کربلا میں شام غریباں – مبشر علی زیدی
کربلا میں اس وقت بھی لاکھوں کا مجمع ہے لیکن پھر بھی عجیب سی خاموشی ہے۔ حرمین کے اطراف اتنی روشنی ہے جیسے کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہوں لیکن پھر بھی اداسی ہے۔ رات بھیگ چکی ہے لیکن کسی کی آنکھوں میں نیند نہیں۔ آنکھیں بھی بھیگی ہوئی ہیں۔
کربلا میں شام غریباں ہے۔
سورج سوا نیزے پر تھا تو امام حسین لشکر کے سردار تھے، عباس علم دار تھے۔ اب حسین کا سر نیزے پر ہے اور عابد بیمار لشکر کا سردار ہے، زینب علم دار ہے۔میں بہت دیر سے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن لکھ نہیں پارہا کہ میرا قیام شارع امام علی پر ہے۔ سامنے مخیم حسین ہے۔ مخیم یعنی خیمہ گاہ۔ آج کئی بار اس کا طواف کرکے آگیا لیکن اندر نہیں گھسا۔ پچھلی بار آیا تھا تو دیکھا تھا کہ اندر تین خیمے لگے ہیں۔ اب یہ پختہ عمارت ہے۔
امام حسین کا لشکر آیا ہوگا تو بہت سے خیمے ہوں گے۔ اہل بیت کے خیمے، اصحاب کے خیمے، انصار کے خیمے۔ وہ سب خیمے شام غریباں میں جلادیے گئے تھے۔ حضرت زین العابدین کی طبعیت خراب تھی۔ غش میں پڑے تھے۔ بی بی زینب جلتے خیمے میں داخل ہوئیں اور بیمار بھتیجے کو کھینچ کر، کچھ لوگ کہتے ہیں، پشت پر لاد کر باہر لائیں۔ پھر ایک ٹوٹا ہوا نیزہ اٹھاکر کھوئے ہوئے بچوں کو ڈھونڈنے نکلیں۔ زندہ بچے کم ملے۔
یہ سب ایک دل دوز داستان ہے۔ میں اسے نہیں سناسکتا۔کربلا والے تین دن کے پیاسے تھے۔ امام حسین کے شہید ہونے کے بعد غریبوں کے لیے پانی آیا۔ پانی کیسے آیا، کون لایا، کب آیا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف اتنا پتا ہے کہ پانی آیا تو زینب کبریٰ نے سکینہ کو بلایا۔ ایک کوزہ پانی سے بھر کے دیا۔ سکینہ نے کہا، پہلے آپ پئیں۔ زینب نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ سکینہ کوزہ لے کر چلی۔ زینب نے کہا، کدھر کا ارادہ ہے؟ سکینہ نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ مقتل جارہی ہوں۔ پہلے علی اصغر کو پلاؤں گی۔
حسینی لشکر شہید ہوچکا تو ظالموں نے سب کے سر کاٹ لیے۔ پھر وہ سر نیزوں پر چڑھادیے گئے۔ کربلا میں اس کی یاد منائی جاتی ہے۔ نیزوں پر مصنوعی سر اٹھائے جاتے ہیں۔ شام غریباں میں ایک دستہ خیمہ گاہ کے اطراف وہ نیزے لے کر گشت کرتا رہا۔ دور سے وہ منظر دیکھ کر خوف محسوس ہوا۔ مغرب کے بعد روضہ حسین میں شام غریباں کی مجلس ہوئی۔ میں نے ہوٹل کے ٹی وی میں دیکھا کہ روضہ مکمل بھرا ہوا ہے اور وہاں جانے کی کوئی صورت نہیں۔ السید جاسم الطریجاوی نے وہ مجلس پڑھی۔ جاسم دراصل نوحہ خواں ہیں اور نوحے کے بیچ بیچ میں مصائب بھی پڑھتے جاتے ہیں۔ یہ ایک طویل مجلس تھی۔ میں ہوٹل سے نکلا اور ادھر ادھر پھرتا رہا۔ دیکھا کہ لوگ شمعیں جلارہے ہیں۔
