Maulana Fazlur-Rehman and the military establishment’s new game – by Nazir Naji
Related article:
JUI breakup: Evading North Waziristan Operation – by Faruq Adil
بات وزارت عظمیٰ کی ہے
سویرے سویرے…نذیر ناجی
جب جنگ میں دو متوازی سوچیں چل رہی ہیں‘ تو سیاسی عمل اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کے سٹریٹجک پالیسی سازوں میں دو سوچیں پائی جاتی ہیں۔
ایک یہ کہ طالبان کو اثاثے تصور کرتے ہوئے‘ ان کے خلاف موثر کارروائی سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کی جو کشمکش شروع ہو گی‘ اس میں پاکستان کا حامی فریق یہی طالبان ہوں گے جبکہ غیرپختون نسلی گروہ جو کرزئی انتظامیہ پر غالب ہیں‘ وہ پاکستان مخالف رویہ اختیار کریں گے اور ہمیں ان کے ساتھ طالبان کی مدد درکار ہو گی۔پالیسی سازی کے عمل میں یہ سوچ رکھنے والے کافی موثر ہیں۔
دوسری سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات سے جلد از جلد اپنا پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ طالبان سے دشمنی مول لینا یا ان سے برسرپیکار ہونا کسی بھی طرح ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ ہم چاہیں بھی تو طالبان کی مدد سے افغانستان میں اپنے زیراثر حکومت قائم نہیں کر سکتے۔ جب وہ ہماری مکمل مدد کے ساتھ اقتدار پر قابض تھے‘ انہوں نے اس وقت بھی پاکستان کے جائز قومی مطالبات پر کان نہیں دھرا تھا۔ وہ چاہتے تو بطور ایک موثر حکومت ڈیورنڈ لائن کا معاملہ طے کر سکتے تھے تاکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف یا ٹکراؤ کی کوئی بنیاد باقی نہ رہے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب وہ صرف پاکستان کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اپنی خودمختار جنگی مشینری تیار کر چکے ہیں۔ اپنے وسائل پیدا کر چکے ہیں۔ اپنی طاقت پاکستان کی مدد کے بغیر منظم کر چکے ہیں۔ اب یہ سوچنا کہ وہ افغانستان کے اندر اقتدار کی کشمکش میں کامیاب ہو کر پاکستان کے آلہ کار بن جائیں گے‘ احمقوں کی جنگ میں رہنے کے مترادف ہے۔ وہ اپنے تصورات کے ساتھ‘ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے متصادم بھی ہوں۔
یہی دو متوازی سوچیں پاکستانی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ طالبان کو پاکستانی اثاثے سمجھنے والے عناصر موجودہ حکومت اور جمہوریت ‘ دونوں پر خوش نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت امریکی دباؤ کے زیراثر‘ پاکستان کو طالبان کے ساتھ تصادم کے راستے پر لے جا رہی ہے۔ ان کی رائے میں اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان زیادہ مشکلات سے دوچار ہو گا۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اتحادیوں کو افغانستان میں مکمل شکست ہو چکی ہے۔ وہاں سے بیرونی افواج کو واپس جانا ہو گا۔ کرزئی حکومت طالبان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ آخرکار افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گا۔ اگر آج ہم ان کے مدد گار وبنتے ہیں‘ تو کل وہ افغانستان میں برسراقتدار آکر ہمارے اشاروں پر چلیں گے اور سٹریٹجک گہرائی کا جو خواب ہمارے چند نابغہ روزگار عسکری مفکروں نے دیکھ رکھا ہے‘ وہ پورا ہو جائے گا۔
اس حکمت عملی کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ حکومت کو غیرموثر یا محروم اقتدار کرنا ضروری ہے۔ فطری بات ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے جب سیاسی نظام پر پہلی ضرب لگائیں گے‘ تو تیشہ کس کے ہاتھ میں ہو گا؟ بغیر کسی تردد کے ہر سیاسی کارکن کی نظریں مولانا فضل الرحمن کی طرف اٹھیں گی اور یہ بالکل درست ہو گا۔ پارلیمنٹ کے اندر مولانا ہی واحد شخصیت ہیں‘ جو ایسی سوچ رکھنے والوں کے کام آ سکتے ہیں۔
