کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفویؐ جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی ’’ آلِ سعود ” – از عادل علی

11075030_645417692255478_3929079114585746217_n

امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، انہوں نے امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا۔
امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، انہوں نے آنکھ بند کر کے امریکہ کی حمایت کر دی۔
اسرائیل نے (۲۰۰۶ میں) لبنان پر حملہ کر دیا، یہ صدر بش کے ساتھ جام سے جام ٹکرا کر نوش فرماتے رہے۔
اسرائیل نے (۲۰۰۷ میں) غزہ فلسطین پر حملہ کر دیا، انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔
اسرائیل نے پچھلے سال پھر غزہ پر حملہ کیا، یہ امریکہ سے قربت بڑھانے میں لگے رہے۔
برما میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا، یہ یورپ کے سیاحتی مقامات پر لائف انجوئے کرتے رہے۔
لیکن ۔۔۔۔ خبردار ! کوئی ان کو برا بھلا کہنے یا ان پر تنقید کرنے کی جسارت نہ کرے ۔۔۔
کیونکہ ۔۔ وہ ’’ خادم الحرمین شریفین ‘‘ ہیں!
اور ۔اور
دوسری طرف :انہوں نے شام میں بشار اسد کی مخالفت اور دشمنی میں داعش (شروع میں سعودی عرب کو آنکھیں دکھانے سے پہلے) کی بھر پور مدد کی۔ (جو اب خود اسی کو آنکھیں دکھانے لگا ہے)ہزاروں لوگوں کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے شام بھیجا، اور امریکہ سے اسلحہ خرید خرید کر انہیں پہنچاتے رہے۔

شام میں بشار اسد دشمنی میں دہشتگردوں کے لیے بیت المال کے خزانے کھول دیے، اور ان کی ہر جایز و ناجایز ضروریات پوری کرنے کا ٹھیکہ لے لیا۔
انہوں نے مصر میں اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں مصر کی فوج کا بھر پور ساتھ دیا اور پانچ ہزار سے زیادہ مصریوں کے قتل میں شریک رہے۔

انہوں نے بحرین میں ڈکٹیٹر بادشاہ کے ظلم کے خلاف عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے تمام بین الاقوامی علاقائی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی فوج وہاں بھیج دی اور احتجاج کرنے کا حق عوام سے چھین لیا۔

انہوں نے عراقی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے وہاں دہشتگردوں کو بھیجا اور انہیں ملک میں انتشار پھیلانے کا ٹاسک دیا۔انہوں نے پاکستان میں مختلف کالعدم جماعتوں اور تنظیموں کو مالی امداد فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر لے لی۔ابھی چند سال قبل جب امریکہ شدید مالی اور اقتصادی بحران کا شکار ہوا تو یہی ’’ خادم الحرمین شریفین ‘‘ امریکہ کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے آگے بڑھے اور دو سو ارب ڈالر (یعنی دو ہزار ارپ روپے) امریکہ کی جھولی میں ڈال دیے، تاکہ یوں اس کے ساتھ قربت بڑھا سکے۔

لیکن ۔ خبردار ! کوئی ان کو برا بھلا کہنے یا ان پر تنقید کرنے کی جسارت نہ کرے،کیونکہ ۔ وہ ’’ خادم الحرمین شریفین ‘‘ ہیں! لیکن ۔ نہیں ۔ اب زمانہ تبدیل ہو رہا ہے، لوگ بیدار ہو رہے ہیں ۔ اس لیے اب یہ حربہ زیادہ دیر نہیں چلے گا، کہ مقدس القابات کے پیچھے چھپ کر وہ منافقت کرتے رہیں اور لوگ پھر بھی انہیں مقدس سمجھتے ہوئے ان کے ہر غلط کام پر خاموش رہیں۔

