Distinction between shahadat and sanad-e-yazidiat – by Ahsan Abbas Shah

صد شُکرِ مولا محرم الحرام کا ابتدائی عشرہ تمام پاکستان میں پچھلے سال کی نسبت پُر امن گُذر گیا۔

محرم کے اوائل میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات سے تمام مُلک میں ایک بے چینی پائی جاتی تھی۔

پشاور میں ٩ محرم الحرام کے مرکزی جلوس سے واپس جاتے ہوئے عزاداروں کو انتہا پسندوں کی جانب سے دستی بم کا نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک بچہ شہید اور کئی خواتین زخمی ہوئیں،

پچھلے سال سفاک قاتلوں کے جتھے نے جس طرح عزاداروں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا

اُس سے عاشقانِ رسول کی صحت پر کوئی اثر پڑتا دکھائی نہیں دِیا۔ ماضی کی طرح مجالس و جلوس میں جوق در جوق عزاداروں کی شرکت نے تمام دہشت گردوں کو اپنے حوصلے اور ایمان کی پختگی کا نمونہ دِکھایا۔

پُر امن عاشورہ کے انتظامات میں ہماری سکیورٹی ایجنسیز، حساس اداروں، پولیس، رضاکار فورس اور امن کمیٹی کی مثالی کوارڈینیشن دیکھنے کو مِلی۔۔۔۔بالخصوص لاہور کے مرکزی جلوس میں حیدریہ سکاوٹس کے نو عمر جوانوں نے جیسے چیکنگ کے فرائض انجام دئیے اُس کی تعریف نہ کرنا بُخلِ قلم ہوگا۔ میرا سلام ہے ُان ماؤں پر کہ جنہوں نے اپنے جگر ٹکروں کو عزاداریء امامِ مظلوم کی حفاظت پر مامور ہوجانے کی اِجازت دی۔ یہ پست قد مگر بلند حوصلہ نوعمر چاق و چوبند ہر مجلس و جلوس کے روٹ کو اپنے حفاظتی حصار میں لیے تلاشی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔۔

سولہ سے چوبیس سال تک کی عمر پر مشتمل یہ جوان ہماری پولیس، حساس اِداروں،حکومتی رضاکاروں کے شانہ بشانہ یزیدی لشکر کے ہر گھناؤنے عمل کو ناکام بنانے کی خواہش لئے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتے رہے۔۔۔ جذبہء شہادت سے سرفراز اِن ننھے مجاہدوں کو دیکھ کر یہ سوال جاگ اُٹھا کہ وہ جواں سالہ افغان لڑکا جو سینے سے جیکٹ لگائے اِس ہجوم کو دھماکے سے اُڑانے کے لیے آتا ہے وہ بھی شہادت کا تمنائی ہے، اور یہ نو عمر، جوان، اور اہلکار جو اُسے روکنے کے لیے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے وہ بھی شہید ہونے کا جذبہ لیے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔

شہادت کے تمنائی دونوں۔۔۔۔۔۔ دھماکا کرنے والا بھی اور اُسے روکنے والا بھی۔۔

مسلمانوں نے فلسفہء قُربانی کو کِس عجیب موڑ پر لا کھڑا کیا ہے؟۔۔۔

ابو جہل کی نسل میں سے ہوتا تو شاید اِس سوال کے جواب پر غور و فکر نہ کرتا اور دونوں کو شہید قرار دے دیتا ، یا دھماکہ کرنے والے کی خاندانی پسماندگی، بدلے کی خواہش، یا معاشرتی انتقام سے تشبیھ دے کر اِس گھناؤنے فعل کی تاویل تلاش کرتا۔

مگر عشقِ محمد و آلِِ محمد نے مجھے سوال کی تلاش میں بھٹکنے نہ دِیا، حقیقتا اسلام میں خود کشی حرام قرار دی گئی ہے، جو اِس بات کی واضع مثال ہے کہ اِسلام انسانیت سے پیار و محبت کا درس دیتا ہے، اسلام کے علاوہ بھی کوئی مذہب چاہے وہ عیسائی ہو، ہندو ہو یا بدھ اِزم  کوئی بھی دین ۔۔۔۔ انسانیت کے قتل کو جائز قرار نہیں دیتا۔

