سعودی عرب : منتظر سر قلم و مصلوب علی محمد النمر کون ہے ؟ – عامر حسینی
پاکستان کے انگریزی پریس میں ایک ، دو اخبارات میں خبر آئی ہے کہ 21 سالہ شیعہ ایکٹوسٹ علی محمد النمر کو سعودی عرب سرقلم کرکے مصلوب کرنے کی تیاری کررہا ہے اور اس کی آخری اپیل بھی مسترد کردی گئی ہے اردو پریس اس معاملے پر بالکل خاموش ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی ایک چینل نے بھی اس خبر کو نشر کرنا ضروری خیال نہیں کیا ہے
جبکہ روزنامہ ایکسپریس سمیت کئی ایک اردو اخبارات نے ٹیکساس کے ہائی اسکول میں اپنا بنایا ہوا ” گھڑیال ” لیجانے اور اسے بم سمجھ کر پکڑے جانے والا سعودی نژاد احمد کے اسکول چھوڑ کر عمرہ ادا کرنے کی خبر کو صفحہ اول پر شایع کیا ہے ہالی ووڈ کے فلم سٹار اور امریکی ٹی وی چینل “ایچ بی او “پر ” رئیل ٹائم ” کے نام سے ٹاک شو کرنے والے بل ماہر نے اپنے شو میں پروگرام کرتے ہوئے ” علی محمد النمر ” کی المیاتی کہانی کو اجاگر کیا اور کہا کہ ” اگر آپ نے اپنا سارا ھیرو ازم ” آئی سٹینڈ ود احمد ” ہیشٹیگ کے لئے خرچ نہ کردیا ہو تو ہیشٹیگ علی محمد النمر کے لئے بھی وقف کریں علی محمد النمر کون ہے ؟ اور اس کے لئے آواز اٹھانی کیوں ضروری ہے ؟
یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذھنوں میں پیدا ہوسکتا ہے – فروری کی 14 تاریخ اور سال 2012ء سعودع عرب کے مشرقی دو صوبے قطیب اور الاحصاء جو سعودی عرب کے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ” بہار عرب ” سے متاثر ہوئے اور وہاں پر اپنے حقوق کی جو تحریک تھی اس میں تیزی آگئی اور ان دونوں صوبوں کی عوام سڑکوں پر آگئی ، مظاہرے شروع ہوگئے اور اس تحریک کے روح رواں الشیخ محمد نمر النمر بنکر ابھرے جوکہ ایک روشن خیال ، اعتدال پسند شیعہ عالم اور سیاسی رہنماء خیال کئے جاتے ہیں –
سعودی عرب کے یہ دونوں مشرقی صوبے یعنی احصاء اور قطیف 99 فیصدی شیعہ آبادی پر مشتمل ہیں اور سعودی عرب میں شاید یہ دو صوبے ایسے ہیں جہاں کی غیر وہابی آبادی اپنی مذھبی شناخت کو قربان کرکے سعودی عرب کا برابر کا شہری بننے کے حقوق حاصل کرنے سے انکاری ہی نہیں بلکہ مزاحمت کررہی ہے اور اس آبادی نے آج تک ” آل سعود ” کے حجاز پر قبضے کو تسلیم نہیں کیا –
سعودی عرب کی جابر ریاستی مشینری ان صوبوں کو زبردست جبر ، خوف ، تشدد اور پابندیوں مین رکھے ہوئے ہے اور ان دونوں صوبوں ميں بدترین انسانی حقوق کی پامالیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ، سعودی پولیس ، انٹیلی جنس اور فوج نے خفیہ ٹارچر سیل بنارکھے ہیں جہآں سیاسی مخالفین پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے -شیخ محمد نمر النمر اپنی بے مثال جدوجہد ، استقامت اور انتہائی واضح خیالات کی وجہ سے شیعہ اکثریت کے ان دو صوبوں میں مقبول ترین سیاسی رہنماء کے طور پر ابھرے ہیں اور وہ اس علافے میں جاری سیاسی مزاحمت اور اپوزیشن کی تحریک کے بلااختلاف متفقہ قائد بھی ہیں –
ان کی مقبولیت اور ان دونوں صوبوں ميں تحریک مزاحمت میں اضافہ ہوتے چلے جانے سے سعودی حکام سخت پریشان تھے اور جب فروری 2014ء میں قطیف و احصاء میں بڑے پیمانے پر بہار عرب پھیل گئی اور مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی حکام نے اسے کچلنے کا پروگرام بنالیا – پہلے شیخ محمد نمر النمر کو گرفتار کیا گیا اور ان پر ” اللہ سے بغاوت کرنے ” کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ سعودی عرب میں سعودی بادشاہ کے خلاف سیاسی احتجاج کا مطلب اللہ سے بغاوت کرنا ہے اور ان پر دوسرا الزام ” ایرانی ایجنٹ ” ہونے اور سعودی عرب کے خلاف بغاوت کے لئے ہتھیار جمع کرنے کا لگایا گیا جبکہ ساری دنیا کو علم ہے کہ شیخ محمد نمر النمر ” عدم تشدد پر مبنی پرامن سیاسی جدوجہد ” کے قائل ہیں اور ان کی تقریروں میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ کہا جاسکے کہ وہ سعودی عرب کی مشرقی صوبے کی شیعہ اکثریت کو تشدد ، دھشت گردی پر اکسارہے ہیں –
