شیخ احمد سرہندی ایک تجزیہ – عامر حسینی

Indian-and-Inan-artists-work-collectively-in-the-Mughal-period

 

نوٹ : یہ سلسلہ مضمون میں بہت پہلے لکھنا چاہتا تھا ، خاص طور پر اس وقت جب ” عبدل نیشا پوری ” ، علی ارقم عرف انور دورانی ، فرحت تاج اور دیگر کئی لوگوں کی جانب سے عصر حاضر کی تکفیریت اور خارجیت ، ساتھ ، ساتھ دھشت گردی کی تاریخی جڑوں کی تلاش شروع ہوئی تو عبدل نیشا پوری نے ” شیخ احمد سرہندی ” بارے کچھ باتیں کیں اور کچھ نظریاتی و فکری مقدمات بھی سامنے رکھے ،

پھر یوں ہوا کہ مجھے بھی احساس ہوا کہ اس بارے میں روائتی موافق و مخالف باتوں سے ہٹ کر بات کرنا ضروری ہوگئی ہے ،ایک اور ساتھی نے مجھے پیغام بھیجا کہ شیخ احمد سرہندی کے بارے میں جو متھ اور حقیقت کے درمیان کی کیفیت ہے اسے ختم کیا جائے اور اس دوست کا انباکس میسجز میں اصرار ہی اس سلسلہ ہائے مضمون کا زیادہ سبب بنا شیخ احمد سرہندی مشرقی پنجاب کے شہر سرہند میں 1564ء میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ محمد واحد سلسلہ چشتیہ صابریہ سے منسلک تھے اور شیخ ابن عربی کے متعقد تھے اور فصوص الحکم ان کی محبوب ترین کتب ہائے دروس میں شامل تھی اور شیخ احمد خود بھی اوائل عمری میں ” وحدت الوجود ” کے قآئل تھے

اور انھوں نے ایک مکتوب میں لکھا کہ اوائل ميں ان کے اندر کفر و ایمان دونوں اکٹھے تھے یعنی وہ وحدت الوجود کے بھی قائل تھے جو بقول ان کے کفر تھا پـدرش شـيخ 5 خليفه دوم ميرسيد.- و به همين دليل به فاروق عبدالاحد از مشايخ طريقه صابرين چشتيه در سرهند جلسات درس بـه پـا كـرده و متعلمـان را كلام و عرفان ميآموخت. شيخ عبدالاحد گرايشهاي وحـدت وجـودي داشـت و محبـوبتـرين متون درسياش كتاب التعرف بخاري، عوارف المعارف سـهروردي و فـصوص الحكـم ابـن عربـي بود»(8، ص: 205). شيخ احمد تحصيلات مقدماتي خود را، نزد پدر آموخت كه صـبغه وحـدت وجودياش از همان اوايل مشهود بود. در يكي از مكتوبات اوليه شيخ احمد به خواجه بـاقي بـاالله (مرادش) چنين آمده است: اي دريغا كين شريعت ملت ايماني است ملت ما كافري و ملت ترسايي است كفر و ايمان زلف و روي آن پري زيبايي است كفر و ايمان هر دو اندر راه ما يكتايي است(5،دفتر دوم، مكتوب اول) شیخ نے ابتدائی تعلیم تو گھر پر ہی حاصل کی لیکن مزید تعلیم کے لئے وہ سیالکوٹ گئے

اور وہاں مولوی کمال الدین کشمیری اور مولوی یعقوب سے حدیث اور دیگر علوم پڑھے براي تكميل معلومات خـود بـه سـيالكوت رفـت. در آن جـا نـزد مولانـا كمـال الـدين كشميري، علوم منقول و نزد شيخ يعقوب كشميري، فقه و حديث آموخت اور ان کے مریدان اور پیروان نے لکھا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں انھوں نے تمام علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کرلیا اور ان کو اجازت تدریس علوم بھی مل گئی تھی اور قاضی بھلول بدخشی جو کہ شیخ عبدالرحمان کے شاگرد تھے انھوں نے ان کو روایت حدیث کی اجازت دی اور تفسیو قرآن و صحاح ستہ کی بھی اجآزت ان سے مل؛ ،

اسی دوران تدریس کے علاوہ وہ عربی و فارسی کے اندر تصنیف و تالیف میں بھی مشغول ہوگئے پيروانش نوشتهاند در هفده سالگي علوم ظاهر و باطن را به دست آورده و بـا اذن قاضـي بهلـول بدخشي، شاگرد شيخ عبدالرحمن بنفهد، جواز روايت گرفته و با تصويب و توصيه او به تـدريسِ تفسير و صحاح سته پرداخت. در همين دوران بود كه او علاوه بر تـدريس بـه تـصنيف و تـأليف رسالههايي به زبان فارسي و عربي همت گماشت ہم اگرشیخ احمد سرہندی کے فکری ارتقاء کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے چند ایک باتیں ضرور رہنی چاہيں ایک تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ شیخ احمد سرہندی جب تدریس اور تالیف کی طرف آئے تو ان کے عزائم اس دور کی ان کی تحریروں میں ہی بہت بلند نظر آتے ہيں ،

اور یہ وہ زمانہ تھا جب اکبّر نے ہندوستان کے اندر مضبوط مغلیہ سلطنت کی بنیادیں ڈال دی تھیں اور اکبّر مغل راج کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان کے اندر مختلف مذھبی اور نسلی گروپوں کے درمیان ” صلح کل ” کی بنیاد تلاش کررہا تھا ، جس سے کوئی مذھبی تضاد آگے بڑھکر مغلیہ اقتداد کی چڑيں کھوکھلی نہ کرسکے ، اکبّر نے ہمایوں سے آگے جاکر یہ کیا کہ اس نے اپنے دربار میں جہآں پہلے سے ایرانی ، افغان (روھیلہ وغیرہ ) مقربین مين شامل تھے وہیں اس نے ہندؤ بااثر قبیلوں کے سرکردہ لوگوں کو بھی جگہ دی ، اس کے دربار میں شیعہ ، سنّی ، صوفی ، ہندؤ برہمن ، سادھو ، سنیاسی سبھی تھے اور اکبّر نے اپنے قریب ایسے علماء کو کیا جوکہ صلح کل صوفی المشرب تھے جیسے علامہ مبارک ناگپوری ، فرزندان مولوی یعقوب کشمیری اور ابوالفضل فیضی وغیرہ اور ان کا زیادہ جھکاؤ ایرانی شیعہ اور صوفی صلح کل کی جانب تھا اور جو اکبّر کی روادار ، سیکولر ، لبرل پالیسی کی حمائت کررہے تھے