پاکستان میں شب عاشور کو امام بارگاہوں میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ کربلا میں شب عاشور کو نہیں، شام غریباں کو شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں آج اپنے حقوق کے لیے کیسے آواز بلند کی جاتی ہے؟ مظلوموں کی یاد کیسے منائی جاتی ہے؟ پاکستان میں مذہبی تنظیمیں جلوس نکالتی ہیں۔ سیکولر لوگ شمعیں روشن کرتے ہیں۔ سیاست دان اور سفارت کار عظیم رہنماؤں کے مقبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ سب دنیا کو کس نے سکھایا ہے؟
روضہ حسین میں شام غریباں کی مجلس ختم ہوئی۔ لوگ چھٹنا شروع ہوگئے۔ میں روضے میں داخل ہوا اور امام حسین کی ضریح تک پہنچا۔ گنبد کے نیچے نماز پڑھی۔ پھر دوسری جانب سے باہر نکلا۔ دیکھا کہ چھ آدمی اردو میں نوحہ پڑھ رہے ہیں اور ان کے فقط چھ ہی ساتھی ماتم کررہے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے دوسرے کی قمیص پکڑے ہوئے، ایک بار جھک کر، دوسری بار اٹھ کر دایاں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے۔ یہ ویسا ماتم تھا جیسا امروہے والے کرتے ہیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ دو نوحوں کے بیچ کے وقفے میں ایک نوحہ خواں سے پوچھا، آپ کہاں سے آئے ہیں۔ اس نے کہا، کینیا سے۔ ہم گجراتی بولتے ہیں لیکن نوحہ اردو میں پڑھتے ہیں۔ بہت عرصے سے کینیا میں آباد ہیں۔
۔
زیارت کے بعد میں روضہ حسین سے نکلنے کو تھا کہ ہٹو بچو کی آوازیں آئیں۔ دس بارہ محافظ کسی شخص کو گھیرے میں لیے چلے آرہے تھے۔ یہ السید جاسم تھے۔ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بڑھتے تھے اور محافظ انھیں دھکا دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑا رہا اور جب وہ میرے قریب آئے تو ہاتھ آگے بڑھادیا۔ دھکے تو لگے لیکن السید جاسم نے مصافحہ کرلیا۔ محنت وصول ہوئی۔
۔
قمہ کا ماتم ہمیشہ جلوس میں کیا جاتا ہے۔ لبنانی ماتم دار دستے کے ارکان ایک ساتھ مل کر چھریاں سر پر مارتے ہیں۔ میں نے کراچی میں دیکھا ہے کہ ماتمی دستے کے ارکان ایک ایک کرکے قمہ لگاتے ہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے میں نے حضرت عباس کے روضے کے باہر ایک تنہا بوڑھے کو تلوار سر پر مارتے دیکھا۔ تلوار ایسے ماری جاتی ہے کہ سر کی کھال کٹتی ہے۔ خون نکل آتا ہے۔ کھوپڑی کو نقصان نہیں ہوتا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہاں کوئی جلوس نہیں تھا۔ کوئی نوحہ نہیں پڑھ رہا تھا۔ کوئی دوسرا ماتم نہیں کررہا تھا۔گمان ہے کہ وہ بوڑھا کہیں دور سے آیا ہوگا۔ وقت پر کربلا نہیں پہنچ سکا ہوگا۔ جیسے ہی پہنچا، زمین پر بیٹھا اور تلوار نکال کر سر پر تین چار بار مار لی۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور سر پر ہاتھ مار مار کے امام حسین کو یاد کرنے لگا۔ سر سے خون بہتا جاتا تھا، آنکھوں سے اشک۔