حج کے موقع پر کیا ہوا ؟ – عامر حسینی
پاکستان علماءکونسل کے چئیرمین طاہر اشرفی کا ایک کالم ’ روزنامہ جنگ ‘ میں ادارتی صفحہ پر شایع ہوا ہے جس میں انہوں نے ’ منیٰ بھگڈر‘ کے بارے میں سعودی حکام کی مبینہ بدانتظامی پر تنقید کو ایک سازش قرار دیا اور اسے پاکستان و سعودی عرب کے تعلقات خراب کرنے کی سازش کا نام بھی دے ڈالا ، ان کے سوشل میڈیا پر آفیشل فیس بک اکاو¿نٹ اور ٹیوٹ کھاتے میں جو بیانات اس حوالے سے ظاہر ہوئے ، اس میں انہوں نے ” منی بھگڈر ” کے بارے میں ابتک آنے والے شواہد کو ایرانی پروپیگنڈا قرار دینے کی کوشش کی اور اس طرح سے بالواسطہ انہوں نے ایک ” بڑے المناک حادثے “ کو فرقہ وارانہ اور دو ملکوں کی پراکسی وار بناکر دکھانے کی کوشش کی – میں سمجھتا ہوں کہ ان کو ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیےے تھا ۔
منیٰ بھگڈر کے بارے میں عرب میڈیا میں اور انتہائی موقر مغربی اخبارات میں ایسی خبریں شایع ہوئیں جن میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ منیٰ میں جمرات کے موقعہ پر سارے داخلی و خارجی راستے ایک وقت میں بند کردئے گئے اور ایک راستہ ہی آنے اور باہر جانے کے کھلا رکھا گیا ، اس کی وجہ سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کے قافلے کی آمد بتائی گئی ، اس خبر کو لبنان کے ایک لیفٹ اخبار روزنامہ ’ الدیار بیروت ‘ نے شایع کیا ، اس کے بعد فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے الجزائر میں نمائندے نے اپنے ایک افریقی الجزائری ساتھی حاجی کی رپورٹ شایع کی اور اس میں اس بات کی تصدیق کی کہ منیٰ میں بھگڈر کا سبب ایک کے سوا تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنا تھا اور اس سے ایک جگہ پر بہت زیادہ ہجوم اکٹھا ہوگیا اور بہت زیادہ گرمی ، حبس اور دھکم پیل کے سبب بھگڈر مچ گئی اور اس سے لوگ کچلے اور مارے گئے ۔ اس بات کی تصدیق پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹنے والے کئی ایک حاجیوں نے کی ہے اور اس تفصیل کو دیکھتے ہوئے سعودی وزیر صحت خالد الفلح کی طرح حاجیوں کی غلطی قرار دینا یا اسے ” تقدیر کا لکھا“ قرار دینا اور ” بدانتظامی “ کے پہلو کو مسترد کردینا اور اس پہلو کو نمایاں کرنے والوں کو سازشی یا ان کو ایرانی پروپیگنڈا کہنا درست نہیں ہے ۔ منیٰ بھگڈر کے سارے پہلو سامنے آنے چاہئیں ۔
برطانیہ میں مقیم سبرینا رزاق حسین نے برطانوی معروف اخبار ” روزنامہ گارڈین ” میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو سادہ لفظوں میں بیان کرتے ہوئے سعودی عرب میں حج کے موقع پر پیش آنے والی صورت حال کا معروضی جائزہ لیا ہے – یہ ایک متوازن اور اعتدال پسندانہ ” بیانیہ ” ہے اور میں اس کی ترجمہ و تلخیص پر اکتفا کروں گا ۔ شاید اس روداد سے پاکستانی حکومت بھی حرکت میں آئے اور عام آدمی بھی اور اس سے سعودی عرب کو حاجیوں کی زندگیوں کو ایک روح پرور روحانی تجربے کے لئے جس طرح کے انتظامات کی ضرورت ہے ، وہ انتطامات ریڈیکل تبدیلیوں کے ساتھ کرے