اور اس پالیسی کے جواز کے لئے ظاہر ہے ایسی مذھبی تعبیرات کو اولیت دی جارہی تھی جو کہ صلح کل کے حق میں ہوں اور بین المسالک اور بین الادیان لڑائی ڈالنے والی نہ ہوں ، اکّبر نے ہندوستان میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان تعلق کی نوعیت کو دو برادار اقوام کے طور پر سیٹل کرنے کی پالیسی جو اپنائی تھی اس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں تھا کہ ہندؤں کو حربی کافر قرار دیا جاتا ، یا ان کو زمّی قرار دیکر ان پر جزیہ نافذ کیا جاتا ، اکّبر اور اس پہلے ہمایوں کے زمانے ميں بھی ہندوستانی مغلیہ سلطنت ایک جانب تو ایرانی صفوی شیعہ ریاست سے اپنے تعلقات دوستانہ رکھنے کی خواہش مند تھی ،

دوسری طرف ایران اور آج کے مڈل ایسٹ کے اندر چل رہی شیعہ – سنّی چتقلش سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی تھی ، ایسا نظر آتا ہے کہ مغلیہ سلطنت نے آغاز کار سے اپنے آپ کو نسبتا ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کیا اور اکّبر نے نے اس کو اور زیادہ اچھی طرح سے بطور مغل سلطنت کی پالیسی کے طور پر اپنایا اس موقعہ پر ہمیں زرا یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ مغل سلطنت جس کی بنیاد مغلوں کے جد تیمور لنگ نے رکھی تھی اور تیمور ، بابر ، ہمایوں نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیادوں کو مذھبی بنیاد کی بجائے ، سیکولر بنیاد پر استوار کیا اور ہندوستان کے اندر مجموعی طور پر ایک روادار طرز حکومت کو فروغ دیا تھا لیکن پھر دربار پر ایسے علماء کا اثر و رسوخ موجود تھا جو کہیں نہ کہیں ریاست کو فرقہ وارانہ یا کمیونل بنیادوں پر اقدام اٹھانے پر مجبور کردیا کرتے تھے ،

اکبّر نے جب عنان حکومت سنبھالی تو اس زمانے میں ایک شدت پسند عالم تھے قاضی شیخ عبدالنبی انھوں نے اکبّر کو قائل کیا کہ وہ شیعہ عالم میر مرتضی شریف شیرازی ثم دھلوی کی قبر کو کھدوادیں جوکہ امیر خسرو کے ساتھ تھی اور اس کی بنیاد انھوں نے یہ قرار دی کہ ایک سنّی مسلمان کی قبر کے ساتھ ایک رافضی کی قبر نہیں ہونی چاہئیے اکبّر کی پیدائش 15 اکتوبر 1542ء میں ہوئی اور وہ تیرہ سال کی عمر میں بیرام خان کی اتالیقی میں مغل سلطنت کا بادشاہ بنا اور 1556ء کا سال تھا اور آثار و تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اکبّر پر آرتھوڈوکسی کا غلبہ 1570ء تک رہا اور اس عرصہ میں اس نے گجرات میں جو مہدویت کی تحریک تھی اسے سختی سے کچل ڈالا تھا اور اس کے روح رواں شیخ مصطفی المعروف بندگی میاں کو پابازنجیر فتح پور سیکری میں دربار اکبّر میں لایا گیا اور قید کیا گیا ،

یہ وہ دور تھا جب اکبّر خود بھی ایک بڑے فکری ارتقاء سے گزر رہا تھا ، یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے جو اساتذہ تھے ان میں اگرچہ سب کے سب آرتھوڈوکس تھے لیکن اور ان اساتذہ میں دو ایرانی شیعہ بھی تھے جبکہ باقی سب سنّی حنفی تھے مگر یہ سب شدت پسندی سے دور تھے اور معتدل نظریات کے حامل تھے 1570ء سے 1579ء تک کا دور اکبّر کی زندگی کا اہم ترین دور ہے ، اس دور میں اکبّر نے تصوف میں صلح کل کے مشرب اور راستے کی جانب سفر شروع کیا اور زیادہ سے زیادہ ایسے علماء و صوفیاء کی صحبت اختیار کی جن کا رجحان وحدت الوجود کی طرف تھا اور وہ آرتھوڈوکسی کی فرقہ وارانہ اور کمیونل شکلوں سے دور تھے ،

اکبّر نے اسی زمانے میں اپنے دربار کے اندر ایک طرف تو سنّی علماء کے ساتھ ساتھ شیعہ علماء کو بھی بلایا ، پھر اس نے دیگر مذاہب کے علماء کو بھی دربار میں جگہ دی ، اس کے ساتھ مختلف مذاہب کے اندر جو روحانیت اور باطنیت کی روایات کے علمبردار مکاتب فکر تھے ان کے ماہرین کو بھی اپنے دربار میں جگہ دی اکبّر کے دور میں کہا جاتا ہے کہ اکبّر کی ” صلح کل ” کی پالیسی کی وجہ سے مغل فن تعمیر ، آرٹ ، پینٹنگ ، کیلی گرافی اور دیگر فنون لطیفہ ارتقاء کی اس منزل پن پہنچے جہاں ان کو

Indo – Perso Islamic Culture

یا ہند – فارسی اسلامی کلچر کا نام دیا گیا اور اسے ہند – فارسی تہذیب کا نام بھی دیا گیا –

