سعودی شیعہ انصاف چاہتے ہیں
وہ غصے اور صدمے میں ہیں لیکن سعودی عرب کی اقلیتی شیعہ برادری ان کی مسجد میں اس خود کش بم دھماکے کی ہولناک تباہی کے بعد بھی مشتعل نہیں ہوئی جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ وہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
شاہ سلیمان نے بم دھماکے میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس دھماکے میں 21 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق مسجد میں دھماکے کے وقت ایک اندازے کے مطابق 150 افراد موجود تھے۔ یہ دھماکہ القعدہ نامی گاؤں میں واقع امام علی مسجد میں نمازِ جمعہ کے موقع پر ہوا تھا۔
سعودی عرب میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی شاخ نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نومبر میں قائم ہونے والی اس شاخ نے کسی حملے کی ذمہ داری لی ہے۔
ٹوئٹر پر تنظیم کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے ایک خود کش حملہ آور نے سعودی عرب میں واقعہ شیعہ مسجد پر خود کش حملہ کیا۔ بیان کے ساتھ خودکش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے خودکش بمبار کی تصدیق کر دی ہے۔
گاؤں کے ایک شیعہ رہائشی جن کے حملے میں تین دوست ہلاک ہو گئے کہتے ہیں کہ ’نہیں، نہیں، نہیں اس کا ردِ عمل بدلے کی شکل میں نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں صرف انصاف چاہیے۔‘
قریبی گاؤں کی نسیمہ اسدا کہتی ہیں کہ وہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے سات افراد کے گھروں میں تعزیت کے لیے گئی تھیں۔ ’ان سب کو داعش اور ریڈیکل سنیوں پر غصہ ہے، لیکن عام سعودی سنیوں پر نہیں۔‘
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
ملک کے مشرقی علاقے میں سنیچر کو حملے کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ملک بحرین میں بھی شیعہ برادری نے سعودی شیعہ برادری کے ساتھ یکجہتی کے طور پر جلوس نکالا۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) سے جاری کیے گئے وزارتِ داخلہ کے ایک بیان میں خودکش بمبار کی شناخت صالح بن عبدالرحمان صالح الغیشامی بتائی گئی ہے جو کہ سعودی شہری ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق ایک دہشت گر سیل سے تھا اور وہ سعودی سکیورٹی سروسز کو مطلوب تھے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کو داعش بیرونِ ملک سے ہدایات بھیجتی تھی۔
سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں پر حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب سعودی عرب نے ہمسایہ ملک یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے جبکہ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے مزید علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔
سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔
قطیف کی شیعہ آبادی سعودی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کرتی ہے اور حکومت کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے بھی ہو چکے ہیں۔
سنہ 2011 میں شیعہ آبادی نے حکومت مخالف احتجاج شروع کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں رائج بادشاہت ختم کر کے وہاں جمہوری اصلاحات نافذ کی جائیں۔
اس احتجاج میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے اور مرنے والوں کی اکثریت مقامی افراد کی تھی جو پولیس کی جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور کئی افراد کو بغاوت اور فسادات کرنے کے الزام میں موت کی سزا بھی سنائی گئی۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/05/150524_shia_saudi_anger_as?ocid=socialflow_facebook
Killers will be killed by better killers…..
http://s6.postimg.org/wadovhno1/yemen_bombarded_by_Saudia.gif