لاپتہ حاجی کہاں گئے؟
حج پر جانے والے لاہور کے گرین ٹاؤن کے حاجی محمد عارف کی رحلت کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے لیکن ان کے گھر میں ان کی مغفرت اور ایصالِ ثواب کے لیے دعا ہو رہی ہے جبکہ کراچی کورنگی ٹاؤن کے میر زمان کے بیٹے وزٹ ویزے پر سعودی عرب جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تاکہ وہاں جا کر اپنے خاندان کے افراد کی تلاش کر سکیں اور پتہ لگا سکیں کہ کیا وہ زخمی ہیں یا منیٰ حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں؟
حکومتِ پاکستان کی جانب سے منیٰ حادثے کے متاثرین سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ہیلپ لائن کے مطابق منیٰ حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی کل تعداد 57 ہو گئی ہے۔
دورانِ حج منیٰ کا واقعہ پیش آنے کی وجوہات کیا تھیں اس بارے میں سعودی حکومت کی تحقیقات سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔
مگر آٹھ دن گذرنے کے بعد اب سوال حادثے کی نوعیت کی بجائے لاشوں کی شناخت میں ورثا کو پیش آنے والی مشکلات کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور سعودی تعاون پر اٹھائے جا رہے ہیں۔
لاپتہ محمد عارف کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ باوجود کوشش کے انھیں اپنے شوہر کی لاش کی شناخت کے لیے سرد خانے نہیں لے جایا گیا اور پھر سعودی حکومت کا خصوصی اجازت نامہ لے کر وہ بِنا محرم کے وطن لوٹنے پر مجبور ہوئیں۔
’وہ حاجی صاحب کو سٹریچر پر ڈال کر لے گئے، کسی لسٹ میں ان کا نام نہیں ہے، بے ہوشی کے بعد جب میں اٹھی تو وہاں بہت سی لاشیں تھیں، حاجی صاحب کے نمبر پر تین دن تک فون کرتی رہی لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔‘
حکومتِ پاکستان کی وزارتِ حج اپنے کمرشلائزڈ حج پیکج کی وجہ سے تنقید کی زد میں تو ہے لیکن متاثرین اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
جمعرات کو پاکستان پہنچنے والے ایک حج آپریٹر نے جن کے گروپ میں سے ایک خاتون کی لاش کی شناخت ہو گئی تاہم دوسری لاپتہ خاتون کی تلاش کے لیے ان کے داماد کی کوئی کاوش کامیاب نہیں ہوسکی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی حکومت نے اتنا تعاون نہیں کیا جتنا ضروری تھا مگر بظاہر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔
’مجھے سرد خانوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا، مرکزی سرد خانے کا نام میسن سواری ہے، سر خانے میں فریزرز اور سبیل کے لیے خصوصی کنٹینرز میں لاشیں رکھی گئی ہیں، سعودی حکومت نے پہلے 500 تصاویر لگائی تھیں اور اس کے بعد مزید 500 تصاویر لگائی گئیں۔‘
مکی حج و عمرہ کے نام سے موجود پرائیویٹ حج ٹور آپریٹیر محمد رفیق کو بھی اسی قسم کی شکایات ہیں۔
جب اس حادثے میں محفوظ رہ جانے والے ححاج سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ 11 ستمبر کو کرین کے حادثے اور اس کے بعد منیٰ حادثے کی خبریں آنے پر سعودی میڈیا پر بلیک آؤٹ رہا اور انھیں یا تو وہاں چلنے والے پاکستانی ٹی وی چینلز سے یہ خبر موصول ہوئی یا فون پر رشتہ داروں سے۔
محمد رفیع اور ان کی اہلیہ نے شکایت کی کہ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ٹرینوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد کو ٹھونسا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہو یا فوت ہو جائے تو اس کے ساتھ موجود کسی شخص کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔‘
کراچی سے مکہ جانے والے پانچ افراد کے قافلے میں شامل دو افراد تلمیز احمد اور افتخار احمد کو مکہ کے المعصم نامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا تاہم ان کے اہلِ خانہ دیگر تین افراد کی تلاش میں ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کیونکہ اب تک جاری ہونے والی 1100 افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/10/150930_mina_stampede_victi?ocid=socialflow_facebook