ڈاکٹر ابجیت رائے اور پاکستانی جعلی فری تھنکرز – عامر حسینی

10423970_10206201579306801_7324092487657136463_n

رات کے دس بجے تھے ، میں شہر کے ایک کیفے کے پرسکون گوشے میں بیٹھا کافی پی چکا تھا اور اب اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین پر آنے والے ایک میسج پر نظر جمائے ہوئے تھا ، میسج تھا

The creator of famous web site ” Muktu -mono .com ” was killed by religious fanatics in Dhaka .


میں نے میسج کے ساتھ اٹیچ تصاویر کو ڈاون لوڈ کیا تو ایک وحشت ناک منظر مرے سامنے تھا کہ ایک فٹ پاتھ پر جنگلے کے پاس خون میں لت پت ایک آدمی پڑا ہوا تھا جبکہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر ایک خاتون کھڑی تھی جس کے چہرے ، کپڑے اور جینز پر خون کے نشانات جابجا تھے اور وہ ھاتھ کے اشارے سے کسی کو کرائم سین کے قریب آنے سے روک رہی تھی ، ایک اور تصویر میں ایک مرد اور وہی عورت ساحل سمندر پر مسکراتے کھڑے دکھائی دے رہے تھے اور دونوں کے چہرے زندگی سے بھرپور تھے ، آنکھیں چمک کے ساتھ مسکرارہی تھیں ، تیسری تصویر میں ان کے ساتھ ایک اور نوجوان لڑکی کی تصویر تھی ،نیچے کیہشن پر لکھا تھا کہ

Doctor Abijit Roy , his wife Dr Raifda and their younger daughter who studys in U.S.A

ایک اور تصویر تھی جس میں وہ شخص ٹیگور کی کتاب لئے کھڑا مسکرارہا تھا اور چہرے سے متانت جھلک رہی تھی ، ان سب تصویروں میں جیتی جاگتی ، مسکراتی آنکھوں سے لیکر خون کے تالاب میں لاش بن جانے تک جو مرد تھا وہی ڈاکٹر ابجیت رائے تھا ، جس کو دنیا ایک مرد آزاد کے طور پر جانتی تھی ، جس نے ابتک کل ملا کر آٹھ کتابیں شایع کی تھیں جن میں ” عقیدے کا وائرس ” اور ” ایک بے یقین آدمی کا فلسفہ ” نے تو اس کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا تھا

اس کی بنائی ہوئی ویب سائٹ ” مکتو مونو ڈاٹ کوم ” نے آزاد خیالی کو بنگلہ دیش میں عام کردیا تھا اور یہ ویب سائٹ مذھبی جنونیت کے وائرس کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے والی ویکسئن ثابت ہورہی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کے اندر ہی ابجیت رائے کے حق میں مین سٹریم میڈیا کے موقر ناموں نے اس کی موت کو قومی نقصان سے تعبیر کیا ہے اور اس قتل کے خلاف بنگالی سماج میں آواز اٹھانے والوں کی آوازیں شہید سلمان تاثیر کے حق میں اٹھنے والی آوازوں سے کہیں زیادہ اور کہیں طاقتور ہیں

بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار ڈیلی سٹار میں اس سے وابستہ معروف صحافی مزمل خان نے اس قتل کو ھلادینے والا جرم قرار دیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ابجیت رائے کے قتل کا مقدمہ جب بھی بنگلہ دیش کی عدالت میں چلا تو ابجیت رائے کے ملزموں کے حق میں بنگلہ دیش کا کوئی سابق چیف جسٹس یا کوئی بڑے نام والا وکیل پیش نہیں ہوگا اور نہ ہی بنگلہ دیش کے کسی شہر کی بار اس کے قاتلوں پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور نہیں کرے گی اور کوئی نامی گرامی وکیل اس کے قاتلوں کے ماتھے کو بوسہ دیتا ہوا نہیں پایا جائے گا