اکبّر نے اسی دور میں اپنے ہاں ایک عبادت خانہ کے نام سے ایک عمارت تعمیر کروائی جس کے اندر سنسکرت ، فارسی ، عربی ، ہندوی اور یونانی زبان کے عالموں ، ادیبوں کو جگہ دی گئی اور اس میں ہی ایک کتب خانے کی تعمیر ہوئی جس میں سنسکرت ، عربی ، فارسی ، ہندوی ، یونانی ، کشمیری زبانوں میں لکھی 24 ہزار سے زائد کتب اکٹھی کی گئیں یہ وہ دور ہے جب اکبّر نے ایک طرف تو شیخ مبارک کے بیٹوں کو اپنے قریب کیا جو کہ علم وفضل میں یکتا اور آرتھوڈوکسی سے دور تھے اور اسی دور میں اکبّر کے قریب میر احمد نصراللہ ٹھٹھوی اور پھر طاہر محمود بن حسن نسیانی سبزواری ٹھٹھوی اکبّر کے مقربین میں شامل ہوئے میر احمد نصر اللہ ٹھٹھوی کی پیدائش سندھ میں ہوئی تھی

لیکن اس نے اس زمانے میں ‏عثمانی ترک سلطنت ، صفوی سلطنت اور مغل سلطنت کے جتنے علم و عرفان اور تجارت کے بڑے مراکز تھے ان کا دورہ کیا تھا اور اس نے پھر اس زمانے میں جو ہندوستان ، فارس ، جحاز اور شام وغیرہ میں دیگر مذاہب کی جو گونا گونی تھی اس کا علم بھی حاصل کیا تھا ، افسوس یہ ہے کہ میر احمد نصراللہ ٹھٹھوی جس کو اکبّر کا بہت زیادہ قرب حاصل تھا اور یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اکبّر کی صلح کلیت کی فکر کی تشکیل میں اور اسے بلوغت تک پہنچانے میں میر احمد نصر اللہ ٹھٹھوی کا بہت بڑا ہاتھ تھا ، اس کے بارے میں تفصیلات بہت کم ہیں

اور یہی حال شیخ طاہر ٹھٹھوی کا بھی ہے جس نے روضۃ الطاہرین نامی کتاب کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اکبّر نے اسی اہم ترین فکری ارتقاء کے عرصہ کے دوران ایسے عالم فاضل لوگوں کا انتخاب کیا جن کی تاریخ پر عبور ہو اور ان کے زمہ اس نے مسلم تاریخ کی ابتداء سے لیکر اپنے دور تک کی تاریخ کو مدون کرنے کا کام کیا اور شیخ طاہر ٹھٹھوی اس پروجیکٹ کا نگران بھی تھا اور اس نے سندھ ، حجاز ، ترک علاقوں سمیت کافی علاقوں کی تاریخ خود مدون کی اور اس نے 36 ابواب پر مشتمل روضۃ الطاہرین کو ترتیب دیا

اور اس کی وفات جہانگیر کے دور میں ہوئی جبکہ شیخ احمد نصراللہ ٹھٹھوی کا انتقال اکبّر کی زندگی میں 1588ء میں ہوگیا تھا اکبّر نے 1570ء سے 1579ء تک جس طرح کے خیالات کو قبول کیا اور جس طرف اس نے حرکت کی وہ ایک بات تو طے ہے کہ وہ آرتھوڈوکس مسلم تھیوکریسی سے ہٹ کر تھے اور خاص طور پر اس مسلم تھیوکریسی کے سیکشن کے بالکل برخلاف تھے جوکہ ہندوستان میں سخت گیر ، فرقہ پرستانہ سنّی حنفی ماڈل کا نفاذ چاہتے تھے ، جو ہندوستان میں بسنے والے ہندوؤں ، سکھوں ، پارسیوں ، بدھ مت اور جین مت کے ماننے والوں پر جزیہ جبکہ مسلمانوں میں جو آرتھوڈوکس سنّی مکتبہ فکر سے ہٹ کر دوسرے فرقے اور مسالک تھے جیسے شیعہ ( اثناء عشریہ ، اسماعیلی ، قرامطہ وغیرہ ) ان کو مرتد قرار دیکر یا تو ان سے توبہ تائب ہونے یا ان کے قتل کا نظریہ رکھتے تھے

اور ہمیں ایسے شواہد ملے ہیں کہ اکبّر کے ابتدائی دور میں یعنی 1556ء سے 1570ء تک ان علماء کو اکبّر کے دربار میں خاصا اثرورسوخ حاصل تھا اور اکبّر کے دربار میں ایسے نقشبندی صوفیاء کو بھی بڑا اثر و رسوخ حاصل تھا جو وسط ایشیائی علاقوں ، افغانستان پر خاصا اثر رکھتے تھے اور ان کے شیعہ مذھب کے بارے میں نظریات خاصے فرقہ وارانہ تھے اور اس کی ایک وجہ ترک عثمانی سلطنت ، صفوی سلطنت کے درمیان کشاکش اور اسی طرح سے صفویوں کی وسط ایشیائی چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں پر قبضہ گیری اور وہاں پر شیعہ مذھب کا تسلط اور جواب میں سنّی ازبک ، تاجک ، افغان ، تاتار ، ترکمانیوں وغیرہ کا ردعمل بھی تھا اکبّر نے 1570ء میں اس فرقہ پرستانہ اور کمیونل ڈسکورس سے دور ہونا شروع کیا ،

اور اس کی سوچ میں تبدیلی کے آثار اس وقت نظر آئے جب اس نے مہدوی تحریک کے روحانی پیشوا بندگی میاں شیخ مصطفی کو قید سے رہا کردیا اور اس نے اپنے دربار میں شیعہ – سنّی اختلاف کو ابھارنے والی پالیسی پر پابندی لگادی اور یہ وہ دور تھا جب سخت گیر ، آرتھوڈوکس میں واضح طور پر فرقہ پرستانہ رجحان کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اور literalism کی جانب واضح جھکاؤ رکھنے والے مذھبی پیشواؤں اور سخت گیر نقشبندی صوفیاء سے اکبّر کی دوری کا سلسلہ شروع ہوا ورنہ اس سے پہلے اس کے دربار میں یہ دونوں سیکشن مقرب تھے اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آرتھوڈوکس مسلم علماء و مشائخ کے سارے کے سارے سیکشن جو تھے وہ اکبّر کی صلح کل ، وحدت الوجودی روش کے خلاف ہوگئے تھے کیونکہ ہم نے خود پڑھ لیا کہ شیخ احمد سرہندی کے والد شیخ واحد صابریہ چشتیہ سلسلہ کے خلیفہ تھے اور وہ شیخ اکبّر کے نظریہ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ اور پرچارک تھے ،