تقدس کے عبا کے نیچے چھپ کر آلِ سعود کی جانب سے کیے جانے والے سعودی عوام کے استحصال کی ایک ہلکی جھلک اگر دیکھ لیں تو ان کی حقیقت کو جاننے کے لیے یہی کافی ہو ۔۔۔۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ آلِ سعود خاندان اپنے ہر فیملی ممبر کے لیے مسلمانوں کے پیسوں سے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی ماہانہ پندرہ ہزار ڈالر (۱۵ لاکھ روپے سے زیادہ) فی کس سرکاری وظیفہ مقرر کر دیتے ہیں، (جس سے آل سعود کے نوجوان ممبرز یورپ کے کلبوں اور ہوٹلوں میں عیاشی کرتے ہیں)اور اس وقت آل سعود خاندان کی مجموعی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جبکہ اسی سعودی عرب میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بڑھ کر استحصال اور کیا ہو گا، کہ اپنے خاندان کے عیاش، لفنگے اور بے کار قسم کے ہر ممبر کے لیے عوام کے پیسوں سے اتنی بڑی رقم ماہانہ مختص کر لے جبکہ غریب مزدور تعمیراتی عمارتوں سے گر کر جان دیتے رہیں

اس وقت آل سعود خاندانی بادشاہت کی بدترین مثال پیش کر رہے ہیں۔دوسری طرف اس وقت (تیل کے پیسوں اور مسلمانوں کے حج و عمرہ سے ملنے والے پیسوں کے بل بوتے پر) اسلامی ممالک کے اندر سعودی عرب کی پالیسی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ظلم و جنایت اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے اور دوسرے ممالک میں داخلی انتشار پھیلا کر انہیں کمزور کر کے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں بالکل امریکہ کا کردار ادا کرتا چلا جا رہا ہے، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں ایسا کرتا جا رہا ہے، جبکہ سعودی عرب مسلم ممالک میں۔ یعنی مسلم ممالک کا امریکہ اس وقت سعودی عرب ہے۔ (البتہ صرف ظلم اور منافقت میں نہ علم و ٹیکنالوجی اور ترقی کے دوڑ میں

)
جس سعودی عرب کو نہتے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی اس نے اب امریکہ اور اسرائیل کے کہنے پر یمن پر حملہ کر دیا ہے، اور یمن کے عوام کو خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ اس جارحیت کا جواز تراشتے ہوئے سعودی عرب کے امریکہ میں سفیر کا کہنا تھا کہ وہ یہ حملہ معزول صدر عبد الہادی ریہ کی جمہوری حکومت کی حمایت میں کر رہے ہیں، حالانکہ ان کی منافقت کا پول اس وقت کھل جاتا ہے جب دوسری طرف شام اور عراق کی حکومتوں کو گرانے کے لیے یہی آل سعود دہشتگردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ اور اپنے ملک میں خاندانی بادشاہت کو مسلط کر کے رکھتے ہیں۔
لیکن آلِ سعود جو آگ یمن میں لگانے نکلے ہیں یقینا ان کا اپنا دامن بھی اس آگ کے شعلوں سے نہیں بچ سکے گا۔

مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس مقامات کو اپنی خاندانی بادشاہت کے لیے ڈھال قرار دے کر سادہ لوح مسلمانوں کو زیادہ دیر دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا، وہ دن گئے جب ان کے کچھ نمک خواروں کے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کچھ سادہ لوح حضرات ظالم خاندانِ آلِ سعود کی مخالفت کو مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کی مخالفت خیال کرتے تھے، لوگ اب آہستہ آہستہ آل سعود کی منافقت اور مکر و فریب کو سمجھنے لگے ہیں، اس لیے یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ آلِ سعود کی مخالفت کا مطلب مقامات مقدسہ کی مخالفت ہرگز نہیں ہے، اس لیے لگتا یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؑ کے مزارات کی بے حرمتی اور انہدام سے نالاں عالم اسلام کے مسلمان اب آل سعود کے ظلم و جنایت کے خلاف بہت جلد آواز اٹھائیں گے جس کے بعد انہیں بھاگنے اور حکومت چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sabir
    -