توقع کے عین مطابق وہی آگے بڑھے اور وہ سیاسی طاقت منظم کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی‘ جو سٹریٹجک گہرائی والوں کے مقاصد کی تکمیل میں مددگار ہو سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت پر پہلی ضرب لگا دی ہے۔ یہ سوچنا کہ اب وہ وزارتوں پر مان جائیں گے‘ آنے والے حالات سے بے خبری ہے۔ اب مولانا کے سامنے صرف وزارتیں نہیں‘ وزارت عظمیٰ ہو گی۔ یوں بھی پاکستان کے مذہبی سیاستدان اچھی طرح جان چکے ہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے ووٹ لے کر کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ انہیں ہمیشہ جزوی نشستیں ملیں گی اور جوڑتوڑ کر کے جو چند وزارتیں دستیاب ہوں گی‘ انہی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ مگر ان کی اقتدار کی بھوک‘ ان کی طاقت اور پیٹ کے سائز دونوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ مولانا گزشتہ اسمبلی میں بھی صرف تین درجن نمائندوں کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن بیٹھے تھے اور وہ آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے کچھ دوست ان سے آنکھیں نہ پھیرتے‘ تو وزارت عظمیٰ ان کے رومال میں آ چکی تھی۔
اب تو وکی لیکس نے بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ مولانا اسمبلی کے اندر ہی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے جتن نہیں کر رہے تھے‘ انہوں نے امریکیوں کی مدد بھی مانگ لی تھی۔ وزیراعظم بننے کا خبط اگر ایک بار کسی کے ذہن پر سوار ہو جائے‘ تو پھر اترتا نہیں ہے۔ اس پہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا کی منزل وزارت عظمیٰ ہے۔ جمہوری نظام میں وہ سات نشستوں کے ساتھ وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ لیکن آمریت میں میرظفر اللہ جمالی ایک نشست کے ساتھ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ یہی راستہ مولانا کی خواہشات کو منزل پر لے جا سکتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں‘ اس راستے پر چل کر کامیابی کی منزل حاصل کرنا ممکن نظر آتا ہے۔ میں نے جن عناصر کی بات کی ہے‘ وہ متحرک بھی ہیں‘ منظم بھی اور موثر بھی۔ ان میں سٹریٹجک پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کافی طاقت ہے۔ جب امریکہ سے مکمل بغاوت کے بعد طالبان کو اتحادی بناکر افغان جنگ میں فریق بننے کا فیصلہ ہو گا‘ تو اس وقت پاکستان میں ایسی حکومت کا وجود ضروری ہے‘ جو اس پالیسی کو اختیار کر کے زیرعمل لا سکے۔
فوجی آمروں نے مسلسل تجربات کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں کو استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ اگر پرویزمشرف کی نجی سوچیں اور سٹائل آڑے نہ آتے‘ تو متحدہ مجلس عمل کو اقتدار کے لئے تیار کیا جا سکتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن یونہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں بنے تھے‘ ان کے پیچھے ایسی طاقتیں موجود تھیں‘ جو پاکستان کو مذہبی ریاست بنا کر‘ ایٹمی طاقت کے ذریعے دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ پرویزمشرف ذاتی رحجانات کی وجہ سے اس فکر کے حامی نہ بن سکے۔ درحقیقت وہ کسی بھی فکر پر قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے اقتدار کی ضروریات الگ تھیں۔ انہیں طاقت مہیا کرنے والے مراکز کے اہداف علیحدہ تھے۔ ان کا تصور زندگی مختلف تھا۔ انہیں اقتدار میں لانے والوں کا تصور زندگی الگ تھا۔ وہ فکری لحاظ سے ہمیشہ تذبذب میں رہے۔ نہ پورے سیکولر بنے‘ نہ مذہبی‘ نہ جمہوری بنے‘ نہ آمر۔ وہ جو کچھ بھی بنے آدھے بنے اور زندگی کے معاملات کو چلانا آدھے آدمیوں کا کام نہیں ہوتا۔
اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آگے چل کر ان معاملات کو دیگر زاویوں سے بھی دیکھیں گے۔ فی الحال تو مولانا فضل الرحمن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب وہ جلد ہی اتحاد بین المسلمین کے لیڈر بن کر میدان میں اتریں گے۔ باقی سارے مذہبی گروپوں کو اشارے آ چکے ہوں گے کہ وہ مولانا کو سیاسی طاقت مہیا کرنے کے لئے ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔مولانا سیاسی اور علاقائی بنیادوں پر جوڑ توڑ سے بھی نہیں کتراتے۔ وہ اپنی اس اہلیت کا استعمال بھی کریں گے اور اگر انہیں آگے کرنے والوں کو اپنے منصوبے پورے کرنے کے لئے سازگار فضا ملتی گئی‘ تو مڈٹرم الیکشن میں کسی متحدہ مجلس عمل ٹائپ کے اتحاد کو اتنی طاقت دی جا سکتی ہے کہ وہ گٹھ جوڑ کر کے اقتدار پر قابض ہو جائے۔ ظاہر ہے ایسی حکومت کی سربراہی کے خواب دیکھنے کا سب سے زیادہ حق مولانا فضل الرحمن کو ہے۔
Source: Jang, 22 Dec 2010
What Maulana Fazlur Rehman has on the cards – by Ali Arqam
http://criticalppp.com/archives/33494
Politicians are opium eaters and corrupt, military is clean – Hamid Mir
ایک چرسی دوسرا بھنگی…قلم کمان …حامد میر
آصف علی زرداری کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مولانا فضل الرحمان اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور پھر لاکھ منت سماجت کے بعد بھی واپس نہ آئیں گے۔
چند ماہ قبل جے یو آئی کے سینیٹر اعظم سواتی اور ایم کیو ایم کے سینیٹر بابر غوری وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد آپس میں رازو نیاز کر رہے تھے تو سواتی نے کہا کہ کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس حکومت کو چھوڑنا ہی پڑے گا ۔ یہ سن کر بابر غوری ہنس دیئے اور خیال ظاہر کیا کہ مولانا فضل الرحمان ایک دن کیلئے بھی حکومت نہیں چھوڑیں گے۔ یہ صرف بابر غوری کا نہیں بلکہ کئی منجھے ہوئے تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان اس حکومت میں آصف علی زرداری کے ساتھ آئے ہیں اور ان کے ساتھ ہی جائیں گے۔
جس دن مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تو آصف علی زرداری دنگ رہ گئے۔چند دن بعد مولانا چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں عشایئے میں شرکت کیلئے ایوان صدر گئے تو آصف علی زرداری نے عشائیہ ختم ہونے کے بعد اپنے پرانے دوست کو روک لیا ۔ آصف علی زرداری نے مولانا سے کہا کہ یاد کیجئے 2002ء میں جیل سے بیٹھ کر میں نے آپ کو وزیراعظم بنانے کی حمایت کی تھی آپ نے مجھے اپنا مخالف کیسے سمجھ لیا؟ مولانا نے جواب میں بہت سی وضاحتیں پیش کیں اور کہا کہ آپ کے وزیر اعظم نے میری جماعت کے وزیر کو مجھ سے پوچھے بغیر وفاقی کابینہ سے نکال کر پوری جماعت کی توہین کی اس ئے ہم حکومت چھوڑنے میں حق بجانب ہیں۔
آصف علی زرداری مسکرائے اور مولانا کو یاد دلاتے ہوئے پوچھا کہ فروری2008ء میں حکومت سازی سے قبل میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ وزیر اعظم کسے بناؤں تو آپ نے کیا جواب دیا تھا؟ یہ سوال سن کر مولانا ٹھٹھک گئے اور نظریں جھکا کر بولے ہاں مجھے یاد ہے کہ میں نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ کچھ توقف کے بعد مولانا نے مزید کہا کہ میرا خیال تھا کہ گیلانی چالاک آدمی نہیں ہے اور تیز دماغ بھی نہیں۔ اس لئے کوئی سازش نہیں کرے گا لیکن اس نے تو حامد سعید کاظمی کو بچانے کیلئے اعظم سواتی کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو منانے کے بہت جتن کئے لیکن مولانا نے توہین رسالت کے قانون پر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قابل اعتراض بیان پر بات شروع کر دی۔ صد زرداری نے وعدہ کیا کہ ناں تو اس قانون میں کوئی تبدیلی ہو گی اور نہ ہی آئندہ سلمان تاثیر اس معاملے پر کچھ بولے گا لیکن مولانا نے ایک اور قصہ چھیڑ دیا ۔ فرمایا کہ جناب صدر آپ کے ساتھ چلنا بہت دشوار ہو گیا کیونکہ آپکا ایک وزیراعلیٰ چرسی اور دوسرا بھنگی ہے۔
آصف علی زرداری نے اس بات کو مذاق سمجھ کر ٹالنے کی کوشش کی تو مولانا سنجیدہ ہو گئے۔ کہا میں کوئی مذاق نہیں کر رہا۔ آپ کا ایک وزیر اعلیٰ چرس نوشی کی وجہ سے مدہوش رہتا ہے اور دوسرا بھنگ کا رسیا ہے۔ صدر زرداری نے اپنا سر پکڑ لیا اور مولانا فضل الرحمان اپنے جاہ و جلال کیساتھ ایوان صدر سے واپس لوٹ آئے۔