بنگلہ دیش میں ابجیت رائے کا قتل خاموشی چھاجانے اور ڈری و سہمی ہوئی فضا کے غلبہ کرلینے کا سبب اس لئے نہیں بنے گا کیونکہ اس سماج میں فری تھنکرز کی اکثریت جعلی نہیں ہے اور نہ ہی دانشوروں میں سیکولر ازم کا چوغہ زبردستی چڑھایا ہوا نہیں ہے میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا کہ اسی دوران میں نے کیفے کے ھال میں بیٹھے لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو مجھے بہت سارے لوگ اپنے موبائل فونز سے کھیلتے نظر آئے ، کچھ نے مری طرح لیپ ٹاپ کھول رکھا تھا اور کوئی مضطرب نہیں تھا ، سامنے کاونٹر اس کیفے کا مالک باجوہ بھی لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا

میں اپنی میز سے کھڑا ہوا ، کاونٹر پر پہنچا اور اس سے پوچھا
جناب کیا کررہے ہیں
نیوز اپ ڈیٹس دیکھ رہا ہوں
کوئی خاص خبر ؟
کچھ بھی خاص نہیں ہے
ڈاکٹر ابجیت رائے کا نام سنا ہے ؟
نہیں تو
محمد احمد لدھیانوی کا ؟
ہاں تین دن پہلے طلعت حسین کے پروگرام میں دیکھا تھا ، کیوں کیا ہوا
کچھ نہیں چھوڑو
میں یہ کہکر اپنی میز کی جانب چلا گیا
مزمل خان نے ڈیلی سٹار میں اپنے آرٹیکل میں آزاد کے حوالے سے ایک سوال داغا ہے کہ
کیا یہ وہی بنگلہ دیش ہے جس کا خواب اس کی آزادی کے لئے لڑنے والوں نے دیکھا تھا ؟
مزمل نے تو یہاں اس سوال پر اپنا مضمون تمام کردیا ، لیکن مجھے لگا کہ یہ اینڈ اچھا نہیں ہے بلکہ اسے لکھنا چاہئیے تھا کہ بنگلہ دیش وہ ملک ہے جو آج ان لوگوں کے نرغے میں ہے جن کے اکابرین نے مغل زوال کے بعد پورے ہندوستان کو ” وھابی ریاست ” میں بدلنے کا خواب دیکھا تھا اور کئی مسلمان ، ھندو ، سکھ ، فرنگی تہہ تیغ کرڈالے تھے اور آج وہ اس سماج کے لوگوں کو روشن خیال جمہوریت پر اصرار کرنے زبح کررہے ہیں

بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی بنگال کہلاتا تھا اس کی مسلم اکثریت جو کبھی بھی مذھبی جنونیت کا شکار نہیں ہوئی تھی اس سے ابھرنے والی مڈل کلاس لیڈر شپ (نے اپنے علاقے کی معشیت و سیاست کو جاگیردار ، تعلقہ دار اور مہاجنی کلاس کے چنگل سے آزاد کرانے جس کی اکثریت بدقسمتی سے ہندو تھی اور اس کے مغربی بنگال کی ہندو اشرافیہ سے شکایات کا پٹارا بہت بڑا تھا جبکہ ان شکایات کا جائزہ ہندوستان کی سب سے بڑی نیشنل سیکولر سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانگریس لینے کو تیار نہ تھی ) نے مسلم نیشنل ازم کے نعرے کے تحت اپنی نجات کا خواب دیکھا اور جناح ، حسین شہید سہروردی ، اے کے فضل حق کی باتوں پر اعتبار کرلیا اور خود خواجہ ناظم الدین ، وقار الملک جیسے صوفی سنی اور شیعہ کو بھی کبھی وہم و گمان بھی نہیں ہوگا کہ مسلم نیشنلزم کی جس سیاست کو انھوں نے مشرقی بنگال کے لوگوں کی نجات کی کنجی سمجھا ہے اس کے بینر تلے ایک زمانے بعد مذھبی جنونی ان کا سر مانگنے لگیں گے اور ان کی ہزاروں سال پر مشتمل ثقافت ، زبان ، رسم الخط اور رہن سہن سب مشرکانہ ، غیف اسلامی ، بدعت ٹھہرا دیا جائے گا اور جب وہ اس ثقافت کو بچانے اور اس کی خاطر جدوجہد کریں گے تو 21 فروری 1948 ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء کی لاشیں گرائی جائیں گی جبکہ 71 ء میں ان کی ثقافت و سیاسی و معاشی آزادی کی جنگ کو بھارت و ہندو کی سازش کہہ کر ان کی نسل کشی کے لئے البدر و الشمس جیسے قاتل گروہ بنائیں جائیں گے اور ملا قادر جیسے ان کی عورتوں کی عصمت دری کریں گے