شیخ محمد نمر النمر کی گرفتاری اور عقوبت خانے میں ان پر تشدد کے باوجود سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں مظاہرے اور مزاحمت میں کمی نہیں آئی اور شیخ محمد نمر النمر نے بھی سعودی حکومت کے آگے جھکنے سے انکار کردیا تو چودہ فروری 2012ء کو قطیف کی پولیس نے شیخ محمد نمر النمر کے 17 سالہ بھتیجے علی محمد النمر کو آتشیں ہتھیار جمع کرنے اور قطیف کے لوگوں کو سعودی حکام کے خلاف تشدد اور دھشت گردی کے لئے اکسانے سمیت کئی سنگین الزامات لگاکر گرفتار کرلیا اور ٹارچر سیل میں اس کو تشدد کا نشانہ بنایا علی محمد النمر جو اپنی گرفتاری کے وقت محض 17 سال کا تھا کو پہلے ” بچّہ جیل ” میں رکھا گیا اور ایک سال اس جیل میں بھی علی محمد النمر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے زبردستی ایک اعترافی بیان بھی لیا گیا –
ایک سال بعد جب علی محمد النمر 18 سال کا ہوا تو اس کو بالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا اور اس کا مقدمہ سعودی مذھبی عدالت مین پیش کیا گیا سعودی عرب کا عدالتی نظام بہت ہی خوفناک قسم کا ہے اور پراسراریت ، اخفاء اور اندھیرے ميں رکھے جانا اس نظام کے نمایاں اوصاف ہیں – علی محمد النمر کے کیس پر ایک تنظیم جو کہ ” لیگل چئیرٹی ری پرائیو ” کہلاتی ہے کی ڈائریکٹر فویا علی کا کہنا ہے کہ ” علی جب گرفتار ہوا اور اس پر جب مقدمہ چلا تو وہ کم عمر تھا اور اس لئے اگر وہ کسی جرم کا بالفرض مرتکب بھی ہوا تو اس کو سزائے موت دیئے جانا انتہائی غلط ، قانون ، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی ہے اور یہ اخلاقیات کے بھی سراسر منافی بات ہے ” علی محمد النمر جب پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوا تو اسے نہ تو کوئی وکیل کرنے کی اجازت ملی ، اس کے خاندان کو ابتک اس سے ملنے کی اجازت نہیں ملی ہے اور اس نے عدالت کو بتایا کہ جو بیان سعودی حکام نے اس کے نام پر پیش کیا ہے وہ زبردستی لیا گیا ہے اور اس نے اپنے اوپر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کی شکائت بھی کی لیکن سعودی جج نے اس پر کوئی نوٹس نہ لیا –
چار سال بعد جب علی محمد النمر کی آخری اور فائنل اپیل بھی عدالت نے مسترد کرڈالی اور اس کا سر قلم کرکے ، اسے قطیف کے چوک میں مصلوب کئے جانے کا حکم سنایا تو ستمبر میں اس کے اہل خانہ کو بس اس سزا کی اطلاع دی گئی جبکہ اس کی گرفتاری سے لیکر اس کے ٹرائل چلائے جانے تک اس کے اہل خانہ کو کوئی اطلاع اس بارے میں نہ تو دی گئی اور نہ ہی ان کے وکیل کو علی محمد النمر تک رسائی دی گئی علی محمد النمر کے خلاف جتنے الزامات ہیں سب فرضی اور بناوٹی ہیں – علی محمد النمر کا سب سے بڑا جرم اس کا شیخ محمد النمر کا بھتیجا ہونا ہے جسے سعودی حکومت مشرقی صوبوں میں تحریک مزاحمت سے پیدا ہونے والی تمام مشکلات کا زمہ دار خیال کرتی ہے اور وہ اب شیخ محمد النمر کو اس کی سزا سنانے سے پہلے ایک اور عذاب سے گزارنا چاہتی ہے سعودی عرب میں حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے صرف سر ہی قلم نہیں کئے جاتے بلکہ ان کو کئی روز مصلوب کرکے بیچ چوراہے میں لٹکاکر بھی رکھا جاتا ہے تاکہ کسی اور کو آل سعود کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ہمت نہ ہو –