صدر صاحب اور ملک کی سب سے بڑی دینی جماعت کے سربراہ کے درمیان ہونیوالے مکالمے کی کچھ تفصیلات آپ کے سامنے لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو بتا سکوں صدر زرداری اتنے بھی لاعلم نہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے انہیں بڑے اعتماد کے ساتھ بتایا ہے کہ ان کا ایک وزیر اعلیٰ چرسی اور دوسرا بھنگی ہے۔ یقینا یہ گفتگو پرائیویٹ اور آف دی ریکارڈ تھی لیکن یہ گفتگو پاکستان کے صدر مملکت اور ایک دینی جماعت کے سربراہ کے درمیان ہو رہی تھی۔ اس گفتگو میں جو معاملات زیر بحث تھے ان کا تعلق براہ راست اس ملک کے عوام کی تقدیر کے ساتھ ہے۔ اس ملک کے عوام کی اکثریت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور آئین و قانون کی بالا دستی چاہتی ہے لیکن جمہوریت کے نام پر کسی صوبے میں چرسی اور کسی صوبے میں بھنگی کو عوام پر مسلط کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟
آج پاکستان میں جس طرح کا طرز حکمرانی نظر آ رہا ہے اس سے واضح ہے کہ حکمران طبقہ خود عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا کیونکہ اس کے خیال میں اقتدار کا اصل راستہ عوام نہیں بلکہ امریکا ہے۔ کیا یہ حکمران طبقہ بھول گیا کہ آخر ایک دن انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جواب دینا ہے ؟ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے خلق خدا پر چرسی اور بھنگی مسلط کیوں کئے تو کیا جواب دو گے ؟ مولانا فضل الرحمان کا شکریہ کہ کم از کم انہوں نے دو وزرائے اعلیٰ کی حقیقت کو صدر مملکت کے سامنے کھول کر رکھ دیا لیکن جناب ذرا سوچئے کہ جب یہی چرسی آپکی آڑ لیکر اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کرے گا تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ؟ یہ بالکل درست ہے کہ اہم سیاسی فیصلے جلد بازی میں جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ تحمل مزاجی کے ساتھ حقائق کی بنیاد پر کئے جائیں تو بہتر ہیں۔ حقائق تو وہی ہیں جو خود مولانا فضل الرحمان نے صدر آصف علی زرداری کے سامنے بیان کئے۔ اس وقت مرکز اور صوبوں کا سب سے بڑا مسئلہ گڈ گورننس ہے۔
قبائلی علاقوں سے لیکر بلوچستان تک ہمیں جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے ان کا تعلق گورننس سے ہے۔ کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بری لیکن سچ یہ ہے کہ رواں سال قبائلی علاقوں میں کئی منصوبے فنڈ ملنے کے بعد30دن کے اندر اندر شروع ہو گئے اور چند ماہ کے اندر مکمل ہو گئے کیونکہ یہ منصوبے فوج کے پاس تھے۔ دوسری طرف بلوچستان اورسندھ میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کئے گئے اور دو سال گزرنے کے باوجود25فیصد بھی مکمل نہ ہو سکے۔
یہ مثال دینے کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے اور اس کا کام صرف ملک کا دفاع ہے فوج کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے لیکن کیا یہ سیاست دان کا فرض نہیں کہ جب وہ حکومت میں آئیں تو صاف ستھرے طرز حکمرانی کو اپنائیں؟ کیا یہ سیاست دانوں کا فرض نہیں کر چر س اور بھنگ پینے والوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیں؟ سیاسی قیادت اپنا گند خود صاف کر دے تو یہ ملک اور جمہوریت دونوں کیلئے بہتر ہو گا ۔
عوام اس سیاسی گندگی سے تنگ آ چکے ہیں۔ اور ظاہر ہے تعفن بڑھ گیا تو پھر عوام خود صفائی پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ عوام کا دباؤ ہے کہ مولانا فضل الرحمان حکومت میں واپس جانے سے گریزاں ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سیاسی معاملات پر صلاح مشورے کیلئے جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ جا پہنچی۔ ایم کیو ایم کا منصورہ جانا اور منصورہ والوں کا انہیں خوش آمدید کہنا تعفن زدہ سیاسی فضا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
