کربلا – ایک صحافی کی نظر سے – مبشر علی زیدی
کربلا ایک طویل داستان ہے جو اٹھائیس رجب ساٹھ ہجری کو شروع ہوئی اور اس کا ایک باب عاشورہ محرم اکسٹھ ہجری کو اختتام کو پہنچا۔ اس کے بہت سے باب ہیں، بے شمار روایتیں ہیں اور شاید اس میں کچھ مبالغے بھی شامل ہوگئے ہیں۔
عاشورہ محرم ختم ہوا۔ میرے اندر کا صحافی بیدار ہورہا ہے۔ اگر میں کربلا کی جنگ کی کوریج کرتا تو خبر کیسے بناتا؟ شہیدوں کا خون دیکھ کر کیا سرخی نکالتا؟ کون سی سائیڈ اسٹوری کو زیادہ دلچسی سے لکھتا؟
کربلا کے المیے میں مجھے سب سے زیادہ جو بات حیران کرتی ہے، وہ حُر کا کردار ہے۔ میں ایک فکشن رائٹر بن کر سوچتا ہوں کہ اگر حقیقت میں کربلا نہ ہوتی اور یہ محض ایک داستان ہوتی، کسی نے یہ ناول لکھا ہوتا تو عاشور کے دن اس میں ٹوئسٹ کہاں آتا؟
یہ ٹوئسٹ حُر کا پلٹ جانا ہے۔ اہل بیت کا قافلہ 2 محرم کو کربلا پہنچتا ہے تو مخالف فوج کا یہ جرنیل امام حسین کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر ان کا راستہ روکتا ہے۔ امام حسین بار بار راستہ بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ انھیں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ اسی نے ان کے قافلے کو گھیرا تھا۔ وہی پانی بند کرنے والوں میں شامل تھا۔
پھر شب عاشور اچانک کیا ہوا؟ کیا اس نے کوئی خواب دیکھا؟ کیا اسے کسی نے بشارت دی؟ کیا اسے کوئی کشف ہوا؟ عاشور کی صبح وہ اپنے ہاتھوں میں رسی باندھ کے کیوں امام کی خدمت میں پیش ہوگیا؟
ولن ایک رات میں ہیرو کیسے بن گیا؟ آج کربلا والے اسے حُر علیہ السلام کہہ کر یاد کرتے ہیں۔
حر کی قبر گنج شہیداں میں نہیں۔ مقتل میں لکھا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد امام حسین اور ان کے رفقا کی لاشیں پامال کی گئیں۔ ان پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ لیکن اس سے پہلے حُر کے قبیلے والے وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے حُر کی لاش کو پامال نہیں ہونے دیا۔ وہ میت لے گئے اور اسے اپنے علاقے میں دفن کیا۔
آج میں جنابِ حُر کے مزار پر گیا۔ اس علاقے کا نام ہی حُر پڑگیا ہے۔ کسی نے بتایا کہ یہ کربلا کے مرکز سے چھ میل دور ہے۔ اتفاق سے مزار کے بالکل ساتھ ایک اسپتال ہے۔ کچھ لوگ اُدھر شفا طلب کررہے تھے، کچھ اِدھر۔
آج مجھے کربلا سے چالیس میل دور مسیب جانے کا موقع بھی ملا، جہاں مسلم بن عقیل کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم دفن ہیں۔ میں مسلم بن عقیل اور ان کے دونوں بیٹوں کے قتل کی تفصیلات نہیں لکھنا چاہتا۔ سب کچھ تاریخ میں لکھا ہے۔ ان تینوں کی قبریں کربلا میں نہیں لیکن ان کا کربلا کے المیے سے براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ مسلم بن عقیل کا روضہ مسجد کوفہ سے ملحق ہے۔
مسلم کے بیٹوں کے روضے دریائے فرات کے کنارے ہیں۔ یہ کچے کا علاقہ ہے۔ دریا کے ایک طرف یہ قبریں ہیں اور دوسری طرف جنگل ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچے کے علاقے میں ڈاکو چھپ جاتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ یہاں کسی دور میں حکومت کی رٹ نہیں رہی۔ حضرت علی کے دور میں خوارج اس علاقے میں پھیل گئے تھے۔ پھر جنگ نہروان اسی مقام پر ہوئی تھی۔
امام حسین کی میزبانی کی وجہ سے کربلا کی مٹی کو یہ عزت ملی کہ اسے خاک شفا کا نام دیا گیا۔ امام حسین کی قبر کی مٹی بھلا کسے نصیب! ان کا روضہ بھی پختہ ہے اور وہاں گرد کا کوئی کام نہیں۔ دیواریں سنگ مرمر کی ہیں۔ فرش پر قالین بچھے ہیں۔
شیعہ مجتہدین کہتے ہیں کہ روضے کے اطراف سات فرسخ تک کی ساری زمین خاک شفا ہے۔ شاید یہ فاصلہ گیارہ میل کے مساوی ہے۔ بغداد جانے والی سڑک کے گیارہویں میل پر حضرت عون کا روضہ ہے۔
ایک خیال یہ ہے کہ یہاں بی بی زینب کے بیٹے عون بن عبداللہ بن جعفر طیار کی قبر ہے۔ وہ کربلا میں جنگ کرتے کرتے دور نکل آئے اور جہاں شہید ہوئے، وہیں سپرد خاک کردیے گئے۔ اس روضے پر ہر جگہ انھیں کا نام لکھا ہے۔
ایک روایت یہ سننے کو ملی کہ یہ وہ نہیں، دوسرے عون ہیں۔ امام حسین کی چھٹی ساتویں پشت میں سے تھے۔ یہ کربلا کی سرحد پر خیمہ لگاکر بیٹھ گئے تھے۔ مسافروں کی میزبانی کرتے تھے۔ بھوکے پیاسے لوگوں کو کھلاتے پلاتے تھے۔ بیماروں کا علاج کرتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ دور دور سے بیمار وہاں آتے ہیں۔ لوگ دعا کرتے ہیں، شفا خدا دیتا ہے۔ پھر لوگ اپنی رپورٹیں یہاں چسپاں کرجاتے ہیں۔ ساتھ میں اپنا احوال لکھتے ہیں۔
امام حسین کے روضے میں کیمرے اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں۔ خدام انتہائی چوکس ہیں اور سخت تلاشی لیتے ہیں۔ لیکن آج ایک گروپ کے لیڈر نے کہا کہ ہمارے ساتھ چلیں، موبائل فون اور کیمرے لے جانے کی اجازت ہوگی۔ واقعی کسی نے تلاشی نہیں لی۔ گروپ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہوا اور میں ضریح کی جانب لپکا۔ سامنے سے کئی تصاویر اتاریں۔
میرے پاس آئی فون سکس ایس ہے۔ اس سے اچھا رزلٹ کسی اور فون کا نہیں۔ لیکن باہر آکر دیکھا تو قریب کے تمام فوٹو دھندلے پائے۔ کچھ فاصلے سے کھینچی گئی دو چار تصاویر ٹھیک تھیں۔ ان میں سے ایک فیس بک پر پوسٹ کردی۔