کربلا سے شام تک – مبشر علی زیدی
دس محرم کو یوم حسین سب مناتے ہیں۔ کراچی کی انجمن رضائے حسینی گیارہ محرم کو یوم زینب مناتی ہے۔ عاشور کے دن حسینی لشکر کے سب مرد قتل کردیے گئے۔ صرف امام زین العابدین بچے جو بیمار تھے۔ بی بی زینب نے لٹے پٹے قافلے کو سنبھالا۔ جب انھیں قیدی بناکر شام کے دربار میں لے گئے تو بی بی زینب نے وہ خطبہ دیا جس کے سامنے بڑی بڑی تقاریر ہیچ ہیں۔
ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے بی بی زینب پر ایک نظم لکھی تھی۔
اس قدر مظلومیت اور ایسا خطبہ پُر جلال
مل نہیں سکتی ہمیں تاریخ میں ایسی مثال
پیش کرتی ہے انھیں انسانیت زریں خراج
آپ کے سر پر رکھا ہے عالم نسواں نے تاج
امام حسین سے محبت ہے تو قرآن پڑھیں۔ امام حسین کا اور قرآن پاک کا گہرا رشتہ ہے۔ اٹوٹ رشتہ! ذاکرین پڑھتے ہیں کہ امام حسین کا سر کاٹ کے نیزے پر بلند کیا گیا تو اس نے قرآن پڑھنا شروع کردیا۔ شہدائے کربلا کے سروں اور اہل بیت کے اسیروں کو شہر شہر گھمایا گیا۔ اہل بیت پاک کے لیے صرف عزت لکھی ہے۔ امام حسین کا سر قرآن پڑھتا رہا۔ اسلام کی تبلیغ ہوتی گئی۔
آپ کربلا سے دمشق تک کا سفر کرکے دیکھیں۔ راستے میں جگہ جگہ راس الحسین کے نام سے مقامات ملیں گے۔ راس عربی میں سر کو کہتے ہیں۔ میں نے کوفے کی مسجد حنانہ، مسجد سہلا، حلب کا راس الحسین اور دمشق کی مسجد امیہ دیکھی ہے۔ حلب میں موجود پتھر پر آج بھی خون جما ہوا ہے۔ کئی سال پہلے ایک پاکستانی انجمن وہاں نوحہ خوانی کررہی تھی کہ اس پتھر سے خون پھوٹ پڑا۔ اس کی وڈیو موجود ہے۔
جہاں جہاں امام حسین کا سر رکھا گیا، وہاں وہاں آج بھی تلاوت جاری ہے۔ یوں بھی کوئی تبلیغ کرتا ہے؟ یوں بھی کسی نے اسلام کو زندہ رکھا ہے؟ اہل بیت کے اسیروں کا قافلہ کوفے اور دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ مقامی لوگ تماشا سمجھ کر ٹھہر جاتے تھے۔ کچھ شقی پتھر مارتے تھے۔
میں نے شام کا بازار دیکھا ہے۔ اسے سوق حمیدیہ کہتے ہیں۔ یہ ایک طویل بازار ہے۔ میں کئی بار سلطان صلاح الدین کے مقبرے سے مسجد امیہ تک آیا ہوں اور واپس گیا ہوں۔ وہاں پہنچ کر اہل تشیع کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ مسجد امیہ کا احاطہ بہت بڑا ہے۔ اس میں شام کے حاکم کا دربار تھا۔ میں پانچ چھ سال پہلے گیا تھا۔ اس دربار کی نشانی موجود تھی۔ مسجد کے اندر حضرت یحیٰ کا سر دفن ہے۔ باہر برآمدے میں نکلیں تو ایک کمرے کے اوپر راس الحسین لکھا ہے۔ وہاں امام حسین کا سر رکھا گیا تھا۔ وہاں عزادار جاتے ہیں اور روتے ہوئے باہر آتے ہیں۔
مسجد کے عقبی دروازے سے نکلیں تو چند تنگ گلیوں کے بعد بی بی سکینہ کا روضہ ہے۔ اہل بیت کا قافلہ ایک سال تک دمشق میں قید رہا تھا۔ بی بی سکینہ قید خانے کے اندھیرے سے گھبراتی تھیں۔ روز پوچھتی تھی، رہائی کب ملے گی؟ سب کو رہائی مل گئی۔ بی بی آج بھی وہیں ہیں۔ روضے میں اوپر ضریح ہے اور نیچے تہہ خانہ۔ تہہ خانے میں اندھیرا۔ میں چھ سیڑھیاں اترا تھا کہ گھبرا کے واپس آگیا۔ پھر چھ راتوں تک نہیں سوسکا۔
میں کربلا میں ہوں لیکن لکھتے لکھتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں واپس آؤں گا۔ ذرا دمشق کا حال سنادوں۔ دمشق میں ایک قبرستان کا نام باب صغیر ہے۔ وہاں بہت سے صحابہ کرام اور اہل بیت کی قبریں ہیں۔ ایک قبر پر اردو میں لکھا ہے، یہ بی بی فضہ کی قبر ہے۔ بی بی فضہ، سیدہ فاطمہ کی کنیز تھیں۔ کربلا میں امام حسین کے قافلے میں موجود تھیں۔ باب صغیر میں ایک قبر پر بلال حبشی کا نام لکھا ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام سلمہ کا نام ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام کلثوم کا نام ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اصلی قبریں ہیں یا نہیں۔ بہت سی ہستیوں کے بارے میں ایک سے زیادہ مقامات کی روایات ہیں۔ بیشتر لوگ کہتے ہیں بی بی زینب کا روضہ دمشق میں ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، بی بی جنت البقیع میں دفن ہیں۔ میں اسے دیکھ چکا ہوں۔ مصر کے شہر قاہرہ میں بھی بی بی زینب کا ایک مزار ہے۔
باب صغیر کے بالکل سامنے ایک عمارت ہے جس میں ایک ضریح بنی ہوئی ہے۔ مقامی روایت کے مطابق وہاں کربلا میں شہید کیے گئے اہل بیت کے جوانوں کے سر دفن ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ سر واپس کربلا آئے اور یہاں بدن کے ساتھ دفن کیے گئے۔ دمشق کی اس عمارت میں جہاں ضریح ہے، وہاں انھیں کچھ دن رکھا گیا تھا اس لیے لوگ زیارت کرنے آتے ہیں۔ ایک مقام ہے جہاں ان سروں کو دھویا گیا۔ لوگ وہاں اشکوں سے اپنا منہ دھوتے ہیں۔