پاکستان کے اہلسنت عوام کسی کمیونٹی کی نسل کشی پر خاموش نہیں ہیں – خالد نورانی، مدیر ماہنامہ صدائے اہلسنت

vos

اس تحریر کا مقصد اس حقیقت کا بار دیگر واضح اعلان ہے کہ پاکستان کے اہلسنت عوام کی عظیم اکثریت تکفیری دیوبندی خوارج کے ہاتھوں دیگر طبقات خاص طور پر سنی بریلوی و صوفی اور شیعہ مسلمانوں، مسیحیوں اور دیگر کمیونٹیوں کے قتل کی بھرپور مذمت کرتی ہے – آجکل بعض لوگ جذباتیت یا نادانی میں تکفیری دیوبندی دہشت گردی کو سنی فرقے سے منسوب کر رہے ہیں، ایسا کرنے سے وہ کسی طبقے کی خدمت نہیں کر رہے

 ایک صاحب علی ناطق ہیں ماشاء اللہ بہت ہی پیارا نام ہے جناب سیدنا علی المرتضی خلیفہ راشد چہارم رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے ، انہوں نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر تبصرہ کیا کہ سنیوں کی اکثریت شیعہ کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرتی ہے جب ان میں سے کچھ احمق خود کو شیعہ امام بارگاہوں یا مساجد یا جلوس میں پھاڑدیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں سنی عوام کی اکثریت شیعہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کرتی – ناطق صاحب نے ایک طرح سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے سنی اس ساری قتل وغارت گری کو دوسرے کے گھر میں لگی آگ خیال کرتے ہیں اس لئے خاموشی اختیار کرتے ہیں – ہمیں اس قسم کے خیالات پڑھ کر بہت ہی افسوس ہوا ہے اور یہ سنیوں پر ایک تہمت اور بہتان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ سنیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان میں سے چند احمق جاھل جاکر شیعہ میں پھٹ جاتے ہیں انتہائی گمراہ کن بیان ہے اور یہ بیان اصل میں تکفیری دیوبندی وسلفی دہڈت گردوں کی جانب سے اپنی جنگ کو سنیت کی جنگ قرار دینے والے دعوے کو درست کرنے کے مترادف ہے – اہلسنت سواد اعظم پاکستان کی کسی ایک تنظیم اور کسی ایک سنی پر یہ الزام تک نہیں لگا کہ وہ پاکستان کے اندر یا باہر کسی ایک بھی شیعہ یا کسی اور مذھبی برادری کے فرد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہو یا وہ کسی امام بارگاہ یا کلیسا میں جاکر پھٹ گیا ہو

” سنیوں میں سے کچھ احمق و جھلا ” کی اصطلاح انتہائی ھتک آمیز بہتان ہے، تکفیری دیوبندی خوارج ایک جرائم پیشہ طبقہ ہے جو اہلسنت اور اہل تشیع دونوں کا یکساں دشمن ہے، اہلسنت کے ساتھ ان درندوں کو منسوب ھرگز نہیں کیا جانا چاہیے

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہلسنت کی اکثریت شیعہ نسل کشی پر خاموش رہتی ہے ، ان کے ساتھ احتجاج میں شریک نہیں ہوتی ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس مرتبہ چہلم امام حسین رضی الله عنہ کے جلوس کے موقعہ پر کراچی سمیت تمام شہروں میں سنی اتحاد کونسل کے مفتیان کرام کی قیادت میں سنی علماء کے وفود شریک ہوئے اور انہوں نے شعیہ کلنگ کی مذمت کی اور نام لیکر دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا جماعت اہلسنت پاکستان ، منھاج القرآن ، سنی تحریک ، سنی اتحاد کونسل سمیت تمام سنی جماعتوں نے پورے ملک میں لبیک یارسول اللہ کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور دیوبندی تکفیری خارجی دہشت گردی کو مسترد کیا اور ان کی عسکریت پسندی کو جہاد کی بجائے فساد کا نام دیا

سنی عوام کا جہاں تک معاملہ ہے تو سنی عوام صرف سنی سیاسی جماعتوں میں شامل نہیں ہیں ان کی لاکھوں کی اکثریت پی پی پی ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ نواز ، مسلم لیگ قائداعظم ، بلوچ نیشنل پارٹی وغیرہ میں شامل ہیں ، بہت سے سول سوسائٹی ایکٹوسٹ سنی ہیں ان کے پلیٹ فارم سے بھی ملک میں شیعہ اور دیگر مذھبی اقلیتوں پر تکفیریت کی جانب سے حملے ہوتے ہیں کی مذمت اور احتجاج میں سنی عوام شرکت کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی سنی شناخت کو جتلاتے نہیں ہیں

تکفیریت کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ مستحسن نہیں ہے کہ سنی عوام سیاست کے مین سٹریم دھارے سے الگ ہوکر فرقہ واریت پر مبنی ایک تنگ اور جامد کنویں میں خود کو قید کرلیں بلکہ تکفیریت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اندر سے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے – صدائے اہلسنت اور وائس آف سنی اس لئے کسی ایک سنی تنظیم کا ماوتھ آرگن نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر سنی اسلام کی ترجمانی کو اپنا فرض خیال کرتا ہے