سعودی عرب کے اندر اس سال 87 سے زیادہ لوگوں کے سر قلم کئے جاچکے ہیں جبکہ گرفتاریوں اور عقوبت خانوں میں آذیتیں دئے جانے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تںطیموں نے یورپی یونین ، مغربی حکومتوں اور امریکی حکومت کی سعودی عرب کی جانب سے علی محمد النمر کے سر کو قلم کرکے مصلوب کرنے کی سزا پر خاموشی اختیار کرنے اور نمر کے کیس کو ” احمد ” کے کیس کی طرح ہینڈل نہ کرنے پر شدید تنقید کی ہے –
امریکی ٹاک شو ہوسٹ بل ماہر نے اپنے ٹی وی شو میں امریکی صدر اور اور دیگر حکومتی حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ علی محمد النمر کے کیس میں ان کی خاموشی سوائے منافقت اور دوھرے معیار کے اور کچھ بھی نہیں ہے انٹرنیشنل بزنس ٹائم میں کلائیو سٹیفورڑ سمتھ نے اپنے ایک مضمون میں برطانوی حکومت کی علی محمد النمر کے خلاف سعودی حکومت کی خوفناک سزا پر خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی حکومت کو سعودی عرب سے اپنی بزنس ڈیل زیادہ عزیز ہے نہ کہ انسانی حقوق کا احترام جبکہ اسی جریدے میں اورنلڈو کروکرافٹ نے اپنے ایک مضمون میں سعودی عرب کے ظالمانہ عدالتی نظام کے وحشیانہ پن بارے کھل کر لکھا ہے اور اس حوالے سے یورپی اور امریکی حکومتوں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے
مغرب میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ، انٹرنیشل ہیومن رائٹس واچ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ليگل چئیرٹی ری پرائیو وغیرہ اور انٹرنیشنل میڈیا کا ایک سیکشن پوری تندھی کے ساتھ ” علی محمد النمر ” کی جان بچانے اور سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کے برعکس مسلم دنیا کے اکثر ملکوں ميں مین سٹریم ميڈیا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لبرل ، لیفٹ پارٹیوں نے بھی اس معاملے پر قریب قریب خاموشی سادھ رکھی ہے – سوشل میڈیا پر اپنی طنز و مزاح سے بھرپور تنقید نگاری کے لئے معروف ریاض ملک الحجاجی نے اپنے حال ہی میں پوسٹ کئے گئے ایک آرٹیکل میں سعودی عرب کے فنڈز سے چلنے والی امریکہ میں قائم تنظیم ” کونسل فار اسلامک ریلیشنز ” کے منافقانہ کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی ٹیکساس میں سعودی نژاد ہائی اسکول طالب علم کے ساتھ ” مسلم شناخت ” کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک اور گرفتاری کا معاملہ سامنے آیا تو اس تنظیم نے سوشل میڈیا ، مین سٹریم ميڈیا پر اس ایشو کو ہائی لائٹ کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے اور ہیشٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا
لیکن یہ تنظیم ایک طرف تو سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی صوبوں قطیف و الاحصاء میں سعودی عرب کی ریاستی مشینری کی جانب سے شیعہ شناخت رکھنے والے سعودی باشندوں کے خلاف تعصب ، امتیازی سلوک ، ان کے انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہے تو دوسری طرف ” علی محمد النمر ” کے کیس پر بھی یہ ٹس سے مس نہیں ہورہی اور اس نے آج تک ہیشٹیگ علی محمد النمر کو سوشل میڈیا میں پروموٹ کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور یہی کردار باراک اوبامہ کا ہے کہ انہوں نے جس طرح سے ہیشٹیگ آئی سٹینڈ ود احمد کو ری ٹیوٹ کیا اور امریکی عوام کو اس ایشو پر حساس کیا ویسے انہوں نے علی محمد النمر کے کیس میں نہیں کیا جبکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے ایک وفد کی قیادت بھی سعودی عرب کے حوالے کی گئی جس پر شدید تنقید سامنے آئی ہے پاکستان کے اندر اپنے آپ کو کئی ایک صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار ” انصاف کا مدارالمہام بناکر دکھاتے ہیں اور حال ہی میں شامی مہاجر بچّے ایلان کردی کے ڈوب کر مرجانے کے واقعے پر ان کی جانب سے بہت گریہ و ماتم کیا گیا لیکن علی محمد النمر جیسے جوان رعنا کے لئے ان کا قلم اور زبان دونوں حرکت کرنے سے قاصر ہیں