کیا کسی کو معلوم ہے کہ بنگالی سماج میں اول اول مسلم آبادی کے اندر مذھبی جنونیت کا وائرس کہاں سے آیا تھا ؟ میں نے ڈاکٹر ابجیت رائے کی وائرس آف فیتھ پڑھی تھی تو مجھے خیال آیا تھا کہ اسے بھی اس وائرس کو اول بنگالی سماج میں لیکر آنے والے کا حدوداربعہ لکھ بھیجوں لیکن مجھے یہاں کا جدال اتنی فرصت نہ دے سکا اور یہ خواہش دل میں رہ گئی

سید احمد بریلوی 1822 ء میں جب اس وقت کے حجاز سے حج کرکے واپس ہندوستان آیا تو اس نے دہلی میں شاہ اسماعیل کے ساتھ ملکر وھابی فکر کے اندر پائے جانے والے اس مذھبی جنونیت کے وائرس کو ہندوستان بھر میں پھیلانے کی ٹھان لی اور اس نے دہلی اور از کے گردونواح میں مغل سلطنت کے زوال سے پھیل جانے والی طوائف الملوکی کا فائدہ اٹھاکر ہندوستان میں پہلی وھابی تکفیری سلطنت کے قیام کے خواب دیکھنے شروع کردئے ، اس نے ایک تنظیم منظم کی جس کے چار نائب اس نے بنائے جن میں ولائت علی ، کفائت علی ، شاہ حسین اور ایک اور نام جو مرے زھن سے نکل گیا شامل تھے ، سید احمد بریلوی کے بارے میں ڈاکٹر انجلی نرمل اور سی این استھانہ نے اپنی کتاب

Urban Terrorism : Myth and Realities

میں لکھا ہے کہ جب دہلی میں سید احمد بریلوی کی مخالفت بڑھی تو سید احمد بریلوی نے اپنے خلفاء سمیت ممبئی کا سفر اختیار کیا اور ممبئی ، پٹنہ ، بہار میں اپنی تکفیری وھابیت کی تبلیغ کرنا شروع کی اور پھر یہ ولائت علی ، کفائت علی اور محمد حسین شاہ تھے جنھوں نے پٹنہ ، اروی بہار کو مذھبی جنون کا مرکز بنایا اور کسانوں ، دستکاروں ، مذھبی و جاگیردار تباہ ہوجانے والے امراء کے اندر پائی جانے والی بغاوت کو اپنی تکفیری مہم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن 1854ء تک ولائت علی کی سوات میں بیماری کے دوران مرجانے تک سید احمد بریلوی ایک محدود سے حلقے کو وھابی تکفیریت کے حلقہ بگوش کرنے کے سوا اور کچھ نہ کرسکے ، کتنی عجیب بات ہے کہ سید احمد بریلوی کے یہ خلفاء مسلمانوں کی اکثریت کو مشرکانہ افعال ورسوم و عقائد میں مبتلاء قرار دیکر ان کت قتل ناحق کا مرتکب ہورہے تھے تو ساتھ ہی یہ اپنے تحریک کے لئے ہندوں سے بھی تعاون کے طلبگار تھے اور یہ تضاد ہمیں سید احمد بریلوی کی تحریک کی باقیات کے اندر سے جنم لینے والی دارالعلوم دیوبند اور جمعیت اہلحدیث کی وھابی سیاسی تحریک میں مسلسل نظر آتا ہے ، ہندوستان کی آزادی کا علمبردار مفتی محمود حسن اگر ہندو ، مسلم اتحاد کا داعی نظر آتا ہے تو ساتھ ہی وہ ہندوستان کی اکثریتی مسلمان آبادی صوفی سنی بریلوی اور شیعہ کی تکفیر کرتے اور ان کے خلاف متشدد تحریکوں کی حمائت کرتے بھی نظر آئے اور یہی روش ہم نے مولوی حسین مدنی اور بعد کی جمعیت العلمائے ہند ، ان سے ٹوٹ کر بننے والی مجلس احرار میں بھی دیکھی اور یہ تکفیری سنڈروم ہم نے سلفیوں ، دیوبندیوں ، جماعتیوں ، تبلیغیوں ، اہل قرآن میں سرائت کرتے دیکھا اور آج بنگلہ دیشی سماج کے اندر یہ سنڈروم جماعت اسلامی ، اسلامی جمعیت طلباء ، تبلیغی جماعت ، دیوبندی ، سلفی مدرسہ نیٹ ورک ، ان کے حامی و ترجمان پریس کے اندر پورے جوبن سے پھیلا ہوا ہے