اسی طرح ہم نے بہت سے علماء بشمول شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ اکبّر کے حامی تھے اور اسے مسلمان ، موحد اور صوفی خیال کرتے تھے دھلی اور آج کے اتر پردیش اس وقت کے اودھ میں بدایوں ، بریلی سمیت کئی علاقے ایسے تھے جہاں علماء و مشائخ کی ایک پرت سامنے آئی اور اس نے اکبّر بادشاہ کے خلاف فتوی جاری کردیا اور اکبّر پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ایک نئے دین کی بنیاد رکھنے جارہا ہے اور اس پر خود کو خدا کہلوانے کا الزام بھی لگایا گیا ، ایسے قاضی جنھوں نے اکبّر پر کفر کا فتوی دیا تھا ان کو اکبّر نے سخت سزائیں دیں اور ساتھ ساتھ اکبّر نے علماء و مشائخ سے رجوع کیا اور اپنے خیالات ان کے سامنے رکھے ، جنھوں نے ایک محضر نامہ تیار کیا جس کے نیچے کئی سو علماء کے دستخط و تائید موجود تھی اور اس میں اکبّر کو مغل سلطنت کا خلیفہ قرار دیا گیا اور اکبّر کو یہ آختیار دیا گیا کہ وہ مجتھدین مذاہب اسلامیہ کی مختلف آراء و فتاوی جات میں جس کو سلطنت کے موافق سمجھے نافذ کردے

اور اکبّر کو اس حوالے سے آحری اتھارٹی مان لیا گیا ، اس محضر نامہ پر دستخط کرنے والوں میں بڑے بڑے نام شامل تھے جو سنّی آرتھوڈوکسی کے بڑے نام تھے ہمیں مغل سلطنت کے اکبّر کے دور تک آتے آتے ہندوستانی سماج کے اندر لوگوں کے اندر رونماء ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا چاہئیے اور اس زمانے میں ہمیں مسلم تصوف ، ہندؤ ویدانت ، بدھ مت و جین مت کے باہمی تعامل اور سماجی زندگی میں لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ سے پیدا ہونے والے اس فکری ڈسکورس کو بھی ذھن میں رکھنا چاہئیے جو مذاہب کی آرتھوڈوکس اشرافی روائت کے ردعمل اور مقابلے میں نیچے سے خود عوامی حلقوں ميں پیدا ہوا اور اس حوالے سے اگر ہم مغلیہ سلطنت کے اندر موجود لاہور ، بھکر ، ملتان اور دھلی تک دیکھیں تو گرونانک اور ان کے ساتھ ساتھ مسلم حلقوں ميں شاہ حسین اور ہندی بیلٹ میں بھگت کبیر جیسے نام نظر آتے ہیں اور ان کی جانب سے صلح کلیت کو ایک واضح عوامی ڈسکورس کے طور پر اپنالیا گیا اور انھوں نے آرتھوڈوکسی کو رد کیا اور مذھب ، فرقہ ، زات پات سمیت جتنے تعصبات موجود تھے ان کے خلاف فیصلہ دیا ،

اکبّر نے اس رجحان کو موڈیفائی کیا اور اسے جواز فراہم کرنے کے لئے مغل ایمپائر کی بڑھتی ہوئی طاقت کا کندھا پیش کیا اور اس نے فرقہ پرست اور کمیونل سیکشن کو ناراض کیا بلکہ وہ اکبّر کے خلاف صف آراء ہوئے ، اگرچہ اکبّر نے اپنے زمانے میں ان کو سر اٹھانے کا موقعہ فراہم نہ کیا اور نہ ہی یہ سیکشن اکبّر کو اس زمانے میں کوئی بہت بڑا چیلنچ دینے میں ناکام رہے اور خود شیخ احمد سرہندی بھی ایک اوسط درجے کے اور جہانگیر کے نزدیک خبط کا شکار مولوی تھے اور ان کو خود نقشبندی صوفیہ کے اندر بھی کوئی بہت بڑا مقام حاصل نہیں ہوسکا تھا ،

مگر بعد میں اورنگ زیب کے آتے آتے ، مغل پیریڈ کے آخری دنوں ميں جب مغل سلطنت دوبارہ راجواڑوں ، چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی تھی اور طوائف الملوکی پھیل گئی تھی اور مغل سلطنت میں جو اشراف طبقات تھے ان کو اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا خیال ستایا تو اکثر نے رجوع شیخ احمد سرہندی کے ںظریات سے کیا اور اس میں مبالغہ بھی بعید از قیاس نہیں اور پھر شاہ ولی اللہ نے بھی اس ہی روائت کی پیروی کی کیونکہ اس میں ہی ان کو اورنگ زیب کے زمانے کی ہندوستانی اشراف کے سماجی مرتبے کی بحالی نظر آتی تھی اور پھر بعدازان اس میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے آتے آتے عرب سے اٹھنے والی محمد بن عبدالوہاب کی وہابی عرب نیشنلسٹ تحریک کے ںظریات کا اثر بھی داخل ہوا

اور اسی راستے سے شیخ ابن تیمیہ کے ںظریات بھی زندہ ہوئے اور ایک بری طرح سے تقسیم شدہ ہندوستانی سماج جو تھا اس میں اکبّر کی صلح کلیت اور گرو نانک ، بھگت کبیر ، شاہ حسین ، بلّھے شاہ ، میآن میر ، دار شکوہ ، شیخ محب الہ آبادی سمیت جتنے صلح کل تھے کی روادار ، سیکولر روایت انسپائریشن کا سبب نہیں تھی اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے یہ جو فرقہ پرستانہ تحریک تھی جسے وحدت الشہودی رجحان بھی کہا گیا اور اس کو بعد ازاں دارالعلوم دیوبند ، دارالعلوم بدایوں ، دارالعلوم دھلی ، یہآں تک کہ دارالعلوم بریلی وغیرہ میں بھی اپنایا گیا اور اس کے بطن سے ہم نے دو قومی نظریہ بھی ابھرتے دیکھا اور پین اسلام ازم بھی ابھرا