علی ناطق سمیت جو لوگ سنی عوام کو اپنی عدالت میں کھڑا کرتے ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ سنی مسلمانوں کے خلاف ان کی چارج شیٹ کی سب سے زیادہ تائید بھی اہلسنت سواد اعظم سے بغض رکھنے والے جعلی لبرل یا جعلی لیفٹئے کرتے ہیں – صدائے اہلسنت عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد، اور ان کے چمچے کڑچھے بدبخت فہد رضوان جیسے دیوبندی ملحدین کیذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرتا جو لوگ تکفیری دیوبندی جرائم کو اہلسنت اور پر امن بریلوی کے سر منڈھنا چاہتے ہیں

سواد اعظم اہلسنت کے اکابر علماء اور مشائخ نے حضرت قائد اعظم رحمہ اللہ کی قیادت میں یہ ملک بنایا تھا اور اس ملک کو سب کے لئے دارالامن بنانے میں سواد اعظم اہلسنت نے اپنا کردار ادا کیا ہے ، سواد اعظم اہلسنت کے نوجوان نہ تو 80ء میں امریکی سعودی جعلی جہاد کا حصہ تھے نہ ہی وہ 90ء میں سعودی فنڈڈ دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ دراصل سپاہ یزید کی مہم کا حصہ تھے اور 2000ء میں بھی وہ القاعدہ، طالبان ، لشکر جھنگوی ،داعش کی تکفیری خارجی دہشت گردی اور مسلمانوں اور مملکت ہائے مسلمانان میں بسنے والی اقلیتوں کے گلے کاٹنے یا ان پر خودکش بم دھماکوں کا حصہ نہیں بنے

پاکستان اولیاء کرام اور صلحاء امت کا فیضان ہے اور ہم اس کو تباہ کرنے کرنے کی سازش کرنے والے کانگریسی اور مھا سبھائیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے مولویوں کی معنوی اولاد کے خلاف کل بھی سینہ سپر تھے اور آج بھی رہیں گے اور ہمیں اس حوالے سے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے

ہم ان  حضرات سے جو تکفیری خارجی دہشت گردوں کے لئے سنی کا لفظ استعمال کرتے ہیں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی مڈل ایسٹ کے اندر جوار بھاٹے کو فرقہ واریت کی آنکھ سے نہیں دیکھا، کبھی عراق میں ملکی دور میں رمادی و انبار میں بعض شیعہ ملیشیا کے افراد اور عراقی فورسز کی سنی عوام کے خلاف کی گئی زیادتیوں کو شیعہ کمیونٹی کے سر نہیں تھوپا اور کبھی بھی محض الزام کی خاطر عراق میں سنی آبادی کی مشکلات کا زمہ دار شیعہ کو من حیث القوم نہیں ٹھہرایا اگرچہ موجودہ عراقی انتظام و انصرام میں عراق میں سنی قبائل کے نمائندوں کو کئی شکایات ہیں – اس لئے حقائق سے ہٹ کر محض الزام تراشی کی سیاست اور بیانات سے اہل تشیع کے دانشور طبقے کو احتراز برتنا چاہئیے اور بردران اہلسنت پر جھوٹی الزام تراشی سے باز رہنا چاہئیے

سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ حامد رضا رضوی دامت برکاتھم عالیہ اس وقت بھی گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور وہ دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ نام نہاد اہلسنت والجماعت اور ان کی اتحادی جماعتوں کے خلاف سنی کمیونٹی میں شعور کی بیداری کی مہم چلارہے ہیں اور وہاں پر آل سعود کے ایجنٹوں کی انتخابی شکست کا اہتمام کررہے ہیں ، مفتی گلزار نعیمی شمالی پنجاب میں دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے خلاف شمشیر برھنہ بنے ہوئے ہیں، کراچی اور اندرون سندھ سنی تحریک دیوبندی تکفیری دہشت گردی کے آگے سنہ سپر ہے اور بلوچستان کے اندر سواد اعظم اہلسنت کے درجن بھر علماء دیوبندی دہشت گرد کے ھاتھوں شہید ہوچکے

پاکستان میں دیوبندی تکفیریوں کے ھاتھوں جان بحق ہونے والوں میں شیعہ کی تعداد 22 ہزار ہے اور جبکہ اھلسنت سواد اعظم 45 ہزار شہید ہوئے ہیں اور پاکستانی فوج میں تکفیریت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے ہزاروں فوجی جوانوں میں اسی فیصد سے زائد اہلسنت سواد اعظم سے تعلق رکھنے والے فوجی ہیں لال مسجد کے سامنے شہید ہونے والے کرنل ھارون ، اسلام آباد میں شہید ہونے والے میجر جنرل مشتاق اور پریڈ گراونڈ مسجد میں شہید ہونے والے سواد اعظم اہلسنت تھے ، اس لئے پاکستان میں تکفیری دیوبندی دہشت گردی کے متاثرہ صرف شیعہ کو دکھانا اور ذمہ داری سنی پر ڈالنا، پاکستان میں شیعہ سنی بائنری اور شیعہ سنی جنگ کے مقدمے کو حقائق کے برعکس سچا ثابت کرنے کی کوشش ہے جو ایسا کرتا ہے وہ تکفیریت کو مضبوط کرتا ہے اور بالواسطہ طور پر تکفیری دیوبندی خوارج کی مدد کرتا ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Shahram Ali
    -
  2. Shahram Ali
    -