اور اس خاموشی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ” مئے لانا اشرفی ” کی پروجیکشن میں آج بھی جتے ہوئے ہیں اور ایرانی مذھبی ملائیت کی ” سفاکیت ” کو بے نقاب کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں مگر سعودی عرب کے ” مشرقی صوبوں ” ميں ہونے والے جبر اور ظلم پر بولنے سے پہلے ہی ان کی سٹّی گم ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اردو اور انگريزی پریس میں کسی بڑے سے بڑے جغادری کو ” علی محمد النمر ” کے بارے میں کوئی ایک کالم لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ، کیونکہ ایک تو یہ ایسا کالم لکھ کر ” مستحق عتاب آل سعود و نواز ” نہیں ہونا چاہتے دوسرا پاکستان کا بالخصوص اردو پریس ” سعودیہ عرب ” کے خلاف ایک لفظ بھی شایع کرنا ” گناہ گبیرہ ” خیال کرتا ہے اور اسی لئے میں نے بھی یہ کالم بلاگ پر پوسٹ کیا ، کسی اخبار کو بھیجنے کا سوچا تک نہیں ہے اپنے پڑھنے والوں سے فقط اتنی گزارش ہے کہ ایک تو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جائیں اور
#AliMohammedAlNimr
پر جائیں اور علی محمد النمر سے اظہار یکجہتی کا ٹوئٹ کریں ، اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ فیس بک پر بھی النمر کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اور اگر آپ کے پاس وقت ہو تو سعودی سفارت خانے کو بھی احتجاجی مراسلہ ارسال کریں اور ایک یاد دھانی امریکی سفارت خانے کو بھی بھیجیں کہ وہ سعودی عرب کے آمرو مطلق العنان حکمرانوں اور جابر رجیم کے خلاف بھی اسی طرح سے بیان دے اور اقدامات اٹھائے جس تندھی کے ساتھ وہ ایران میں مذھبی پیشوائیت ، شام میں بشار الاسد اور عراق میں صدام حسین کی آمریت کے خلاف خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے دکھاتا آیا ہے –
ایران میں بہائی اقلیت کے خلاف ، پارسیوں کے خلاف اٹھائے جانے والے ظالمانہ اور انسانی حقوق کی پامالی پر جس طرح سے ردعمل آتا ہے اس طرح سے ردعمل سعودی عرب کے خلاف بھی آنا ضروری ہے جماعت اسلامی نے ” عید قربان پر جانوروں کی کھالوں ” کے لئے کراچی میں بینرز پر مسلم دنیا پر سامراج کے مظالم سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لئے قربانی کی کھالیں جماعت اسلامی کو دینے کے لئے ” ایلان کردی ” کی تصویر پر مبنی پینافلیکس چھپوائے ہیں جبکہ اس کی ” مظلوم پسندی ” سعودی عرب کے باب میں اسی طرح سے ٹھس ہے جیسے جے یوآئی ف ، س ، ن ، جماعت دعوہ سمیت دائیں بازو کی اکثر جماعتوں کی ٹھس ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ کبھی ایران کا ہو تو وحدت و تحریک نفاز۔ و ش کونسل و ج کونسل کی مظلومیت پسندی ٹھس ہوجاتی ہے –
ان سب کے ہاں سلیکٹو قسم کی انصاف پسندی اور مظلومیت کے راگ ہی الاپے جاتے ہیں اور ولن و ظالم و آمر بھی ” شناختوں اور علامتوں ” کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں اور اپنے اپنے مربیوں کا ہر ظلم روا اور دوسرے کا ناروا ہوتا ہے – شاید ہمیں ابھی ” انسانیت پسندی ” کی مںزل تک پہنچنے کے لئے اور طویل سفر طے کرنا پڑے گا اور کئی ” علی محمد النمر ” اس راستے میں قربان ہوں گے میں علی محمد النمر کے ساتھ کھڑا ہوں اور سعودی عرب کی حکومت کے نام نہاد نظام انصاف کا منکر ہوں ۔ مرگ بر آل سعود
Source:
http://voiceofaamir.blogspot.jp/2015/09/blog-post_52.html