اس خاکسار کی امید قائم ہے اور صفائی کا عمل ضرور شروع ہو گا اور صفائی وہی اچھی ہو گی جو سیاسی قائدین خود اپنے ہاتھ سے آئین کے اندر رہتے ہوئے کر دکھائیں، ایک چرسی اور دوسرے بھنگی سے نجات حاصل کر لیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=492897
Subject: FW:Maulana Fazl ur Rehman
WikiLeaks reveal Maulana Fazl ur Rehman approached the US embassy in India through Maulana Madni. The embassy was informed: Mr. Rahman “could not speak freely in Pakistan, that he would say one thing in Pakistan and something else in India if asked”…Mr. Madani was also carrying another message on behalf of Mr. Rehman — that he be allowed to play a bigger role in Pakistani politics. Mr. Madani told the U.S. official that because of his known ties to Taliban members, Mr. Rahman had a “bad reputation” in Pakistani politics, but “in reality was more moderate than Musharraf.”
Since 1988, Pakistan has seen six governments (interim set-ups excluded) including a Khaki one. The Fazal faction of Jamiat Ulema Islam has been part and parcel of all these governments.
A few years ago, in a telephonic interview with JUI boss, Maulana Fazl ur Rehman, I asked him if he considered it un-Islamic for a woman to be head of a Muslim state. His expected answer was a big YES.
I retorted: ‘Maulana! How come you were holding a portfolio under Benazir’s government.’
‘Aap kyon garahy murday ukhartay hain?’ came the abrupt reply (1).
Opportunism has been hallmark of Jamiat Ulema-e-Islam (JUI). Fazl ur Rehman’s father, Mufti Mehmoud could visit Moscow and make a stopover in Mecca on his way home. Same day he could declare socialism in line with Islam while demanding strict implementation of Sharia. Quran and Das Capital, he had both in his pocket.
The son, more famous by his moniker ‘Maulana Diesel’, has perfected the tradition his father set. He declares Pakistan’s legendary communist poet Faiz Ahmad Faiz as his favourite while supporting Jihad against Afghan communist infidels. He approves Mulla Omar-style women oppression while supporting a woman prime minister in Pakistan. Of course the support he lent to first woman prime minister of a Muslim country was not for free. The sobriquet of Maulana Diesel refers to a lucrative diesel franchise he got from Prime Minister Benazir Bhutto as a kickback for his support.
Though there are host of religious parties yet it is JUI-F and Jamaat-e-Islami commanding electoral, social and political support. Of the two, JUI is senior (2). It is an off shoot of Jamiat-ul-Ulema-i-Hind (JUH). Formed in 1919, JUH was a political spokes body of Deobandi Muslims. Deobandis are one of the three main Sunni sects in Pakistan. And rest of Indian sub-continent.
The affix Deobandi comes from a seminary established at a small town in India called Deoband. Established in 1867, Darul Aloom Deoband, became Vatican of orthodox Sunni Islam in Indian sub-continent. However, there were ultra-orthodox too: Ahl-e-Hadith. The ultra-orthodox are often wrongly termed as Wahabis by local Muslims. Though very close to Wahabi Islam (2) yet Ahl-e-Hadith categorise themselves as a distinct sect. It was therefore they appealed to the government of British India that the term Wahabi should not be used for them. The government complied. The term, however, remains in currency particularly on countryside. The ultra-orthodox never succeeded making inroads in India, Pakistan. They remain isolated sect.
