مفتی پوپلزئی کی ایک بار پھر عید سے پہلے عید – عامر حسینی

55a7fb077b8a8

مسجد قاسم علی خان کے پوپلزئی ملا کی جانب سے اس مرتبہ بھی رمضان کے چاند کی طرح ، ایک دن پہلے عید کا چاند نظر آنے خا اعلان کردیا گیا اور آج خیبر پختون خوا و فاٹا کے کئی علاقوں میں عید منائی جارہی ہے ، جبکہ خیبرپختون خوا کے ہزارہ ڈویژن کی اکثریت ، جنوبی خیبرپختون کے سرائیکی اکثریت والے اضلاع میں اکثریت عید نہیں منارہی اور نہ ہی ان مذکورہ علاقوں کی اکثریت نے ملا پوپلزئی کے کہنے پر ایک دن پہلے باقی ملک سے روزہ رکھا تھا

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خیبرپختون خوا کے اندر ہی ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں لی ہے جو مسجد قاسم علی خان کے مولوی اور اس کی جانب سے پیش کی گئی شہادتوں کو قابل وثوق خیال نہیں کرتی

لیکن پی پی پی کے سینٹر فرحت اللہ خان بابر ، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر ، پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شہریار خان فریدی مرکزی انجمن روئت ھلال کمیٹی کے اوپر برس پڑے ہیں اور ان سب رہنماوں نے کمیٹی کے فیصلے کو پشتونوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے اور اسے فرقہ پرستی بھی کہا ہے

میں کہتا ہوں کہ کیا انجمن روئت ھلال کمیٹی نے ریاست کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے زبردستی مسجد پوپلزئی کے حامیوں کو آج عید منانے سے روکا ہے ؟ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہوپلزئی کے حامیوں کو نماز عید پڑھتے ہوئے اٹھالیا اور عید مبارک کہنے سے روک دیا ؟

یقینی بات ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ، اور مسجد پوپلزئی کے فتوے پر عمل کرنے والے ماضی کی طرح آج بھی آزادی سے عید منائیں گے جیسے انھوں نے ایک دن پہلے رمضان کا روزہ رکھا

لیکن اس آزادی کے باوجود زبردستی ان لوگوں کو فرقہ پرست کہا جارہا ہے جنھوں نے ہوپلزئی کے فتوے کو تسلیم نہیں کیا ، جنھوں نے اس دن عید منانے کی بجائے روزہ رکھنے کو ترجیح دی ہے اور جن لوگوں نے مرکزی روئت ھلال کمیٹی کی بات پر یقین کیا ہے ان کو پشتونوں کا دشمن ، پشتونوں کو حقیر خیال کرنے والا بتلایا جارہا ہے

مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے پی پی پی کے فرحت اللہ بابر ، اے این پی کی بشری گوہر اور پی ٹی آئی کے شہریار خان آفریدی کی نظر میں رودار ، غیر فرقہ پرست اور سچا پشتون قوم پرست وہ ہے جو مسجد قاسم علی خان اور اس کے مولوی کے فتوے کی پیروی کرتا ہو اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ فرقہ پرست بھی ہے اور پشتونوں کا دشمن بھی ، وہ پشتونوں کو دوسرے درجے کا شہری خیال کرنے والا بھی ہے

کیا یہ عجیب و غریب منطق پی پی پی اور اے این پی کے سیکولر امیج کے مطابق ہے ؟ اور کیا کسی نے غور کیا کہ اس جیسے بیانات کے بعد پی پی پی ،اے این پی کا کیا امیج سامنے آیا ہے ؟ یہ ایک ڈھونگ ہے سیکولر ازم کے نام پر جو کم از کم فرحت اللہ بابر ، بشری گوہر وغیرہ نے رچایا ہوا ہے

آپ اپنی آزادی کے مطابق روزے رکھیں ، عید منائیں لیکن جو آپ کی مرضی کو نہ مانیں اس کو ظالم ، فرقہ پرست ، پشتون دشمن مت کہیں ( جبکہ مجھے معلوم ہے کہ فرحت اللہ بابر اور بشری گوہر شاز و نادر ہی روزے رکھتے ہیں اور فرحت اللہ بابر کی کئی ایک عیدیں جس مشروب کے ساتھ منائی جاتی رہی ہیں اس کا چرچا بھی ان کے دوستوں میں کافی ہے لیکن پوپلزئی ملا کی حمائت میں یہ پکے ٹھکے مومن ، تبلیغی اور قوم پرست بنکر میدان میں اترے ہیں ، یہ فرحت اللہ بابر وہ ہیں جنھوں نے سرائیکیوں کو ایک قوم تسلیم کرنے سے کمیشن میں انکار کیا تھا اور آج ان کے پیٹ میں قوم پرستی کا مروڑ اٹھ رہا ہے اور یہ کبھی بھولے سے بھی دہشت گردوں کی دیوبندی تکفیری شناخت کا تذکرہ نہیں کرتے ،ہاں ان کی سیادت و امامت دریں بارے رمضان و عید ماننے میں ان کو زرا تامل نہیں ہے ، یہ باتیں لکھی جائیں تو بہت سے کمرشل گینگ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے اور ان کو تکلیف ہونے لگتی ہے ، لیکن تکلیف ہوتی ہے تو ہوتی رہے ، جو سچ ہے وہ بیان کیا جائے گا

حیدر جاوید سید : بنیادی بات یہ ہے کہ ایک سوچ ہے کہ عید سعودی عرب اور افغانستان کے ساتھ منائی جائے – -مسجد قاسم علی خان اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے – یہ مثلا تقسیم سے پہلے بھی تھا البتہ اس میں شدت افغان انقلاب کے بعد آنے والے مہاجرین کی وجہ سے پیدا ہوئی – اب مفتی منیب کی جگا اگر خدا خود بھی آ کے چاند کی تصدیق کرے تو وہ بھی کو سفید ہی ہوگا – ہمارے اچھے بھلے پرہے لکھے پشتون دوست نا جانے کیوں سمجھ لیتے ہیں کہ اسلام رمضان چاند پر مسجد قاسم علی خان کا فیصلہ ہی درست ہوتا ہے – 

Comments

comments