امام بارگاہوں کا سماجی مراکز کے طور پر استعمال ناگزیر ہے – امجد عباس
ہند و پاک کے طول و عرض میں اہلِ تشیع نے مساجد کے علاوہ اپنی مذہبی تقاریب کے لیے مذہبی مقامات بنا رکھے ہیں جنہیں امام بارگاہ کہا جاتا ہے۔ میں انہیں سماجی مرکز سمجھتا ہوں۔
اِن میں مخصوص ایام میں مجالس کا انعقاد ہوتا ہے۔ میں نے بڑے بڑے امام بارگاہ دیکھے، وسیع و عریض عمارت سال کے اکثر دن خالی رہتی ہے۔
اگر ایسے مقامات کو کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال کیا جائے تو کتنا بہتر ہو، شادی، فوتگی و دیگر سماجی تقاریب انہی میں منعقد کی جائیں تو بہت اچھا ہو گا یوں میرج ہال وغیرہ کا استعمال کم ہوگا، ورنہ سال کے چند دنوں میں مجالس کے لیے اتنی بڑی عمارتیں شاید غیر ضروری ہوں۔
اِن عمارات کو سکولوں کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
غریبوں، لاچاروں اور ناداروں کو بھی اِن میں رہائش دی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں الصادق امام بارگاہ میں مختلف سماجی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں، اس میں میت کو نہلانے اور کفنانے کا بندوبست بھی ہے، جبکہ تعلیمی مقاصد کے لیے بھی یہ عمارت مستعمل ہے۔
صرف چند دن مجالس کے لیے اتنی بڑی عمارتیں بنانا، ناقابلِ فہم ہے۔
یہ چیزیں اپنی ضرورت کے وقت استعمال کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں نا کہ مقدس جان کر چومنے کے لیے۔