بول یا ایگزیکٹ کا معاملہ – از انور راے
ممکن حد تک ساری خبریں پڑھنے اور سننے کے بعد میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں:
کیا ایسی ہی کارروائی ایسے تمام اداروں کے ساتھ کی جائے گی جن کے بارے میں الزامات پر مبنی خبریں شایع یا نشر ہوں گی۔
اِس کا اطلاق صرف اداروں پر ہو گا یا افراد پر بھی اور یہ اطلاق سب پر یکساں ہو گا یا منتخب اداروں اور لوگوں پر؟
کسی الزام کا مقدمہ درج ہوئے بغیر کسی دفتر میںٗ قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کا چھاپہ مارنا اور وہاں سے ادارے کے ملازموں کومجرموں کی طرح لے جانا کس قانون کے تحت درست ہے؟
کیا ذرایع ابلاغ کے وہ ادارے جو آج اس کارروائی کی خبریں کسی بھی احتیاط کے بغیر نشر کر رہے ہیں خود اپنے ساتھ ایسی ہی کارروائی کو قبول کریں گے؟
نیو یارک ٹائمز نے جومضمون شایع کیا ہے کیا ایسے کسی مضمون کو بنیاد بنا کر کسی ادارے کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے یا کی جا سکتی ہے؟ کیا پاکستان کا آئین اور قوانین اِس کی اجازت دیتے ہیں؟
کیا یہ نہیں لگتا کہ وزیرداخلہ نے خود کوایک جج کے درجے پر فائز کرتے ہوئےمضمون کا سوُوُموٹو نوٹس لے کر کارروائی کا حکم جاری کر دیا؟
جیسے اس مضمون اور اس کی بنیاد پر بنائی گئی خبروں پر سینیٹ تک حرکت میں آئے ہیں، کیا یہ ایک بے مثال واقعہ نہیں ہے؟
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ایک ادارے کے بارے میں معلومات باہر سے آئی ہیں۔ معلومات کہیں سے بھی آئیں، اُن کا نوٹس لیا جانا چاہیے لیکن کارروائی سے پہلے پوری چھان بین کی جانی چاہیے۔
کیا یہ بات بھی کہنی ہو گی کہ کوئی ایسی مثال پیدا نہیں کرنی چاہیےجو کل آپ کے آگے آئے تو آپ کو پچھتانا نہ پڑے۔دوستوں کو اِس پر بات کرنی چاہیے۔