It was rather populist Islam represented by Brelvis that appealed to the peasantry. In contrast to Deobandis, Brelvis profess an Islam infused with superstition and syncretism making up the peasant beliefs. It was this Islam that baptised otherwise unIslamic Indian traditions of amulets, charms, dance and music. Thus capturing the hearts of millions. The term Brelvi was deduced, like Deobandi, from a seminary at the town of Brelli in present-day India.
Indian priests, both Hindu and Muslim, entered anti-colonial struggle with a little delay. Their pre-colonial privileged positions were not challenged by imperial take over until the new rulers established new legal system to meet needs of the expanding colonial capitalist system. In pre-colonial India, Hindu and Muslim clergy occupied a central position in the judicial system. When British masters started rolling back the old system, clergy found its position threatened. Lucrative jobs were now took over by judges and attorneys educated in English law and language. Also, the colonial masters did not need the graduates from seminaries run
by Muslim clerks. The new masters were rather sponsoring Anglo-vernacular schools. This bread-and-butter struggle turned the clergy into an anti-colonial battalion. Thus, the clergy declared learning English language an unIslamic ritual. It was Deoband leadership with an influence in urban centres that participated in anti-colonial struggle. The Brelvi clerks with a peasant following remained either aloof or sided with colonial masters.
The bearded anti-colonialism found its first organised expression in Anjuman-Khuddam-i-Kaaba in 1913 (3). The Anjuman was formed when ‘holy places of Islam in Arabia were threatened by the West’. The Anjuman later developed into Jamiat-ul Ulema-i-Hind (JUH): Association of Scholars of India.
The JUH in its formative phase was a radical nationalist anti-colonial body. It remained staunchly loyal to its nationalist stand until the Partition in 1947. Instead of allying with Jinnah’s All India Muslim Leagues, it sided with Gandhi’s secularist All India National Congress. Rejecting Muslim League’s narrow vision of Muslim nationalism, JUH leader Maulana Madni supported Congress creed of Muttahidah Qawmiyyat¬—Composite Nationalism, by stating:
In the modern age, nations are founded on homelands; nations are not found on the basis of race or religion. The dwellers of England are recognised as one nation, whereas they have Jews and Christians as their citizens, and such is the case with America, Japan and France (4).
Earlier, the JUH leadership even approved Gandhi’s non-violence during the Khilafat Movement. The success of Russian revolution even radicalised the JUH rank and file. A renowned Deoband scholar Maulana Obaydullah Sindhi went to Soviet Russia and converted to socialism. The JUH also tried to associate the national liberation struggle with socialism. At its 11th annual session held in Delhi, March 3-5, 1939, JUH stalwart Shaukatullah Shah
Ansari spoke at length on socialism. Socialism he said stood for the rehabilitation of the oppressed enslaved nations and people. On Marxism, he said: ‘[it] solved many complex economic questions. It shielded the exploited and the oppressed in brutal class warfare. This modus operandi instilled new life in the working class, which culminated in the foundation of Soviet system in Russia.’
Though first military regime of General Ayub Khan in its early period kept beards at arms length yet he turned to them when his boat started sinking. Socialism became writing on the wall as youth and workers took to streets by end-1968. Maulana Maudodi came out with a fatwa against socialism. Feudalism was the essence of Islam, declared Maudodi. General Yahya Khan, the new military dictator replacing the old, was declared the ‘soldier of Islam’ by Jamaat-e-Islami (JI). Why? First because he was blessed by the US to dam the flood of socialism. Secondly, he had greased Maudodi’s palm with Rs 6.5 million to contest forthcoming elections to stop PPP. On the contrary, Deoband leadership, now organised as Jamiat Ulema Islam (JUI), not just lent support to socialism but held joint meetings with Z A Bhutto’s PPP. While JI was defending feudalism and private property, JUI organ was publishing a series of articles in defence of Islamic Socialism of Bhutto. Even radical was JUI’s alliance with Pakistan Labour Party (PLP) in July 1969. The PLP founded by a labour leader, Bashir Bukhtiar, stood for socialism too.
