سیکولر ازم کسی معنی میں بهی لادینیت نہیں ہے – تنویر اختر

fb tanveer blue

 

ہمارے ہاں “سیکولرازم” کو غلط طور پر “دہریت” کے مفہوم میں لیا جاتا ہے جبکہ نص صریح کی رُو سے “سیکولرازم” سے مراد ریاستی امور میں مذہب کے عمل دخل کی ممانعت اور افراد کیلئے اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے عقائد سے چھیڑ چھاڑ پر پابندی کے سوا کچھ بهی نہیں ۔۔

یاد رکھئے؛ صدیوں کی سماجی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی قوم سیکولرازم اختیار کئے بغیر شاہراہ ترقی پر پہلا قدم بهی نہیں رکھ سکتی؛ جبکہ وطن عزیز میں اس رویے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔

پاکستان کی 68 سالہ تاریخ بالخصوص “امریکی جہاد افغانستان” سے شروع ہونے والے گذشتہ 35 سالہ تلخ ترین تجربات و حوادث اور ان کے نتیجے میں مذہبی انارکی اور معاشرتی لاقانونیت کے بعد بهی کوئی اگر کسی بھی قسم کی “شریعت کے نفاذ” سے کوئی توقعات وابستہ کئے بیٹھا ہے تو اسے اس حقیقت پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ “اب جبکہ ہم وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان جیسے حساس عہدوں پر تعیناتی جیسے امور پر بهی طالبان کی کامل رضامندی اور پیشگی منظوری کے بغیر فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں رہ گئے تو مزید کس “نفاذ شریعت” کی تلاش باقی ہے ..؟؟

یقین کیجئے قارئین گرامی؛ پاکستان جیسے کثیر العقائد معاشرے میں کسی بھی ‘بہترین فقہ” کی دیگر تمام پر بالادستی کا منطقی نتیجہ موجودہ “طالبانی جمہوریت” سے کسی بهی صورت میں بہتر برآمد ہو نہیں سکتا

اندریں حالات؛ اگر ہم موجودہ بدترین صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی کی فکر میں ہیں تو ہمیں صرف اور صرف اس سوچ اور نظریہ کی ترویج کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ “مذہب کو کسی بھی طرح ریاستی امور سے کلی طور پر بے دخل کرکے سیاسی طلاق دے دی جائے

Source:

http://www.byadbi.com/2015/06/blog-post_42.html..

Comments

comments