نماز میں ہاتھ کھولنے/ باندھنے کا بیان – امجد عباس

amjedsunni-shia-pray

مسلمان دن میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، جہاں نماز میں مختلف اختلافات ہیں، وہیں ہاتھ کھول کر یا باندھ کر پڑھنے میں بھی اختلاف ہے۔

اہلِ تشیع کے ہاں معروف یہ ہے کہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا فرض، پس باندھنا حرام اور مبطلِ نماز ہے یا صرف حرام جبکہ مبطلِ نماز نہیں، جبکہ غیر معروف رائے کی بناء پر کھولنا مستحب اور باندھنا مکروہ ہے۔ زیدیہ بھی ہاتھ کھول کر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔ اباضیہ کا بھی یہی طریقہ ہے۔

جبکہ اہلِ سنت کے تین نظریات ہیں:

1- ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا افضل ہے، جبکہ باندھنا مکروہ، اس کے امام مالک قائل ہیں۔

2- ہاتھ باندھ کر پڑھنا افضل، جبکہ کھولنا بھی جائز، اس کے احناف، شوافع اور حنابلہ قائل ہیں۔ اِن فقہاء کے نزدیک اس میں بھی اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں گے، بعض سینے پر جبکہ کچھ زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔

3- کچھ اہلِ سنت علماء کے نزدیک باندھنا و کھولنا دونوں برابر ہیں جیسے عطا اور امام اوزاعی۔

اہلِ تشیع، زیدیہ، مالکیہ اور اباضیہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں، جبکہ صحابہ کرام کی ایک جماعت، بشمول حضرت علی و حضرت عبد اللہ بن زبیر کے، سے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا مروی ہے، جبکہ تابعین میں سے سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، مجاہد، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور ابن سیرین سے بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا مروی ہے۔ آئمہِ اہلِ بیت سے بھی ہاتھ کھولنا ہی مروی ہے، جیسا کہ علامہ وحید الزمان خان نے بھی تیسر الباری شرح صحیح بخاری میں تصریح کی ہے۔

اہلِ تشیع، زیدیہ، مالکیہ اور اباضیہ فقہاء کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، جبکہ آپ سے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کی روایات مذکور ہیں۔

جیسا کہ بخاری شریف میں اس طرح کے الفاظ ہیں ” کان الناس یؤمر۔۔۔” کہ لوگوں کو ہاتھ باندھ کر نماز کا حکم دیا جاتا تھا، اب حکم کون دیتا تھا یہ صراحت نہیں، سو یہ حدیث مرفوع نہیں۔

ابو حازم تابعی اسے موقوف جانتا ہے۔ جبکہ اس روایت کے راوی امام مالک کے نزدیک باندھنا مکروہ ہے، لہذا یہ روایت لائقِ التفات نہیں۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ باندھنے کی ایک روایت علقمہ بن وائل سے منقول ہے، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی جبکہ وہ اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوئے۔ امام نووی نے فرمایا کہ علقمہ کی اپنے باپ سے روایات مرسلہ جبکہ ان کا غلام مجہول ہے۔ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ علقمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔

جبکہ ابو داؤد، دارقطنی، نسائی اور ابن ماجہ کی سنن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت حجاج بن ابی زینب سے مروی ہے، یہ راوی ثقہ نہیں۔

سو اِن (مالکیہ، شیعہ اور اباضیہ) کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا ثابت نہیں، اہلِ مدینہ ہاتھ کھول کر ہی نماز پڑھتے تھے تب ہی امام مالک نے اسے بہتر قرار دیا۔

اس کے مقابلے میں دیگر اہلِ سنت (شوافع، احناف اور حنابلہ) کا کہنا ہے کہ ہاتھ باندھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے، ہاں واجب یا فرض نہیں ہے۔

کئی فقہاء نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ نماز ہاتھ کھول کر ہی پڑھنی چاہیے لیکن تھک جانے کی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، مالکی فقیہ شیخ مختار الداؤدی نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے ” البراھین المستنابۃ فی ان وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ للاستعانۃ “۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کئی سال دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھائی، لیکن اسلامی مسالک میں نماز کی کیفیت پر اتفاق نہیں پایا جاتا، ہاتھ کھولنے/ باندھنے کی کیفیت بھی یقینی نہیں ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باندھتے تھے، کچھ کہتے ہیں کہ کھول کر پڑھا کرتے تھے، کچھ کہتے ہیں کہ دونوں طریقے ثابت ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باندھ اور کھول کر، ہر دو طرح پڑھی۔ ہاں بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ کھول کر نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن لمبے قیام کی وجہ سے کبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیتے۔

یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ نماز میں ہاتھ کھولنے یا باندھنے کا اختلاف کب سے شروع ہوا، وہ فقہاء جن کا دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے، وہ بھی یہ نشاندہی نہیں کر پائے کہ ہاتھ باندھنا کب اور کیسے رواج پا گیا، نیز جو فقہاء ہاتھ باندھنے ہی کو سنت جانتے ہیں وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ کھولنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا، لیکن اتنا ضرور ملتا ہے کہ حضرت علیؑ نماز میں ہاتھ باندھنے کو ناپسند کرتے اور اسے مجوسیوں کا طریقہ قرار دیکر ہاتھ کھلوا دیتے تھے، چنانچہ امام بخاری کے استاد ابن ابی شیبہ کی کتاب “المصنف” کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مالکی، اباضی اور شیعہ فقہاء نے ہاتھ کھولنے کی افضلیت پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر بھی ہاتھ کھلوا دیتے تھے۔

ہاں امام ابو زرعہ دمشقی متوفیٰ 281ھ نے اپنی تاریخ میں اس اختلاف کے آغاز پر ایک حد تک روشنی ڈالی ہے، چنانچہ فقیہِ مدینہ حضرت ابنِ سہل متوفیٰ 100ھ (آپ کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی، باپ صحابی جبکہ اِنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا ہے، بعض نے انہیں صحابی تو بعض نے ثقہ تابعی قرار دیا ہے) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا، مدینہ منورہ میں بھی سبھی لوگ ہاتھ کھول کر نماز پڑھا کرتے تھے، وہ شام آئے تو وہاں امام اوزاعی کو ہاتھ باندھ کر لوگوں کو نماز پڑھاتے دیکھا۔ اصل روایت یوں ہے

وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَحْيَى المَعَافِرِيِّ ، عَنْ حَيْوَةَ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو ” أَنَّهُ لَمْ يَرَ أَبَا أُمَامَةَ يَعْنِي ابْنَ سَهْلٍ وَاضِعًا إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى قَطٌّ ، وَلَا أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ، حَتَّى قَدِمَ الشَّامَ ، فَرَأَى الْأَوْزَاعِيَّ ، وَنَاسًا يَضَعُونَهُ ” .
(تاريخ أبي زرعة الدمشقي، التَّاسِعُ مِنَ التَّارِيخِ، رقم الحدیث 1651)

نتیجہ:

ہاتھ کھول کر یا باندھ کر نماز پڑھنا کوئی اتنا بڑا اختلافی مسئلہ نہیں ہے، ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا سب مسلمان فرقوں کے نزدیک جائز ہے (کچھ کے نزدیک مستحب تو اہلِ تشیع کی معروف رائے اس کے وجوب کی ہے) جبکہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا کسی کے نزدیک واجب/ فرض نہیں ہے ( کچھ کے نزدیک بہتر، بعض کے نزدیک مکروہ تو اہلِ تشیع کی معروف رائے کے مطابق حرام ہے)۔ پس نماز دونوں طریقوں سے درست ہے، ہاتھ کھولے جائیں یا باندھے جائیں (اہلِ تشیع میں مشہور ہاتھ کھولنے کا وجوب جبکہ غیر معروف استحباب ہے، غیر معروف نظریہ کی بناء پر اُن کے نزدیک بھی دونوں طریقے درست قرار پائیں گے)۔

ہاتھ کھولنے والا، باندھنے والے اور باندھنے والا کھولنے والے کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔

جب ایسا ہے تو ہاتھ باندھ / کھول کر نماز پڑھنے کو اپنی پہچان کیونکر بنایا جا سکتا ہے!

(تفصیلات کے لیے ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد، مالکیہ کی المدونۃ الکبریٰ، امام نووی کی المجموع، وحبۃ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ، شیخ امین بن صالح کی فقہ الآل، جزری کی الفقہ علیٰ المذاھب الاربعۃ اور مغنیہ کی الفقہ علیٰ المذاھب الخمسۃ کی طرف رجوع کیجے)

Comments

comments