The confessional twins, JUI and JI, had never been united since the creation of Pakistan except in 1953 during Anti-Ahmadia movement. The beards wanted Ahmadia sect be declared non-Muslim. The ensuing riots shook Punjab. Maudodi had discredited himself in 1948 by issuing a ruling that war in Kashmir was not Jihad. To make up for the loss, Maudodi wrote an inflammatory anti-Ahmadi book: The Ahmadi Problem. Before the book was banned, 57,000 copies had been sold in eighteen days. The Anti-Ahmadi movement was in fact orchestered by some debilitated politicians. The movement led to first martial law in Pakistan. It was restricted only to Lahore. But it also led to a judicial inquiry into the incident. Justice Munir and Justice A R Kiani, two eminent judges, conducted the judicial inquiry.
The report submitted by the inquiry is a wonderful text in country’s history. It is an indictment of fundamentalism. Perhaps the only official secular text in country’s history. Munir and
Kiani summoned beards of all sizes and recorded their statements. Recommendations presented were bold, fearless, and correct. Besides suggesting a complete break between religion and state, the report had warned against the creation of a confessional state.
The report was retorted by JI. It declared: ‘Our politics is our religion. Our religion is our politics’. But politics of religion and religion of politics were rejected by Pakistani masses when they were asked in 1970 as they went to cast their votes first time. Of the three bearded parties, Maudodi’s JI showed worst electoral performance. Only four parliamentary mandates. Both JUI and Jamiat Ulema Pakistan (representing Brelvis) managed to bag seven seats each. However, JUI support remained limited to Khyber-Pakhtoonkhwa and Balochistan. In a way, it was best bearded electoral performance, as in West Pakistan their share of vote was 15 percent while in Punjab, their share of vote was 20 percent. In these two provinces, JUI and left-wing parties performed better than PPP. Mufti even defeated PPP’s chairman Z A Bhutto in a NWFP constituency. Bhutto otherwise had returned from five other constituencies. Following the elections, the JUI and left-wing nationalists formed coalition governments in Khyber-Pakhtoonkhwa and Balochistan. Mufti was elected as chief minister of Khyber-Pakhtoonkhwa until he resigned in 1973 as protest when Bhutto undemocratically dissolved the Balochistan government.
As Pakistan went second time to elections in March 1977, beards were rejected yet again. Bhutto and his PPP emerged victorious. But beards in Washington had something else in store for Pakistan. Obnoxious Henry Kissinger had warned Bhutto a year ago to make an example out of him if he did not roll back Pakistan’s nuclear programme. Beards and turbans all had joined hands against Bhutto in an election alliance: PNA. The dominant PNA component, paradoxically, were secular and left parties. Beards refused to accept the results. A civil disobedience followed. The beard-Washington alliance was manifested in Lahore in its naked form. A JI demonstration raising slogans in favour of the USA passed by US consulate in Lahore. US diplomat standing on rooftop waving to the demonstration welcomed it (5).
Democracy and Bhutto were murdered. The former in 1977, and the latter in 1979. At the same time, Afghan ‘Jihad’ was unleashed by Washington against Soviets.
Zia was to lead the faithful in Jihad. Jamaat was the conduit to supply Mujahideen (holy warriors) for Jihad. Zia had neglected the JUI for his US-Saudi sponsored Jihad venture. Mufti had initially joined hands with Zia. When Maulana Diesel inherited JUI, he was perhaps still under the influence of Faiz’ poetry. He rather joined hands with PPP-led opposition struggling for the restoration of democracy. Or was he a Khaki mole inside MRD? He was pocketing petrodollars anyway, to spread a network of Deobandi madrassas (seminaries) to manufacture Taliban. Owing to JI’s close collaboration with Zia, it was ridiculed by masses as martial law’s B Team. Both were hated like anything during eighties. When in 1985, Zia staged non-party election drama, none of the JI leaders managed to win elections. B Team was defeated yet again. The dismal electoral performance by beards of all sizes was repeated in four general elections that followed 1988, 1990, 1993 and 1997.