اور آج جسے پولیٹکل اسلام کہا جاتا ہے اس کی جڑیں بھی اس ميں پیوست ہیں اکثر ہندوستان کے ان مغلیہ علاقوں ميں غلبہ پائے دکھائی دئے جو مغلیہ سلطنت میں اہم شہری علاقوں کے طور پر ابھرے تھے اور خود آرتھوڈوکس ملائیت بعد ازاں مکمل طور پر صلح کلیت سے دست بردار ہوتی چلی گئی اور سیکولر ، لبرل اور رواداری پر مبنی وہ روائت جو اکبّر کے دور میں بالغ ہوکر سامنے آئی رفتہ رفتہ زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی اور شریعت و طریقت کے درمیان مطابقت کے نام پر جو رجحان تصوف میں غالب آیا وہ بھی ایک اسی جانب اشارہ تھا اکبّر کی اگر آپ خارجہ پالیسی دیکھیں تو اس نے ایک جانب صفوی سلطنت سے بھی اپنے روابط میں فرق نہیں آنے دیا

اگرچہ اس نے بڑی حکمت عملی سے قندھار کو اپنی سلطنت کا حصّہ بنایا اور ساتھ ہی اس نے ازبک سردار عبداللہ خان اور صفوی سلطنت کی باہمی لڑآئی جوکہ شیعہ – سنّی رنگ لیکر رونماء ہوئی تھی اور عبداللہ خان نے وسط ایشیا کے کئی سںّی افغان ، ازبک سنّی حنفی علماء سے فتوی لے لیا تھا کہ شیعہ مرتد ہیں اور اس کی جان و مال مباح ہیں اور اس فتوے کو علماء ماوراء النھر کا فتوی بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن اکبّر نے ایک طرف تو عبداللہ خان سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ مغل سلطنت سے صف آراء افغان قبائل جن میں سوات اور باجوڑ کے یوسف زئی قبائل اور کاکڑ قبیلے کے لوگ زیادہ تھے اور یہ اکثر عبداللہ خان کے پاس جاکر پناہ گزین ہوتے تھے کو پناہ نہیں دے گا ، بدلے میں اکبّر صفویوں کو عبداللہ خان کے خلاف مدد نہیں دے گا ،

اکبّر نے ترک عثمانوں کے ساتھ بھی بہترین تعلقات بنائے ، نقشبندی اور قادری صوفیہ کے کئی ایک کاروان ‏الیپو جو اب شام مين ہے اس وقت سلطنت ترک عثمانیہ کا اہم تجارتی شہر تھا ، اسی طرح سے حجاز جو کہ ترک عثمانی سلطنت کا ایک صوبہ تھا میں روانہ کئے اور اکبّر نے حجاز میں ‏عثمانی ترکوں کے گورنر کی کافی اقتصادی مدد بھی کی جبکہ حجاز میں ہی اکبّر نے ایک قادریہ خانقاہ بھی تعمیر کرائی ، اکبّر کی بحریہ کا ایڈمرل یحیحی ترک عثمانوں سے بہترین تعلقات رکھتا تھا ، اکبّر نے پرتگیزیوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار کئے لیکن پرتگزیوں نے جب کبھی ترک عثمانیوں پر حملہ کیا تو اس نے پرتگیزوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا – 1587ء میں پرتگیزی بحری جہاز یمن کی بندرگاہ عدن پر حملہ آور ہوئے جوکہ ترک عثمانوں کی اہم تزویراتی اہمیت کی حامل بندرگاہ تھی تو اکبّر نے اپنا اتحاد پرتگیزیوں سے اپنا اتحاد ختم کردیا اکبّر نے صفوی سلطنت سے بھی اپنے تعلقات استوار رکھے ،

صفوی شاہی خاندان کی شہزادی قندھاری بیگم کا نگاہ اکبّر کے پوتے خرم سے ہوا تھا اور کئی اور ایرانی اشراف خاندان کی عورتیں مغل شہزادوں سے بیاہی گئی تھیں اکبّر نے 1585ء سے 1598ء تک کا عرصہ اپنے دربار کو لاہور میں منتقل کرکے گزارا اور اس پورے عرصہ میں اکبّر نے ایک طرف تو مغلیہ سلطنت کو افغانستان تک قندھار تک پھیلادیا اور دو سری طرف اس نے انڈس ویلی میں اپنے اقتدار کو سندھ ، مکران تک پھیلایا اور اس عرصہ میں ہم آج کے پنجاب ، سرائیکی ریجن کے اندر مغل صوبوں کی تشکیل یعنی لاہور ، ملتان ، بھکر اور پھر آگے سندھ کے اندر تصوف کی جو صلح کل روایت ہے اس کو پوری قوت کے ساتھ عروج پاتے دیکھتے ہیں اکبّر کے دور کا لاہور اور اس کے گرد و نواح میں سب سے بڑا نام شاہ حسین کا ہے اور ملتان میں ہم بھگت پرہلاد مندر اور سہروری خانقاہ کو ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں

یہاں پر مجھے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم اور شعبہ تاریخ سے وابستہ سکالر مطیع الرحمان کا جے این یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دھلی کے شعبہ ہائے تاریخ کے ایک مشترکہ پروجیکٹ کے لئے لکھے گئے مقالہ کا خیال آرہا ہے ،

