ایک تاثر سرائیکی مزدوروں کے ایف ڈبلیو او کے کیمپ میں مارے جانے پر – عامر حسینی
ہم پتھر کوٹنے والے
سیمنٹ کئ ترکاری ڈھونے والے
زمین سنگلاخ ہو یا نرم
کھود کر ہموار کرنے والے
اتنی دور جو آئے سائیں
یہ پیٹ کا جہنم ہے
بچوں کی بھوک ہے
بہن کے بالوں میں چاندی اترنے کا خوف ہے
بوڑھے ماں باپ کی تمناوں کی تپش ہے
جو اپنے وسیب سے اتنی دور ہمیں
اس بے آب وگیاہ زمین میں لاتی ہے
یہ کیمپ کن کا ہے
ہمیں کیا معلوم
ہم تو دیہاڑی دار مزدور ہیں
پتھر کوٹ کر ، ترکاری اٹھاکر
کچھ پیسے کماکر
اپنے وسیب بھیجنا چاہتے ہیں
وہ وسیب
جس کا سبزہ مجھے بہت عزیز ہے
جس سے دور رہنے کو جی نہیں چاہتا
مگر یہ بھوک ، ننگ و افلاس ہے
جو ہمیں مسافر کرتا ہے
ہمیں کیا معلوم
یہ ایف ڈبلیو او کیا بلا ہے
سائیں ٹھیکےدار کہتا تھا
سڑکیں بننی ہیں
ایک کمپنی کو مزدور ، راج گیروں کی ضرورت ہے
تو ہم یہاں اس کیمپ میں چلے آئے
نہ نہ سرکار
یہ مخبر کیا بلا ہوتی ہے
ہمیں کیا معلوم جاسوسی کیا ہوتی ہے
دیکھو سائیں
صبح سے رات تک پتھر کوٹ کوٹ کر ھاتھوں پہ چھالے پڑے ہیں
سارا بدن ٹوٹتا
مہینے میں 20 ہزار ملنے ہیں
گھر والے ان پیسوں کی راہ تکتے ہیں
مری ماں اللہ ڈیوائی کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے
سنا ہے اتھاں ہک ہسپتال ہئے
جتھاں موتیا دا مفت آپریشن تھیندا اے
پر سائیں
اوتھے جاون لئے
کرایہ تے اتلا خرچہ دس ہزار تھیندا ہے
تساں سائیں
سانوں جاون ڈیو
ٹھہک ہئے نئیں اساں رھندے
پر ویکھو
سانوں تھاڈے نال دشمنی وی کوئی نئیں
تساں دی جئے ماں ہووے
اودیاں اکھاں چہ موتیا اتر ونجے
غربت تساں کو بے حال کیتی ہووے
تساں ول آپنے گھر بیٹھے رہسو
دور وطن توں
کسی کمپنی دے خیمے چہ رہون نہ پسند کریسو
پتھر کوٹن آلے پیشے کو اختیار نہ کریسو
ویکھو سانوں جاون ڈیو
ٹھاہ ،،،،،،ھائے ، اوغ ،،،،ٹھاہ ،
ھائے امڑی میکوں معاف چا کر