی عرب کا کردار اہم تر ہوجاتا ہے کیونکہ مسئلے کی اصل جڑ ان دونوں ملکوں کا ریاستی مذھب وہابیت و سلفی ازم ہے اور داعش سے بنیادی خطرہ بھی قطر اور سعودیہ عرب کو ہے امریکہ یا برطانیہ کو یہ خطرہ بعد میں ہے ، سعودی عرب اور قطر کا داعش کے خلاف جنگ میں بہت تھوڑا کردار ہے اور یہ صرف چار جیٹ لڑاکا طیاروں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہیں جبکہ ان کو سب سے آگے ہونا چاہئیے تھا اور ان دونوں کو داعش کے خلاف نظریاتی فکری جنگ کی قیادت کرنی چاہئیے تھی
برٹش اور امریکن کی داعش کے خلاف فضائی کاروائی قطر اور سعودی عرب میں اس کی حمیت کو نہیں روک سکتی اور اس لڑائی میں یہی نکتہ فراموش کردیا گیا ہے ، یہ طریفہ کار وہابی ازم کو ایک کلچر اور ایک نظریہ کے طور سامنے رکھتے ہوئے لڑنے والا نہیں ہے ، یہ حملے وقتی طور پر تو ٹیکٹل کاویابی دیں گے لیکن اصل معاملے کی جڑ کو ختم نہیں کریں گے ، داعش کی نظریاتی بنیاد وہابی سلفی ازم ہے اور اس کا پھیلاؤ ہوتا رہے گا چاہے ہم داعش کو عراق اور شام کے اندر مزید آگے بڑھنے سے روک بھی دیں
جنرل شا کا کہنا تھا کہ حکومت کی داعش کی طرف جو اپروچ ہے وہ بنیادی طور پر غلط ہے ، یہ لوگ اب تک اسے ایک فوجی پرابلم کے طور پر لے رہے ہیں ، جو کہ مرے خیال کے مطابق مسئلے کے بارے میں فریب خوردہ اپروچ ہے ، مری سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ حکومت وہی غلطی دھرا رہی ہے جو اس نے افغانستان اور عراق میں کی تھیں کہ اپنی افواج کو دور دراز روانہ کرنا اور مرکز میں رکھنا جبکہ سیاسی سوال اور اسباب جو کہ بنیادی ہیں ان کو سرے سے دیکھنا ہی نا اور اب بھی ہم بیماری کی علامات سے لڑرہے ہیں اس کی بنیادی وجہ سے نہیں
جنرل شا کا کہنا تھا کہ داعش کا اصل فوکس مدل ایسٹ میں جمی جمائی حکومتوں کو گرانا ہے نہ کہ مغرب کو ہدف بنانا – انہوں نے کہا کہ داعش کی طرف سے دو برطانوی شہریوں کا قتل ، دو امرکیوں کو یرغمال بنانے کا اقدام کیا ان کے خلاف فوجی مہم شروع کرنے کے لئے کافی تھا ؟
داعش نے عراق میں بڑے پیمانے پر اپنی مداخلت جون 2015ء میں کی تھی اس وقت مغرب نے کچھ نہ کیا جبکہ ہزاروں لوگ مارے گئے تھے ، جنرل شا نے کہا انھوں نے سوال کیا کہ اس ماہ کیا چیز تبدیل ہوئی ؟ ٹی وی پر مغربی لوگوں کا سرقلم کرتے دکھایا جاتا ہے اور اچانک اس سے ہماری پالیسی بدل جاتی ہے اور اچانک ہم فضائی حملے شروع کردیتے ہیں جنرل جوناتھن شا کہ کہنا تھا کہ داعش نے مغربی یرغمالیوں کو ہلاک امریکہ اور برطانیہ کو مشتعل کرکے فضائی حملوں پر اکسایا تاکہ ان کے حملوں کو نصاری کا اسلام پر حملہ کہہ کر داعش کے لئے ہمدردی اکٹھی کی جاسکے – جنرل شا نے سوال کیا کہ اس فوجی کاروائی سے داعش کو کیا ممکنہ فائدہ مل سکتا ہے ؟ اس کا جواب ہے کہ مسلم دنیا کو کرسچن ورلڈ کے حلاف متحد کیا جائے –ہم ان کے ہاتھوں میں کھیلے – ہم نے وہ کیا جو داعش والے ہمیں کرتے دیکھنا چاہتے تھے
ڈیوڈ بلئر رپورٹر دی ٹیلی گراف کہتا ہے کہ تاہم جنرل شا کا تجزیہ ایک سوال ضرور ابھارتا ہے کہ اگر مغرب داعش کے خلاف نظریاتی جنگ لڑنے پر راضی بھی ہوجائے تو کیا سعودی عرب اور قطر داعش کے خلاف نظریاتی جنگ کرنے کے قابل ہوسکیں گے –
Source of News :
http://www.telegraph.co.uk/…/Qatar-and-Saudi-Arabia-have-ig