جس کا عنوان ہے

Treatment of ‘Others’ in Muntakhab- ul-Tawarikh(Vol-2) of Abdul Qadir Badauni

ویسے تو یہ پورا مقالہ پڑھنے کی چیز ہے جس سے اکبّر کے زمانے میں سنّی آرتھوڈوکس مسلم مورخ کی جانب سے دوسرے مسالک جیسے شیعہ اور صلح کل صوفیاء نیز ہندؤ کے بارے میں اسلوب کا پتہ چلتا ہے لیکن یہاں میں اس مقالے کے چند اقتباسات اپنے موضوع سے متعلقہ پیش کرنا چاہتا ہوں مطیع الرحمان لکھتے ہیں کہ ” اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدایونی نے ” منتخب التواریخ ” میں شیعہ کو ” غیر ، دوسرے ، دوجے ” کے طور پر دیکھا ہے اور وہ ان کو منحرفین عن الدین کہتا ہے اور ان کے بارے میں بہت سی کہانیاں سناتا ہے –

وہ شیعہ حضرات کو اس بنیاد پر برا بھلا کہتا ہے کہ وہ صحابہ کرام کے بارے میں بری اور غلط کہانیاں پھیلاتے ہیں اور اکبّر کے زمانے میں حکیم ٹھٹھوی کا مبینہ طور پر صحابہ کرام کے بارے ميں زبان طعن دراز کرنے پر جو قتل ہوا ، اس کو درست خیال کرتا ہے اور قاتل کی تعریف کرتا ہے اور ملّا احمد ٹھٹھوی کے مرنے کے بعد چہرے کے مسخ ہونے کا قصّہ بھی سناتا ہے اور حکیم احمد ٹھٹھوی کے قتل کا زکر کرتے ہوئے وہ شیعہ کے اپنے مردوں کو دوران غسل مقعد میں کیل سے صفائی کرنے اور دریا میں کئی مرتبہ ڈبوکر اشنان کرنے کا قصّہ بھی بیان کرتا ہے اور اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ شیعہ سے کس قدر بے گانہ تھا اور اس کا شیعہ بارے جو علم تھا وہ سنے سنائے قصوّں پر مشتمل تھا

” مطیع الرحمان کہتا ہے کہ ایک طرف تو عبدالقادر بدایونی شیعہ سے ان کے عقائد کی بنیاد پر اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہے تو اسی منتخب التواریخ میں وہ شیعہ علماء کے علم ، ان کے عرفاء کے تقوی کی تعریف کرتا ہے – وہ اکبّر بادشاہ کے ریجنٹ ایجنٹ اور اکبّر کو ہمایوں کی وفات کے بعد تخت پر بٹھانے اور اکبّر کی تربیت کے زمہ دار بیرام خان کو خان خاناں سے یاد کرتا ہے جوکہ اسے اکبّر بادشاہ نے خطاب دیا تھا اور بیرام خان مذھبا شیعہ تھا اس کے باوجود وہ بیرام خان کو بہترین منتظم قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے زمانے میں ہندوستان ایک دلہن کی طرح تھا وہ حیرت انگیز طور پر اکبّر کے چیف جسٹس / قاضی القضاۃ شیخ عبدالنبی کی جانب سے میر مرتضی شریف شیرازی کی قبر کو کھدوانے کو بڑی ناانصافی قرار دیتا ہے اور وہ قاضی نور اللہ شوستری کو منصف ، نرم دل ، غیر جانبدار کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ شیعہ عالم اگر سنّی مذاہب فقہ اربعہ ( حنفی ، مالکی ، جنبلی ، شافعی ) کا عالم ہو تو اسے قاضی مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،

اسی لئے اس نے نور اللہ شوستری کے قاضی لاہور مقرر ہونے پر اعتراض نہیں کرتا ، بدایونی نے اپنی تاریخ میں صوفیآء پر اور بالخصوص وجودی صوفیآء پر شدید تنقید کی اور شیخ تاج الدین پر وہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے اکبّر کو وحدت الوجودی بنایا جوکہ اگے چل کر اکبّر کے گمراہ ہونے کا سبب بنا ، وہ ملّا یزدی اور ابوالفتح گیلانی پر الزام لگاتا ہے کہ انھوں نے اکبّر کو مذھب شیعت کی جانب مائل کیا اور ابوافضل اور فیضی پر وہ یہ الزام لگاتا ہے کہ اسے ” دین اللہی ” کی جانب لیجانے والے یہ تھے ، بدایونی ہر اس عالم پر تنقید کرتا ہے جو اکبّر کی مذھبی پالیسی کی حمایت کرتا ہے مطیع الرحمان کہتا ہے کہ اکبّر کی مذھبی پالیسی یہ تھی کہ اگر کوئی مکتبہ فکر اپنے عقائد کو کسی سیاسی آئیڈیالوجی میں ڈھال کر مغل سلطنت کو چیلنچ نہیں کرتا تو اکبّر اس مکتبہ فکر کو ” غیر ، دوجے ، دشمن ” کے طور پر نہیں لیتا ( اور مرے خیال ميں اس کی دلیل اکبّر کا تحریک مہدویت کی سیاسی طاقت ختم کرنے کے بعد اس کے پیشواء کی رہائی کا آڈر دینے ، ہندوستان کے سابق حکمران قبیلوں جن کا تعلق ہندؤ مت سے تھا سے رشتے داری اور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرنے ، شیعہ کی جانب معاندانہ رویہ ختم کرنے کی صورت میں نکلا اور روشنیہ تحریک کے خلاف بھی اس کی فوجی کاروائی اس کا مذھب کی آڑ ميں مغل سلطنت کو چیلنج کرنے والی آئیڈیالوجی کے سبب سے تھا –

مطیع الرحمان کا کہنا ہے کہ منتخب التواریخ میں ایک فقرہ بھی شیخ احمد سرہندی کے بارے میں موجود نہیں ہے اور جبکہ مطیع الرحمان کا خیال یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے اکبّر کو بہت سخت چیلنج دیا تھا مرے نزدیک اصل میں اکبّر کے دور ميں اس کی وفات تک شیخ احمد سرہندی کوئی بہت بڑی پوزیشن کے حامل نہیں تھے اور نہ ہی اکبّر کے مخالف سنّی آرتھوڈوکس ملاّ کریسی میں ان کی کوئی مرکزی پوزیشن تھی ، شیخ احمد سرہندی کا قد کاٹھ ان کی وفات کے بہت بعد اورنگ زیب کے دور ميں پڑھنا شروع ہوا اور اورنگ زیب شیخ احمد سرہندی کے خلیفہ غازی سیف سرہندی کا مرید تھا اور ان کو ایک بڑے مصلح ، ریفارمر کے طور پر کالونیل دور اور ترک عثمانی آخری دور میں پروجیکٹ کیا گیا