تو وہ کِس دین کے متلاشی ہیں جو ننھے بچوں کے جسم پر جیکٹ باندھ کے اُس کے ذہن میں جنت کی ایسی جھوٹی تصویر بنا دیتے ہیں کہ وہ معصوم کلی اپنے ساتھ ہزاروں کے پرخچے اُڑا دیتی ہے۔

اُنھیں اسلامی تاریخ کا کون سا فلسفہ قربانی سمجھایا جاتا ہے کہ جس میں بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنے والے کو جنت کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔

کربلا کے واقعہ میں مسلمانوں کو فلسفہء قربانی کچھ ایسے سمجھایا گیا کہ شبِ عاشور امام حسین نے تمام اصحاب و عزیز کو اپنے خیمے میں جمع کیا اور شمع بجھا دی۔

عاشور کے دِن بپا ہونے والی قیامت کا منظر پیش کیا اور کہا کہ جسے جانا ہو خاموشی سے چلا جائے۔

بجھے چراغ کو جب دوبارہ روشن کیا گیا تو سوائے اُن کے کہ جنہیں امامِ وقت نے خود واپسی کا حکم صادر فرمایا ، سارے لشکر کو موجود پایا۔

عاشور کے دِن کا آغاز ہوا، اور نمازِ عصر تک تمام شہادتیں بارگاہِ ایزدی میں پیش کی گئیں۔

عاشور کے دِن نمازِ عصر کے بعد سے خاتونِ جنت بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہ کا گھرانہ تو ختم ہو گیا مگر حقیقی اِسلام کو حسین ابنِ علی علیہ السلام ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے۔

قلسفہ قُربانی کو ایک عظیم انداز میں دُہرادِیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی عرشِ بریں سے اِسے ذبح عظیم قرار دیا۔

یہاں ثابت ہوا کہ فلسفہء قربانی میں مقصد اہم کردار ادا کرتا ہے، انسان دنیاؤی زندگی کے جھمیلوں اور پریشانیوں سے عاجز آکے کوئی انتہائی قدم اُٹھائے تو خدارا اُسے خود کشی ہی گردانئے۔۔۔

اِس عظیم قربانی کی یاد مناتے لاکھوں عزاداروں کی حفاظت ہی وہ مقصد ہے کے جسے لئے ہزاروں جوان عزاداری کے جلوس کی حفاظت پر مامور رہے۔۔۔اِن جوانوں کے لئے سندِ شہادت کسی کاغذ کے ٹکڑے یا امیر تحریک طالبان کے دستخط کی مرہونِ منت نہیں۔ بلکہ انہیں سندِ شہادت اُس وقت مل گئی تھی کہ جب انھوں نے اپنی عظیم ماؤں سے حفاظتی ڈیوٹی سر انجام دینے کی اجازت طلب کی اور انھیں اجازت ملی۔

Sanad of the so-called shahadat given by extremist Deobandi mullahs  to the parents of suicide bombers

بس یہاں سے فلسفہء قربانی کا مفہوم اسلامی نقطہء نظر سے واضع ہوتا چلا گیا۔۔۔ جو جو جہا ں جہاں بھی نسلِ انسانی کو بچانے کے لیے جان قُربان کرے وہ شہید قرار پائے گا اور جنت کا حقدار ہوگا۔

رسول پاک کا فرمان ہے کہ حسن اور حسین جنت کے سردار ہیں۔

تو ایسے میں عزادارنِ حسین پر دھماکا کرنے والا کیسے جنت کا حقدار ہو سکتا ہے؟

پس، جس قربانی کے پوشیدہ مقاصد میں اِسلام ، اسلاف اور انسانیت کو بچانے کی کوشش کی گئی ہو اُس قربانی کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔

اور جس فلسفہء قربانی میں اِسلام، اسلاف اور انسانیت کو ختم کرنے کے سازش نظر آئے اُسے خودکشی کہا جائے گا جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا۔

