Pakistan Peoples Party: Listen to the dissenting voices – By Aamir Hussaini
کارکنوں اور قیادت میں بڑھتے فاصلے
کیا پاکستان پیپلز پارٹی تقسیم کی طرف جا رہی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سردار لشکر رئیسانی نے دوسری مرتبہ اپنا استعفیٰ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو ارسال کر دیا ہے۔ اس استعفیٰ کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہوئے سردار لشکر رئیسانی نے صحافیوں کو بتایا کہ بلوچستان میں پارٹی کی تنظیم نو نہیں ہو سکی، پارٹی کے وزرا کارکنوں اور عہدے داران کا احترام نہیں کرتے۔ جبکہ رئیسانی نے آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پر سست رفتاری سے عمل درآمد پر بھی شدید احتجاج کیا۔ پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کے حوالے سے کام شروع نہ ہونے اور پارٹی و حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں بحث و مباحثہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ”ہم شہری“ کو بتایا کہ آصف علی زرداری نے جب سے صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے پی پی پی کی تنظیم نو کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے۔ اس کارکن کا کہنا تھا کہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی رفقا کے مشوروں کی وجہ سے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی، فیڈرل کونسل، صوبائی کونسلیں عضو معطل ہو کر رہ گئی ہیں اور تمام بڑے اور اہم فیصلے ”کور کمیٹی“ کر رہی ہے جس کی پی پی پی کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فیڈرل کونسل کے بعض اراکین نے ”ہم شہری“ کو بتایا کہ کونسل کا تین برس میں صرف ایک مرتبہ اجلاس بلایا گیا ہے، اس کے بعد سے آج تک کونسل سے مشاورت کی زحمت نہیں کی گئی۔
پنجاب پی پی پی کی صوبائی کونسل کے اکثر اراکین نے شکایت کی کہ پارٹی قیادت ان سے رابطے میں نہیں ہے اور پنجاب میں تنظیمیں عدم فعالیت کا شکار ہیں۔ پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اندر بے اطمینانی اور بے چینی کی فضا صاف دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ”ہم شہری“ سے بات کرتے ہوئے اسرار شاہ، جن کی دو ٹانگیں وکلا تحریک کے دوران خودکش بم دھماکے کی نذر ہو گئی تھیں، نے کہا کہ ان کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر معطل کر دیا گیا۔ جبکہ سردار سندھو کو بھی یہی شکایت ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا کہ غیر جمہوری طرز عمل پارٹی کے اندر ترقی پا رہا ہے۔ پارٹی تنظیموں کو بائی پاس کر کے فیصلے دیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں شوکاز نوٹس دیے بغیر معطل کر دیا گیا۔ جبکہ حالیہ دنوں میں ابن رضوی اور سابق ایم این اے سردار خالد سلیم کی بنیادی رکنیت ہی ختم کردی گئی۔ یہ دونوں پی پی پی کے انتہائی پرانے کارکن اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھی خیال کیے جاتے تھے۔
دو سال گزرنے کے باوجود پیپلز پارٹی صوبہ سندھ، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کے صدور کا اعلان نہیں کرپائی ہے۔ جبکہ تین سال گزرنے کے باوجود پی پی پی میں رکنیت سازی، تنظیم نو، انتخابات کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔” ہم شہری“ نے اس حوالے سے پی پی پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ تمام کام اپنے وقت پر ہوں گے لیکن انہوں نے معطل یا خارج کیے جانے جیسے اقدامات کا بھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف عمل یا بیان بازی قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس پر جب بے نظیر بھٹو کی سابق پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان سے جواب مانگا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی وہ ہوتی ہے جو پارٹی کے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھ کر طے کی جائے۔ جہانگیر بدر بتائیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبے پر مبنی جلوس یا مظاہرے کیا پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہیں؟ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا وزرا کی بدعنوانی اور کارکنوں کے احترام نہ کرنے پر احتجاج کون سی پارٹی کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ اختلاف رائے کا گلہ گھونٹنا ہے اور پارٹی کے اندر جمہوریت ختم کرنے کے مترادف ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی پی پی حکومت کے اندر تقسیم کے آثار نظرآرہے ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، وزیر دفاع چوہدری احمد مختار کے فاصلے بڑھ رہے ہیں اور یہ وزرا اپنی اپنی لابنگ میں مصروف ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ورکرز کی ایوان وزیراعظم سے دوری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر پی پی پی کے کارکن ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کی وجہ سے سخت ناراض ہیں۔اس ناراضی کا ایک اظہار لاہور پریس کلب میں روسی بالشویک انقلاب کی سالگرہ پر منعقدہ پیپلزلیبر بیورو کی ایک تقریب میں دیکھنے کو ملا، جس میں پیپلز لیبر بیورو کے مرکزی انچارج چوہدری منظور، وزیر محنت اشرف سوہنا، صوبائی صدر سمیع اللہ خان سمیت پی پی پی کے عہدے داران اور ورکرز نے حکومتی پالیسیوں اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر سخت تنقید کی۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ پارٹی پر ضیا الحق کی باقیات کا قبضہ ہو گیا ہے۔
پیپلز لیبر بیورو کے سابق مرکزی انچارج عبدالقادر شاہین اور سابق سیکرٹری جنرل پنجاب، پی پی پی چوہدری غلام حسین نے کہا کہ انہیں یہ دن دیکھنا پڑے ہیں کہ ذاتی دوست اور ذاتی وکیل سینیٹ کے چیئرمین بنادیے گئے ہیں جبکہ پارٹی کے دیرینہ کارکن دھکے کھارہے ہیں۔ اصول پرست جمہوری سیاست کو ترک کر کے موقع پرستی کو اوّلیت حاصل ہو رہی ہے۔ چودھری غلام عباس کا کہنا تھا کہ اکثر وزرا تو انہیں نہیں پہچانتے، غریب کارکن کو کیسے پہچان پائیں گے؟
پیپلزپارٹی کے سب سے کم عمری میں مارشل لاءکے حکم نمبر19 کے تحت سزا کاٹنے والے اور روس جلاوطنی کاٹنے والے اعظم خان، جو اب 50 سال کے ہو چکے ہیں، کا کہنا یہ ہے کہ انہیں پارٹی نے بری طرح سے فراموش کیا ہے جبکہ پارٹی میں ایسے چہرے غالب آگئے ہیں جو کارکنوں کو نہ تو پہچانتے ہیں اور نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ پارٹی کا کلچر کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو پارٹی کے اندر بڑھتی اختلافی آوازوں پر کان دھرنے کی ضرورت ہے اور تنظیموں کو فعال بنانے اور ان کے حکومتی عہدے داروں سے رابطے میں حائل روکاٹیں ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا وگرنہ حالات پی پی پی کے اندر شہید بے نظیر بھٹو دھڑا سامنے لائے جانے کی طرف نکل جائیں گے اور یہ صورت حال پی پی پی کے مخالفین کے لیے بڑی مثالی ہوگی۔
بشکریہ: ہفت روزہ ہم شہری
PPP ko sab ke fiker ha seawye apnay karkunan ke , ya almya ha humaray party ka ! samajh nahe aata ya log kis trah aany waly halaat ka muqabla karengy ! ALLAH rahem farmaye PPP Ke karkunoo pay q k party waly tu rahem nahe karengy !
excellent post.