یہاں شیخ احمد سرہندی کے بارے کچھ اور حقیقتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی کی پیدائش 1564ء میں ہوئی جبکہ اکبّر 1556 ء یعنی ان کی پیدائش کے 8 سال پہلے ہی اقتدار پر براجمان ہوچکا تھا اور 1570ء جس کے بعد اکبّر کی سوچ آرتھوڈوکس سنّی حنفی اسلام سے صلح کلیت کی جانب منتقل ہونا شروع ہوئی تو شیخ احمد سرہندی کی عمر محض 6 سال تھی اور جب اکبّر کے خلاف کچھ قاضیوں نے بغاوت کی اور فتوی کفر جاری کیا تو وہ سال تھا 1579ء اور تبھی ایک محضر جاری ہوا تو شیخ کی اپنی عمر محض 15 سال تھی اور یہ وہ دور ہے جب شیخ احمد غالبا سیالکوٹ میں عبدالحکیم سیالکوٹی ، یعقوب کشمیری وغیرھم سے تعلیم پارہے تھے اور 17 سال کی عمر یعنی 1581ء تک یہ وہآن سے فارغ ہوئے اور اس زمانے کے بارے میں شیخ احمد سرہندی نے اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کو ایک خط میں لکھکر بتایا کہ وہ بہت عرصہ تک وحدت الوجود کے اسیر رہے اور اپنی دینی تعلیم اور وجودی تصوف سے وابستگی کو انھوں نے ” ایمان و کفر ” کی یکتائی قرار دیا یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک اسرائیلی دانشور تھے یوحنان فرائیڈ مین ، انھوں نے ایک پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا

Shyikh Ahmad Sirhindi : An outline of his thought and a study of him image in the eyes of posteriety

اس کتاب میں شیخ احمد سرہندی کی زندگی ، معمولات اور ان کی فکر کی بنیادوں کو تلاشنے کے ساتھ ساتھ یوحنان فرائیڈمین نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے معاصرین میں ان کی کیا حثیت تھی اور بعد میں آنے والی نسلوں نے ان کو کیسے دیکھا یوحنان فرائیڈمین نے اپنی اس کتاب میں پہلا مقدمہ تو یہ بیان کیا کہ شیخ احمد سرہندی کا اصل میدان تصوف تھا نہ کہ وہ ریاست و مذھب کے درمیان رشتے کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے ہوئے تھے اور اسی بنیاد پر ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ ان کو عوام الناس کے اندر جو شہرت ملی اور قبولیت ہوئی ، اس کی وجہ ان کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی کے شریعت ، شرعی قوانین بارے خیالات نہ تھے

اور نہ ہی ان کے خیالات کو مغل عہدے داروں ميں اکبّر کے زمانے میں خاص مقبولیت حاصل ہوئی ، یوحنان فرائیڈمین لکھتا ہے کہ شاہ جہان نے ایک مرتبہ شیخ احمد سرہندی کو دربار میں بلوایا تھا اور سوالات کئے تو ان کے جوابات سے وہ مطمئن نہ ہوا اور اس نے شیخ احمد سرہندی کو ذھنی طور پر عدم توازن کا شکار قرار دیکر ایک سال تک قید رکھا اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کے بعض جو صوفیانہ دعاوی تھے ان کی ہندوستان و حجاز کی مسلم آرتھوڈوکسی نے شدید مخالفت کی اور یہ جو شیخ احمد سرہندی کو مسلم آرتھوڈوکسی کا سرخیل اور معمار بنایا گیا ، اس کی ابتداء مصنف کے بقول بیسویں صدی میں ہندوستان کے اندر مسلم آرتھوڈوکسی کے ابھار کے دوران کی گئی ، اگرچہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ یوحنان فرائیڈ مین نے شیخ احمد سرہندی کو مسلم آرتھوڈوکسی میں بنیادی حثیت دینے اور اسے اکبّر بادشاہ کی مذھبی پالیسی کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم دینے والا بناکر پیش کرنے والا کس 20 ویں صدی کے مسلم سکالر کو قرار دیا

لیکن مجھے اس حوالے سے یہ سہرا یا الزام ابوالکلام آزاد کے سر جاتا دکھائی دیتا ، کیونکہ ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ” تذکرہ ” میں پہلی مرتبہ شیخ احمد سرہندی کو صوفی کی بجآئے ایک مسلم سیاسی مہان آرتھوڈوکس کے طور پر پیش کیا اور کئی ایک افسانے بھی گھڑے ، ایک افسانہ جسے مغربی اور ہندوستانی اکثر تاریخی تجزیہ کار بغیر تحقیق کے درج کرتے چلے آرہے ہیں ابوکلام آزاد کے زھن کی تخلیق لگتا ہے ، جس میں شیخ احمد سرہندی اور اورنگ زیب کی ملاقات دکھائی گئی اور اورنگ زیب کو شیخ احمد سرہندی نے ایک شیعہ قاضی کو قتل کرنے کو کہا جو اورنگ زیب نے کردیا ، جبکہ شیخ احمد سرہندی کی جب وفات ہوئی تو اورنگ زیب اس وقت مشکل سے چھے سال کا تھا ، اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغل سلطنت پر شیخ احمد سرہندی کے اثر ورسوخ کے جو افسانے کھڑے کئے ان کی حثیت کیا ہوگی ، یوحنان نے ہی ایک اور کتاب ” نقشبندیہ اور اورنگ زیب ” لکھی ہے