The JUI’s performance was not impressive during these years either. Its electoral base remained restricted to Khyber-Pakhtoonkwa and Balochistan. In 1988, it bagged eight National Assembly seats (2.07% votes). In 1990, it performed even badly: six seats (2.94 % votes). By 1997, even Maulana Diesel could not reach the National Assembly. The JUI could win only two National Assembly seats and 1.68 % votes. In Khyber-Pakhtoonkwa Assembly, it managed only one seat where it was supposed to form government in five years time at the head of MMA (6). The combined votes for beards, since 1970, never went beyond six percent ever in general elections until 2002 when beards managed to bag 15 per cent of the votes cast. In Khyber-Pakhtoonkwa, MMA ruled the roost for five years. But MMA rule proved as inefficient and corrupt as any other in Pakistan. In 2008, when people went to vote in a rather fair election, beards were punished. The JI, being clever, boycotted the election. Maulana Diesel, however, had another perspective ahead of elections. The WikiLeaks reveal that Maulana Fazl-ur-Rehman sought support from the US ambassador in Pakistan in 2007 to assume the office of Prime Minister ship. He even hosted a banquet in the honour of then US envoy Anne W. Peterson (2007) and sought US support for his election as Prime Minister. When Peterson politely reminded Maulana the difficulties involved, Maulana offered that his faction’s members in National Assembly “are for sale”. The WikiLeaks were dismissed by beards. Now The Hindu has published yet another WikiLeaks’ file exposing how our dear Maulana Fazl ur Rehman was visiting India to establish contact with US embassy in Delhi (7). Ignored by Pakistani media, The Hindu’s report is indeed revealing (excerpts):
Prominent Muslim leaders in New Delhi stayed away from a high-profile Pakistani politician when he visited the city in May 2006.
However, that did not discourage the politician, Maulana Fazlur Rehman, leader of the Jamiat-e-Ulema Islami (F) and Leader of the Opposition, from making a visit again next year. And this time he made an indirect overture to the U.S. Embassy in New Delhi, offering his services as a mediator between the Bush Administration and the Taliban…
On May 3, 2007, Assistant Political Counselor Atul Keshap reported (cable 106645: secret) his meeting with JuH leader Mahmood Madani and Pandit N.K. Sharma, an astrologer-adviser to P.V. Narasimha Rao, “who claims close ties” to the Gandhi family. Mr. Madani told the U.S. official that the Pakistani leader had a “pressing issue he wanted to discuss with US officials, but he was only interested in holding these talks outside of Pakistan.”
He explained that Mr. Rahman “could not speak freely in Pakistan, that he would say one thing in Pakistan and something else in India if asked”…Mr. Madani was also carrying another message on behalf of Mr. Rehman — that he be allowed to play a bigger role in Pakistani politics. Mr. Madani told the U.S. official that because of his known ties to Taliban members, Mr. Rahman had a “bad reputation” in Pakistani politics, but “in reality was more moderate than Musharraf.”
But the JUI could manage only two seats even from the province it ruled for five years. Another two from Balochistan (but by-elections further strengthened JUI position and it has seven MNAs now). Maulana was defeated in his home town. He will have to wait for another military rule for the coveted slot of prime minister.
Notes and References
1. A rough transliteration would be: let the buried be buried, why excavate them from their graves.
2. It has split into many factions. The other major JUI faction is headed by Maulana Samu ul Haq. His exploits have earned him the nickname, Maulana Sandwich!
3- Wahabi sect was founded by an Arab preacher Muhammad Ibn Abdul Wahab (1703-92). Wahabists stand for ultra-puritan Islam. It is Wahabi version of Islam implemented in Saudi Arabia.
4-Association of Servants of Kaaba.
5- Cited in Politics of Jamiat Ulema-i-Islam Pakistan 1971-77 by Sayyid A S Pirzada
Oxford University Press, Pakistan, 2000 p: 4
6- For details see: ‘Profiles of Intelligence’ by Brig. (Retd.) A I Tirmazi. JI has never contradicted the claims in this book written by somebody sympathetic to JI.
7- The election results quoted here have been collected from different sources
8. ‘Indian rogues’ gallery entertains Pakistani Taliban apologist’ by Nirupama Subramanian. The Hindu, March 25, 2011
It’s really very complicated in this busy life to listen news on TV, thus I just use the web for that reason,
and take the newest news.