بعض صحافیوں کے ہوتے ہوئے پاکستان اور افغانستان میں “امن” ایک خواب ہی رہیگا ۔ شفیق طوری
حامد میر پاکستان کے صف اوّل کے صحافی ہیں اور دہشتگردوں سے انکے روابط کوئی ڈھکی چپی بات نہیں حتیٰ کہ دہشتگردوں کو باقاعدہ ٹیلیفون کرکے خالد خواجہ کو قتل کرنے پر اُکسایا گیا۔مجھے یاد ہے کہ کرم ایجنسی میں القاعدہ کے دہشتگردوں کو جب کرم لیویز نے قتل کیا تھا تو حامد میر کرم ایجنسی جا کر انکے قبروں پر کیپیٹل ٹالک شو کیا اور روتے رہے۔
دہشتگردی میں ملوث تکفیری علماء اور مدارس سے روابط اور انکی دامے درمے اور سخنے مدد کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن پچھلے ہفتے جنگ اخبار میں دو ایسے کالم لکھے ہیں جو طالبان کے لیڈر ملا عمر کو ایک ہیرو اور طالبان تحریک کو ایک آزادی کے تحریک سے تعبیر کیا گیا ہے، جو نہ صرف گمراہ گن ہیں بلکہ ریاست پاکستان کے خارجہ اور داخلہ پالیسی سے متصادم ہیں۔اور ہمارے پڑوسی اور برادر ملک افغانستان کے لئے نہایت خطرناک بھی ہیں۔ جیسے کہ چھ اگست کے کالم “ملا محمد عمر، افواہ اور حقیقت” میں لکھتے ہیں کہ “ملا محمد عمر کی زندگی انکی دشمنوں کیلئے شکست تھی اور انکی موت بھی انکے طاقتور دشمنوں کی شکست کا اعلان تھی
http://jang.com.pk/jang/aug2015-daily/06-08-2015/col3.htm
اسی کالم میں حامد میر لکھتے ہیں کہ طالبان نے بامیان کے ہزارہ قبائل کو اپنے ساتھ ملایا جو انتہائی گمراہ کن ہیں کیونکہ بامیان میں طالبان نے جو قتل عام کیا ہے اور ہزارہ قبیلے کے ہردلعزیز لیڈر عبدالعلی مزاری کو مزاکرات کے دوران ہلاک کیا جو افغانستان کے شیعہ عموماً اور ہزارہ قبائل خصوصاً نہیں بھول سکتے اور تاریخ میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔
اسیطرح دس اگست کو روزنامہ جنگ کے کالم “افغان طالبان کا مستقبل؟” میں طالبان کے نئے امیر کے افغانستان کیخلاف اعلان جنگ اور کابل میں افغان پولیس اور نیٹو افواج پر حملے کو طالبان کا “پیغام” کہتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ طالبان ابھی ایک طاقتور ہیں اور جب، جہاں چاہے حملے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
http://jang.com.pk/jang/aug2015-daily/10-08-2015/col3.htm
اور مزید یہ کہ افغان طالبان اور پاکستانی میں فرق بھی ہے جو بالکل درست نہیں ہیں پہلے یہ کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان کے طالبان، لیبیا، عراق اور شام کے داعش، نائجیریا کے بوکو حرام اور صومالیہ کے الشباب ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔ انکے طریقہ واردات میں بھی کوئی فرق نہیں انکی تکفیریت میں بھی کوئی فرق نہیں اور انکی دہشتگردی میں بھی کوئی فرق نہیں۔
یہ سب مذہبی دہشتگرد انسانیت کے دشمن ہیں، سب کے ہاتھ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، سب بچیوں کے تعلیم کیخلاف ہیں، سب اقلیتوں کے قتل عام کے حامی ہیں اور یہ سب اغوا برائے تاوان جیسے غلیظ عمل سے لیکر مخدرات یعنی نشہ آور اشیاء کے کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔ جو حامد میر نے انکو مکمل کلین چیٹ دیا ہے۔
اسکے علاوہ حامد میر نے طالبان میں دھڑے بندی اور تفرقہ بازی میں بابائے طالبان مولوی سمیع الحق اور انکے اکوڑہ خٹک میں مدرسے کا ذکر بھی نہایت شاندار الفاظ میں کیا ہے جس مدرسے میں بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اور دہشتگرد طالبان لیڈرشپ کا کسی نہ کسی حوالے سی اس مدرسے کا تعلق رہا ہے