اسی فلسفے کو معیار بنا کر بنی نوع انسان کی یاد دہانی کے طور پر رب العزت نے اِسلامی سال کا اِختتام بھی ایک قربانی کے مہینے کو رکھا اور اسلامی سال کی اِبتدا بھی قُربانی کے ماہ سے کی گئی،یہی وجہ ہے کہ ہر سچے مسلمان میں قربانی کا قرینہ شیرِ مادر سے منتقل ہو کر اُس کے جوان و پیر ہونے تک خون بن کر شریانوں میں دوڑتا رہتا ہے۔

محرم الحرام کے ابتدائی عشرے میں حکومتِ وقت کی طرف سے کئے گئے اِنتظامات قابلِ تعریف تھے۔

امن کمیٹی، صوبائی حکومتوں، سِول ایڈمنیسٹریشن،پولیس و مختلف سکیورٹی ایجینسیز ، اسکاوٹس اور عزادار کونسلز نے اپنے اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دئیے اور یزیدِ وقت کے مضموم اِرادوں کو ناکام کیا۔

نئے اسلامی سال کے پہلے عشرے میں کئے گئے سکیورٹی انتظامات پورے سال بالخصوص ایسے اہم اسلامی دِنوں کی مواقع پر انتہائی سخت ہی رکھے جانے چاہیے، وزیرِ داخلہ رحمن ملک کی کاوشیں محرم الحرام کے آغاز سے ہی انتہائی قابلِ رشک رہیں جنھوں نے اتحاد کی اہمیت پر زور دئیے رکھا اور مختلف علماء دین اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے درمیان بڑھنے والی خلیج کو کم کیا۔

مفاہمت کا ایسا سنہری عمل سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قریب سے قریب تر لانے میں بے مثال کردار ادا کر رہا ہے۔اسی مفاہمتی عمل سے جذبہء برداشت کو فروغ حاصل ہوگا اور مسلمان اخوت اور بھائی چارے سے یزیدی طالبان کے گھناؤنے عزائم کو خاک میں ملائیں گے۔

موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان میں دشمن کی کمر توڑنے کے لیے آپریشن کا آغاز متوقع ہے۔۔۔ بقول وکی لیکس کے پاکستانی عسکری قیادت تو اس آپریشن کے لیے ہمہ وقت تیار ہے مگر صدر آصف علی زرداری نے موسمِ بہار کی آمد تک انتظار کرنے کو ترجیح دی ہے۔۔۔

یہ فیصلہ سیاسی سمجھ بوجھ کا شاخسانہ ہی تو ہے کہ بہار کی آمد تک محرم اور صفر کے مقدس اسلامی ماہ اختتام پذیر ہوجائیں گے اور یزیدی لشکر کی بدلے کی آگ کا نشانہ بننے سے عزادار محفوظ رہ سکیں گے۔

بیشک یہ میلاد ، مجالس و جلوس ہمارا سرمایہ حیات ہیں جس کی حفاظت ہم سب مسلمانوں پر واجب ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مفاہمت کی پالیسی ہی یزدانِ کفر کی بلند و بالا عمارتوں میں بھی دراڑیںڈال سکتی ہے۔۔

مفاہمت اور جذبہء قربانی عصرِ حاضر کے یزیدی لشکر کو شکست دینے کی اہم کُنجی ہے۔

سید احسن عباس رضوی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Nike Women Air Shox
    -
  3. Air Jordan 4 (IV)
    -
  4. Nike Air Jordan 3 Women
    -
  5. Nike Zoom Hyperflight cheap
    -
  6. Nike Air Presto High
    -
  7. Air Jordan 23
    -
  8. Bolsas de Chanel
    -
  9. Christian Louboutin Shoes (750)
    -
  10. LV Sofia Coppola
    -
  11. Nike Blazer Milieu
    -
  12. Adidas Originals ZX 700 Homme
    -
  13. Burberry Men Event Ends 1/31/2013
    -
  14. Nike air max 95 Women
    -
  15. New Balance 576
    -
  16. Nike Dunks
    -
  17. Air Jordan 19
    -
  18. Air Jordan I Retro High
    -
  19. nike air max structure 91
    -
  20. Converse?Shoes?Men?(106)
    -
  21. Louis?Vuitton?Epi?Leather
    -
  22. Louis?Vuitton?Epi?Leather
    -
  23. Oakley Juliet Carbon Noire Iridium
    -
  24. Sac Cuir Longchamp Gris
    -