کربلا میں گزرے چند دن – مبشر علی زیدی
ایک دوست نے لکھا ہے کہ میں شیعوں کے ساتویں امام، شیعوں کے گیارہویں امام کیا کرتا رہتا ہوں۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے مقدس ہستیاں ہیں۔ ان کے نام مدینے کی مسجد میں بھی لکھے ہوئے ہیں۔ بالکل درست۔ میں نے مدینے کی مسجد میں سب نام ڈھونڈ ڈھونڈ کے دیکھے ہیں۔ یہ اہل بیت پاک سے تعلق رکھنے والے امام ہیں۔ شیعہ ان اماموں سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن انھیں شمار کرکے مانتے ہیں۔ اہل سنت کا طریقہ زیادہ اچھا ہے۔ وہ آئمہ اہل بیت کو بے حد، بے شمار مانتے ہیں۔ میں اور بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سنی ہوں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اثنا عشری سلسلے کے لوگوں نے اماموں کی درجہ بندی نہیں کی، انھیں ان کے شجرے کی ترتیب سے یاد کرتے ہیں۔
عاشورہ گزر گیا، امام کا سوئم ہوچکا، اب کیا باقی رہ گیا؟ وطن واپس جائیں گے تو لوگ ملنے آئیں گے۔ انھیں تبرک نہیں دیں گے؟ کچھ پیسے جیب میں ہیں؟ آئیں بازار چلتے ہیں۔ کربلا دنیا کا واحد مقام ہے جہاں سے لوگ کچھ لانے کی فرمائش نہیں کرتے، سوائے مٹی کے۔ وجہ وہی کہ یہاں کی مٹی خاک شفا کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ سونے کے بھاؤ ملنے والی دوا کھاکر صحت مند نہیں ہوتے لیکن یہ خاک چاٹ کر اچھے ہوجاتے ہیں۔ سب اعتقاد کی باتیں ہیں۔
خاک شفا بازار میں ملتی تو ضرور خرید لیتے۔ بازار میں ایک وہی دستیاب نہیں۔ اور سب کچھ ملتا ہے۔ حضرت عباس کے روضے کے سامنے شارع علقمے اور امام حسین کے روضے کے سامنے شارع سدرہ میں بہت سی دکانیں ہیں، جن میں تبرکات ملتے ہیں۔ تسبیحیں، سجدہ گاہیں، جائے نماز، نگینے، انگوٹھیاں، علم کے پنجے، ضریح سے مس کرکے لے جانے کو سبز کپڑے اور طغرے۔ اماموں کی شبیہوں والی چادریں بھی دستیاب ہیں۔
یہ تسبیح کتنے کی ہے؟ پلاسٹک کی تسبیح چار سو دینار، مٹی کی تسبیح ڈھائی ہزار دینار، عقیق کی تسبیح آٹھ ہزار دینار، چھوٹی سجدہ گاہ ایک ہزار دینار کی چالیس عدد۔ بڑی سجدہ گاہ دو ہزار کی چالیس عدد۔ لیکن آغا، آپ زیادہ شاپنگ کریں گے تو کچھ رعایت بھی ملے گی۔ کچھ چیزیں مفت بھی مل سکتی ہیں۔
عراقی دینار کی قدر کم ہے لیکن عراق مہنگا ملک ہے۔ پاکستان کے ایک ہزار روپے کے بدلے گیارہ ہزار دینار مل جاتے ہیں۔ سو ڈالر کے بدلے ایک لاکھ بیس ہزار دینار۔
عقیدت مند روضوں پر حاضری دیتے ہیں تو چڑھاوے بھی کرتے ہیں۔ جی چاہے تو ضریح میں پیسے ڈال دیں، جی چاہے تو اس کام کے لیے بنے ہوئے دفتر میں دے جائیں۔ دفتر میں پیسے دینے سے رسید بھی ملتی ہے اور کوئی تحفہ بھی۔ عموما سبز یا سیاہ کپڑا۔ پچھلی بار میں آیا تھا تو حضرت عباس کے روضے سے ایک قرآن پاک تحفے میں ملا تھا۔ میں وہ قرضہ تو نہیں اتار سکتا لیکن اس بار دفتر میں جاکر کچھ پیسے دیے۔ خدام نے مجھے رسید کے ساتھ ضریح کی ایک خوب صورت تصویر دی۔
کربلا میں ہمارے ہوٹل کے کمرے میں جو پنکھا لگا ہے، اس پر لکھا ہے جی ایف سی۔ زائرین کے علاوہ کوئی ایک شے تو پاکستانی دکھائی دی۔ ایئر کنڈیشنر، فریج، ٹی وی اللہ جانے کن ملکوں کے بنے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کمپنیوں کے نام پہلے کبھی نہیں سنے۔ میرے بیٹے کو گاڑیوں کے نام یاد رہتے ہیں۔ وہ بتاتا رہتا ہے کہ یہاں شیورلیٹ، ہائنڈائی اور کیا گاڑیاں زیادہ ہیں، ٹویوٹا اور ہونڈا کم۔ سائیکلیں اور موٹرسائیکلیں بہت ہیں اور کم عمر لڑکے اسکوٹی چلاتے پھرتے ہیں۔
ہمارے ہاں فقہ جعفریہ کے لوگ فجر، ظہرین اور مغربین کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ کربلا میں ان کے نام الصبح، الظہرین اور العشائین ہیں۔ الصبح کا وقت آج کل 4 بجکر 50 منٹ، الظہرین کا دن 11 بجکر 50 منٹ اور العشائین کا شام 5 بجکر 30 منٹ ہے۔ یہ میں اپنے ہوٹل کی لابی میں لگا پرچہ دیکھ کر پڑھ رہا ہوں۔ ہوٹل کے دروازے پر بھی ایک اعلامیہ دو زبانوں میں چپساں ہے۔ اخی الزائر الکریم، زیارۃ مقبول، لا توجد غرف فارغۃ، سمجھ آیا؟ فارسی میں پڑھیں، زائر گرامی، زیارت مقبول، اتاق خالی موجود نیست یعنی اے زائر محترم، خدا تعالیٰ آپ کی زیارت قبول فرمائے، آپ کی جھولی بھرے لیکن ہمارے سارے کمرے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی کمرا خالی نہیں۔ اندر گھس کر ریسپشنسٹ کو زحمت نہ دیں۔ وہ اپنے مہمانوں کے الٹے سیدھے سوالوں سے ویسے ہی پریشان بیٹھا ہے۔ آپ کے سوال سن کر اس کا پارہ چڑھ سکتا ہے۔
آج ایک دوست سے ملنے گیا۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ہوٹل کا نام پڑھا، فندق زین البارودی۔ گھبرا کے ٹھہر گیا۔ دوست کو فون کرکے باہر بلالیا۔ اس سے چائے پینے کے بجائے اپنے پلے سے قہوہ پلایا۔ ڈر لگا کہ بارودی ہوٹل دھماکے سے نہ پھٹ جائے۔ پتا نہیں عربی میں بارودی کا کیا مطلب ہے۔ ہمارے ہاں کوئی اپنے ہوٹل کا نام بارودی رکھ لے تو سیکورٹی ادارے پہلی فرصت میں اسے ڈی فیوز اور اس کے مالک کو فیوز کردیں گے۔