برطانیہ میں مقیم سبرینا رزاق حسین پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور اس مرتبہ انہوں نے بھی حج کیا اور اس دوران انہوں نے اپنے مشاہدات بیان کئے ہیں۔ایک چھوٹے سے شہر میں 20 لاکھ لوگ اگر حج کے لئے جمع ہوں تو ایک حد تک وہاں بے چینی متوقع ہوتی ہے ۔ اور اتنے بڑے ہجوم کے ساتھ میں نے ابتدائی طور پر یہ سوچا کہ یہ موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنے دین اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل خوبی ’صبر و تحمل‘ کو اسلام کے مقدس ترین شہروں میں بروئے کار لائیں تو ہم نے امید کے ساتھ چلنا شروع کیا ۔
لیکن مکّہ میں 40 درجے سینٹی گریڈ کی گرمی ، سخت قسم کی داروغہ گیری ، جارح ہجوم ، کمزور نظم اور دباو¿ بے تحاشا تھا – جوں جوں دن گزرتے گئے تو میں نے خود کو روحانی سرور اور مسجد الحرام و دیگر مقامات مقدسہ کے درمیان پائی جانے والی بے صبری اور غیر منظم پن کے درمیان کش مکش سے الجھتے پایا اور میری اضطراب میں اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ یہاں پر اس ہجوم بیکراں کو کنٹرول کرنے والوں کی داروغہ گیری مجھے پر بہت ذہنی دباو¿ ڈال رہی تھی۔
اپنے والدین کے ساتھ حج کے لئے سعودی عرب آنے سے پہلے میں بہت حد تک اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ہونے کی وجہ سے وہاں پر مناسک حج ادا کرنے کے لئے انتہائی منظم سہولتیں فراہم کی گئیں ہوں گی ۔ اب میں جب برطانیہ واپس آچکی تو میں اپنے زندہ بچ جانے پر اللہ پاک کی شکر کزار ہوں اور ابھی تک جو میں نے وہاں دیکھا اس سے سہمی ہوئی ہوں ۔ مجھے بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ وہاں سینکڑوں لوگ کیسے کچل کر مرگئے اور میں ” تقدیر“ کو ان اموات کے لئے بطور عذر استعمال کرنے پر یقین نہیں رکھتی ۔
مدینہ میں اس دن گلیوں میں خوشگوار اور روحانیت سے گرم جوش ہجوم تھا- برطانوی حاجیوں کا ہمارا گروپ بہت منظم تھا ، مری والدہ کی شوگر اس دن اعتدال پر تھی اور مرے والد جو کہ دمہ کے مریض ہیں بہت زیادہ گرمی کے باوجود اس کا شکار نہ ہوئے تھے – بطور ایک حاجی کے اور بیٹی کی حیثیت میں خوش بھی تھی اور پرجوش ہوکر مکّہ کی جانب بڑھ رہی تھی لیکن ” حقیقت ” ہلادینے والی تھی۔
یہاں تک کہ مسجد سے آنے اور جانے والے دونوں کو دباو¿ کا سامنا تھا – ہمیں ویل چیئر استعمال کرنے والوں کو کئی مرتبہ مدد دینا پڑی اور راستہ بہت بلند تھا اور وہاں پر ڈھلوانیں نہیں تھیں ، ذرا معذوروں اور شکستہ حال لوگوں کا خیال کریں کہ کہ ان کی کیا حالت ہوگی ، یہ سب دل دہلادینے والا تھا