اور دونوں کے باہمی تعلق اور اورنگ زیب پر ان کے مرشد اور شیخ احمد سرہندی کے پوتے خواجہ سیف الدین فاروقی کے درمیان تعامل اور اس کے مغل سلطنت پر اثرات کا جائزہ لیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اورنگ زیب نے صلح کلیت کے نظریہ کے خلاف نقشبندیہ کو استعمال کیا اور اقتدار پر قبضہ کے لئے اس نظریہ کے حامی قوتوں یعنی دارشکوہ کے ساتھ صلح کل صوفیوں کو رگیدا بھی لیکن یہ ایک وقتی اور موقعہ پرستانہ اقدام تھا لیکن پھر بعد ازاں سرہند میں شیخ احمد سرہندی کی اولاد ایک خانقاہی سلسلے کی روح رواں کے طور پر سامنے آئی لیکن آرتھووڈوکسی پولیٹکل پیشوائی مرکز کے طور پر اس کی جگہ وہآں نہیں بنی تھی شيخ احمد در اين دوره از زندگي خود، صاحب دو اثر معـروف اسـت : اثـر اول كتـاب اثبـات النبوه كه در آن متأثر از انديشههاي غزالي در المنقذ من الضلال، به اثبات بعثت پيـامبر، نبـوت، خاتميـت، حقيقـت معجـزات انبيـا و نفـي و رد آراي فيلـسوفان پرداختـه و در آن بـه صـراحت انديشهها و اعتقادات اكبرشاه و نيز ابوالفضل (فرزند شيخ مبارك ناگوري) را مورد انتقاد قرار داده شیخ احمد سرہندی کے بارے میں مندرجہ ذیل فارسی عبارت کا ایک اقتباس ان کے اپنے گھر کی گواہی ہے

جو یہ بتاتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے اس زمانے میں وہ غزالی کی کتاب ” المنقذ من الضلال سے متاثر ہوکر ایک کتاب ” اثبات النبوۃ ” لکھی اور غزالی سے وہ اس لئے متاثر ہوئے کہ غزالی نے فلاسفہ ، حکماء کا رد کیا تھا اور شیخ احمد سرہندی کی جوانی کے زمانے میں شیخ مبارک ناگوری کے فرزند ابوالفضل فیضی اور اکبّر بادشاہ کے بارے میں ان کی پالیسی کے مخالفین ان کو بعثت انبیاء اور خاتمیت انبیاء اور معجزات وغیرہ کا منکر قرار دے رہے تھے یہاں پر مجھے ایک اور چیز کی طرف اشارہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی کے بارے میں ان کے عصر میں ان مقام کا تعین کرتے ہوئے جہاں فاش غلطیاں کی گئیں ، وہیں پر کچھ اور حقائق سے بھی نظریں چرائی گئیں ،

مثال کے طور پر عبدالقادر بدایونی جس کی منتخب التواریخ کا بہت تذکرہ کیا جاتا ہے ، اس کے مرشد اور پیر شیخ ابو فتح گجراتی تھے جوکہ شیخ محمد جونپوری بانی تحریک مہدویت تھے کے داماد تھے اور اس نسبت سے کہا جاتا ہے شیخ عبدالقادر بدایونی مہدوی یا مائل بہ مہدویت تھے اور سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ مہدوی تحریک جب خطرہ بنی اکبّر کے لئے تو اسے بری طرح سے کچل دیا گیا تھا لیکن اسی دوران اکبّر کی کایا کلپ بھی ہوئی ایک اور حقیقت جس کا اعتراف بہت کم کیا جاتا ہے اور عام طور پر شیخ احمد سرہندی کو ایک صوفی سے زیادہ سیاسی مولوی بناکر دکھانے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ہے خواجہ خورد عبداللہ فرزند خواجہ باقی باللہ کا چودہ سال کی عمر میں 86 سالہ شیخ احمد سرہندی کے ہاں تربیت کے لئے جانا لیکن ان کا ایک تو موسیقی اور سماع کی جانب رغبت اور شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کا عاشق ہونا اور اس کا گرویدہ ہوجانا ، پھر انھی خواجہ خورد کا میاں میر قادری کے خلیقہ شاہ اللہ کا گرویدہ ہونا اور ان سے بیعت کی کوشش کرنا اور جب شاہ اللہ قادری نے خواجہ خورد کو یہ کہہ کر شاگرد کرنے سے انکار کیا کہ وہ خود ایک بڑے صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے ہيں ،

خواجہ خورد نے ایک ” رسالہ سماع ” تحریر کیا اور اس میں موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا اور دھلی میں خواجہ خورد نے ایک آزاد صوفی نقشبندی سلسلے کی بنیاد رکھی اور اس کام میں خواجہ کے سوتیلے بھائی خواجہ کلاں نے بھی پورا ساتھ دیا اور انہی خواجہ کلاں کے خلیفہ عبدالرضا شاہ ولی اللہ کے چچا تھے اور خواجہ کلاں نے وحدت الوجود سے رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے والد کے سب سے بڑے خلیفہ شیخ احمد سرہندی کے ” وحدت الشہودی ” راستے کے الٹ سفر کیا اور دھلی کے مرکز ميں خواجہ خورد اور خواجہ کلاں دونوں نے محافل سماع مزامیر کے ساتھ دھلی میں دوبارہ رائج کردیں تھیں ، خواجہ خورد امن کے پروموٹرز میں سے تھے اور ایک طرح سے انھوں نے برصغیر پاک و ہند کے تنوع کا تحفظ کیا ، لیکن خواجہ خورد کے کردار کو نہ تو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ ان کے اس پہلو کو آج بھی چھپایا جاتا ہے ، اگلے مضمون میں ، میں یہ تلاش کروں گا کہ شیخ ابن عربی کے ںظریات اور افکار سے قدیم و ابتدائی نقشبندیوں کے روابط کا جائزہ لیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا ابن عربی کی روش اور شیخ سرہندی سے ابھرنے والی نقشبندیہ مجددیہ شاخ کی روش در باب توحید کیا تھی اور اس کے سماجی اثرات کیا shiekh تھے ؟یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس کو سرکاری ، درباری تاریخ نے بہت نظر انداز کیا ہے

Source:

http://voiceofaamir.blogspot.se/2015/08/blog-post_20.html?spref=tw

Comments

comments