کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس آپ کا استقبال کرتے ہیں – مبشرعلی زیدی
کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس آپ کا استقبال کرتے ہیں۔اس بات کا ایک اور مطلب بھی ہے لیکن میں یہ بتارہا ہوں کہ دور سے آپ کو غازی کے روضے کا گنبد نظر آجائے گا۔ یہ امام حسین کے روضے کے گنبد سے کچھ مختلف ہے۔ بنانے والوں نے اسے کچھ ایسے بنایا ہے کہ اس میں کشش پیدا ہوگئی ہے۔
میری پھپھو نے کوئی چار دہائیاں قبل کچھ عرصہ، شاید کئی سال کربلا میں قیام کیا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ رات کو وہ بین الحرمین بیٹھ جاتی تھیں۔ پھر انھیں گنبد سے آسمان تک روشنی کا ایک سلسلہ، ایک مینار دکھائی دیتا تھا۔پھپھو نے یہ بات اس وقت بتائی تھی جب میں اتنا چھوٹا تھا کہ اسکول میں بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ قسم خدا کی، یہ بات آج سے پہلے کبھی یاد نہیں آئی۔ گنبد دیکھا تو پھپھو کے الفاظ کان میں گونجے۔
آج رات میں بین الحرمین جابیٹھا۔ گنبد پر نگاہیں جمادیں۔ جب تک آنکھیں خشک رہیں، کچھ نظر نہیں آیا۔ جیسے ہی ان میں اشک بھرے، روشنی کا ایک مینار آسمان تک بلند ہوگیا۔
بین الحرمین کا مطلب ہے، دو حرموں کے درمیان کی جگہ۔ کربلا میں ایک راستہ ایسا ہے کہ ایک طرف امام حسین کا حرم ہے، دوسری طرف حضرت عباس کا روضہ۔ درمیان میں اشک بار سوگ وار عزادار۔ یہ اصطلاح کربلا کے علاوہ میں نے صرف مدینے میں سنی ہے۔ ایک طرف پاک نبی کا روضہ، دوسری طرف پاک ہستیوں کی آرام گاہ جنت البقیع۔ میں نے وہاں بھی بہت گشت کیا ہے۔
گشت کرنے کا ایک اور مقام مکہ میں ہے۔ ایک طرف صفا، دوسری طرف مروہ۔ ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں جو عمرے کا حصہ ہے۔ کربلا والے کہتے ہیں کہ حسین اور عباس کی قبروں کے درمیان ٹھیک اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صفا اور مروہ کے درمیان۔ میں نے فاصلہ تو نہیں ناپا لیکن کربلا میں بھی پیاس اتنی ہی پائی جتنی اسماعیل کو لگی ہوگی اور بے قراری اتنی ہی دیکھی جتنی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی ہوئی ماں کو ہوگی۔
میں نے کل لکھا تھا کہ کربلا پہنچ کر امام حسین کے روضے پر جانے سے پہلے میں ایک اور مقام پر گیا تھا۔ وہ مقام حضرت عباس کا روضہ ہے۔حضرت عباس امام حسین کے چھوٹے بھائی تھے۔ بی بی فاطمہ کے نہیں، بی بی ام البنین کے فرزند تھے اس لیے امام کو بھائی نہیں، ہمیشہ آقا کہا۔ ان کی بہادری اور وفا کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
میں نے کسی کا قول پڑھا ہے کہ کربلا میں اگر بنو ہاشم کے چار دلیر ایک ساتھ ہوتے تو جنگ کا ظاہری نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ حسین، محمد بن حنفیہ، مسلم بن عقیل اور عباس۔عباس کی جنگ دیکھ کر لوگوں کو علی کی جنگ یاد آجاتی تھی۔ لیکن امام حسین نے انھیں لڑنے نہیں دیا، لشکر کا علم دار بنادیا۔ لشکر کٹ گیا تو بھی حملے کی نہیں، صرف دفاع کی اجازت ملی۔ بچوں کی پیاس دیکھ کر مشکیزہ لے کر نکلے اور لڑتے لڑتے دریا تک پہنچ گئے لیکن پانی نہیں پیا۔ واپسی پر گھیر کے شہید کردیا گیا۔
کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص پانی نہیں لایا لیکن اس کا نام سقا پڑگیا؟ آج آٹھ محرم ہے۔ کسی شیعہ گھر میں جھانکیں۔ ہرا لباس پہنے کوئی نہ کوئی بچہ سقا بنا ہوا نظر آئے گا۔ ہاتھ میں علم ہوگا، علم پر مشک ہوگی۔ مشک میں پانی نہیں ہوگا۔ مشک پیاسی ہوگی۔
دریا سے واپسی پر عباس کے ایک ہاتھ میں علم تھا، دوسرے میں مشک۔ جنگ کیسے کرتے۔ ایک ظالم نے تلوار سے وار کرکے ان کا دایاں بازو کاٹ دیا، دوسرے نے بایاں۔ کربلا میں ان دونوں مقامات کے نشان موجود ہے۔ ان کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ عباس کے روضے کے ایک طرف امام حسین کا روضہ ہے اور یہ مقامات دوسری طرف۔ اب وہاں بازار بن گیا ہے اور بہت سی دکانیں ہیں۔ تبرکات کی دکانیں۔ علم کی دکانیں۔ پرچموں کی دکانیں۔ مشکیزوں کی دکانیں۔ لوگ علم کا پھریرا خریدتے ہیں اور سامنے روضے میں جاکر جالی سے مس کرلیتے ہیں۔
کبھی کراچی میں امروہے والوں کا جلوس دیکھا ہے؟ جلوس تو خیر امام حسین کا ہوتا ہے لیکن امروہے والے اٹھاتے ہیں۔ یہ چھ محرم کو رضویہ میں، سات محرم کو انچولی میں اور آٹھ محرم کو نشترپارک سے برآمد ہوتا ہے۔ اس جلوس میں روایتی طور پر سڑک پر ماتم نہیں ہوتا۔ صرف حسین حسین کی صدائیں ہوتی ہیں اور علم ہوتے ہیں۔ پھریرے کے علم، تلواروں کے علم، مشکیزے کے علم، پھولوں سے لدے ہوئے علم۔
امروہے والے ایک خاص قسم کا علم بناتے ہیں جو مجھ کم علم نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ اس میں ایک بڑی کمان کے دونوں جانب دو تلواریں لٹکائی جاتی ہیں۔ پھر اسے گلاب کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے سجادیا جاتا ہے۔ بعضے لوگ اتنا پھول چڑھادیتے ہیں کہ علم کو اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔
تین دہائیاں پہلے جب ہم خانیوال میں رہتے تھے تو میرے ماموں وہ علم سجاتے تھے۔ چھ محرم اور عاشور کو جلوس اٹھتا تھا تو ایک چوک میں علم کی سلامی دی جاتی تھی۔ کوئی جوان وہ بھاری علم لے کر بیچ میں آتا تھا اور اسے تیزی سے گردش دیتا تھا۔ تلواریں ہوا میں رقص کرتی تھیں۔ پھول اڑان بھرتے تھے۔ فضا معطر ہوجاتی تھی۔ میں حیرت سے اس نظارے میں گم ہوجاتا تھا۔ کچھ دیر کو کربلا پہنچ جاتا تھا۔
آج سچ مچ کربلا پہنچ گیا ہوں۔میں نے کراچی میں ویسی سلامی نہیں دیکھی۔ آج غازی کے روضے پر ایک علم دار کو پھریرے والے پرچم کی سلامی دیتے ہوئے دیکھا تو اس نظارے میں گم ہوگیا۔ کچھ دیر کو تین دہائیاں قبل خانیوال پہنچ گیا۔
حضرت عباس دریا کے کنارے شہید کیے گئے تھے۔ روایت ہے کہ جب امام حسین ان کے پاس پہنچے تو لبوں پر دم تھا۔ جاتے جاتے کہا کہ میری لاش یہیں رہنے دیں، خیموں کی طرف نہ لے جائیں۔ ان ننھے بچوں کا سامنا کیسے کروں جن کے لیے پانی نہیں لے جاسکا۔ حضرت عباس کی قبر وہیں بنائی گئی۔
آپ روضے میں داخل ہوں گے تو ضریح دکھائی دے گی۔ قبر اس کے نیچے زیر زمین ہے۔ اسے سرداب کہتے ہیں۔ دریا صدیوں پہلے راستہ بدل چکا۔ آج کربلا میں کوئی دریا نہیں۔ لیکن عباس کی قبر کے چاروں طرف پانی ہے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ یہ پانی اتنا شرمندہ کیوں ہے؟ یہ پانی اس قبر کا طواف کیوں کرتا رہتا ہے؟
۔