سب کے لئے گرمی سب سے بڑا امتحان تھی ، بہت سے لوگوں کو اس نے بے حال کررکھا تھا اور کئی لوگ جسم کا پانی ختم ہونے کے باعث ڈی ہائیڈریشن کا شکار تھے اور پھر اس پر ستم ظریفی یہ کہ صرف چند راستے تھے ایسے تھے جہاں پر پانی دستیاب تھا – مثال کے طور پر وہاں پر عام گزرنے کے کچھ راستے ، جہاں پر شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ہآن پینے کے لئے پانی نہیں تھا بس وقفے وقفے سے کچھ پولیس والے بے ترتیبی سے خاجیوں کے چہرے پر پانی کی پھوار مارتے جاتے تھے ۔ مسجد الحرام کے نزدیک تعینات خدام حج اور پولیس والوں کا رویہ اور ان کی کمیونیکشن مہارتیں بہت ہی بر ے حال میں تھیں۔ سو ممالک سے زائد سے حجاج کرام جہاں آئے ہوئے ہوں ، وہاں عربی کے علاوہ کم از کم ایک اور زبان تو ان کو آنی چاہئیے ۔ ان کا انداز جارحانہ طور پر چیخنے جیسا تھا اور یہاں تک کہ نرم خو حاجیوں کے ساتھ ان کی درشتی بلاجواز اور باعث تذلیل تھی ۔ اس سے پہلے اس طرح سے مجھ سے یا مرے والدین سے ایسے کوئی نہیں بولا تھا ۔
یہ ظاہر ہوا کہ واحد اختیار جو نوجوان پولیس افسروں کو ودیعت کیا گیا تھا وہ عربی کا لفظ ’ لا‘” یعنی ’ نہیں‘ تھا اور داخلی راستوں کو بند کرنے کا جب ان کی مرضی ہو بغیر کسی پیشگی تنبیہ کے اور اس طرح کرنے سے کوئی دوسرا متبادل ان کے لئے نہیں رکھا گیا تھا : یہ بہت واضح ہے کہ ان مقدس شہروں میں اس طرح کے اقدام سے بھگڈر مچ جانا لازم ہے۔
ہم مسجد میں تھے جب انہوں نے باہر جانے کا راستہ بند کردیا اور کہا جب تک اگلی نماز ختم نہیں ہوگی ہم یہاں سے نہیں جاسکتے – اور ہمارے پیچھے سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے جن کا دباو¿ ہم پر تھا اور اس سے بدترین قسم کا حبس پیدا ہوگیا ۔ میں نے انتہائی نرمی سے اور پھر باقاعدہ گڑگڑاتے ہوئے شرطوں سے کہا کہ ہمیں جانے دیں کہ مری ماں کی ذیابیطس کی دوا مسجد کے بہت نزدیک ہوٹل میں ہے ، ان کا شوگر لیول گررہا تھا ، لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگی۔ جب ہم نے ایک مترجم حاجی اپنے لئے تلاش کرلیا پھر بھی ہمیں جانے کی اجازت نہ ملی – جب میں تقریبا چلا اٹھی اور کہا کہ اگر مری والدہ گرگئیں اور یہاں مرگئیں تو کیا ہوگا ؟ تو جواب صرف کندھے ہلا کر گویا یوں دیا گیا : مرتی ہے تو مرجائے ۔
مانچسٹر کی رہنے والی ایک بزنس مینجر عائشہ خان بھی اسی گروپ کا حصّہ تھیں ، انہوں نے سخت غصّے میں بتایا کہ اسی طرح ان کے شوہر کو بھی حکام نے ان کے پاس اس وقت جانے کی اجازت نہ دی تھی جب ان کی طبعیت انتہائی خراب ہوگئی تھی – وہ گرپڑی تھیں – اور یہاں تک کہ خدام کا ایک چھوٹا سا گروپ کھڑا ہنس رہا تھا ، ان کی مدر کرنے اور ایمبولینس بلانے سے گریزاں رہا – اس نے بتایا کہ اس کا شوہر ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ رہا تھا اور مدد کی درخواست کررہا تھا۔ اصل میں ایمبولینس وہاں لانا ایک اور بڑا مسئلہ تھا ، میں نے ایمبولینسوں کو ٹریفک کے اژدحام میں پھنسے دیکھا کہ کہ وہ کسی بھی طرح سے وہاں سے نکل سکتی نہیں تھیں اپنے ساتھی حاجیوں کے گروپ کے ساتھ کھڑی اور اور ڈاکڑوں کو ایک نیچے گری عورت کی مدد کرتے دیکھتی ( شاید اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا ) ، ایمبولینس کو پانا بہت ہی مشکل تھا اور جب نام نہاد پیرمیڈیکل سٹاف وہاں آیا ( جو پیرا میڈیکل وردیاں پہنے تو تھا مگر تربیت یافتہ نہیں لگ رہا تھا ) ، تو انہوں نے ہمیں یہ بتانے سے انکار کرڈالا کہ اسے ہوا کیا تھا
میں ایمبولینس کے پیچھے گئی جوکہ غریب عورت کو کے لئے آئی تھی تو میں نے وہاں کوئی طبی آلات نہ دیکھے اور ہمیں اور اس کی فیملی کے کچھ لوگوں کو آنسوو¿ں کے ساتھ وہاں چھوڑ دیا گیا جن کو کچھ پتہ نہ تھا کہ ایمبولینس کہاں گئی ہے۔ ایسے کئی اور برے تجربات بہت سے حاجیوں کو پیش آئے ۔ میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ ” سینکڑوں لوگوں کی اموات کو تقدیر کا لکھا کہنے اور سمجھنے کا طرز فکر تسلیم کرنے سے میں انکار کرتی ہوں ۔ مرا عقیدہ ہے کہ اسلام کی بنیاد عقل سلیم پر ہے اور آپ کو اتنی سمجھ بوجھ ہوتی ہے کہ آپ کسی پوری صورت حال کے پیدا ہونے سے بچنے کی تدبیر کرسکتے ہیں اور اب اس تدبیر سے فرار ” تقدیر“ کا نام لے کر اختیار نہیں کرسکتے ۔کچھ لوگ جنہوں نے پہلے بھی حج کیا ہے یہ بتاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہورہی ہیں – سعودی حکام نے ایسے حاجیوں کو ویزا دینے سے انکار کیا جو ماضی میں پانچ سال تک یہ سعارت حاصل کرتے رہے ہیں اور اس طرح سے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ حرمین شریفین میں بھاری تعمیراتی کام جاری ہے اور اسی دوران جب ایک کرین کریش ہوئی تو اس میں بھی کافی لوگ شہید ہوئے لیکن بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔
حج کے موقع پر زیادہ تر بدانتظامی خود سعودی عرب کے حکام کے طریقہ کار سے پیدا ہوتی ہے – مقامات مقدسہ کے گرد موجود حکام کو آزادانہ فیصلے کی اجازت نہیں ہوتی ، اس وقت جب سعودی شاہی خاندان کے اراکین اور ان کے ممبران کو وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے اور اس طرح سے اتھارٹیز کو ایک محفوظ اور قابل عمل سسٹم پیدا کرنے کی تحریک نہیں ملتی ۔ میں نے مکّہ میں اپنے میزبانوں میں جذبہ نہیں دیکھا اور میںنے سعودی حکام میں اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مندی بھی محسوس نہیں کی۔
مری خواہش ہے کہ مسلمانان عالم اوپر ذکر کردہ باتوں کو چیلنج یا حج کے تجربے کی واحد حقیقت کے طور پر قبول نہ کریں بلکہ وہ اپنی آوازوں کو بلند کریں – حج زندگیوں کو روشن کرنے اور زندگیوں کو بدل ڈالنے کے لئے کیا جاتا ہے ، نہ کہ ان کو خطرے سے دوچار کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے کو ، یہ موقع ہے کہ ہم حج کی روح کو بحال کرانے کے لئے آواز اٹھائیں ۔
Source:
http://dunyapakistan.com/37417/amir-husaini/#.VhdG51LLfcS