سلفی وھابیت ، دیوبندی وھابیت ، جماعتی وھابیت سب کے ہاں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوھاب نجدی ، سید احمد بریلوی ، شاہ اسماعیل دہلوی ، سید مودودی سے لیکر آج تک تکفیری نظریہ سازوں کے زریعے مذھبی جنونیت کا وائرس بنگلہ دیش میں بسنے والی آبادی کے ایک بڑے حصے میں سرایت کرچکا ہے اور یہ سب اسلام کا نام لیکر وھابی سنڈروم کو داخل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اس سنڈروم کے خلاف ایک انتہائی ردعمل تو یہ ہے کہ بنگلہ دیشی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسی سنڈروم کو اسلام سمجھ کر اسے وائرس سے تعبیر کرتی نظر آتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وھابی سنڈروم ہی اسلاموفوبک مظہر کی پیدائش کا سبب بنا ہے اور اس کی ایک وجہ مسلم تاریخ میں وھابیت کے اصل کردار اور اس سے مسلمانوں کے جمہور کی بے زاری اور اس کے خلاف لڑائی کی تاریخ پر جھوٹ کا پردہ اور سعودیہ عرب کی اربوں روپے کی مدد سے کیا جانے والا اشاعتی ، تقریری اور آج کے سوشل میڈیا پر کیا جانے والا پروپیگنڈا ہے جس کی وجہ سے مسلم جمہور یعنی اہل السنہ کی اکثریت کا مذھبی چہرہ غائب اور صرف وھابیت کا چہرہ سامنے ہے جو اہل السنہ کے سارے حقوق اپنے نام زبردستی لکھ چکا ہے ، یہ کھلا ڈاکہ اور سرقہ بالجبر ہے جو وھابیت اور اس کے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑے نیٹ ورک دیوبندی نیٹ ورک نے کیا ہے

اس وھابی سنڈروم کو پھیلانے میں ان جعلی فری تھنکرز نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے جو الحاد کا چوغہ اوڑھکر مسلم جمہور صوفی سنیوں اور شیعہ کے خلاف اپنا حساب برابر کرنے میں لگے ہوئے ہیں میں ڈاکٹر ابجیت رائے کی اس رائے سے اختلاف رکھتا تھا کہ مطلق عقیدہ ایک وائرس ہے کیونکہ ابجیت رائے کو وھابی سنڈروم نے اس نتیجہ پر پہچنے پر مجبور کیا تھا کیونکہ مجھے ان کی تحریروں اور کتابوں سے صاف نظر آیا کہ وہ وھابی سنڈروم کی تاریخ اور اس کے مذموم کردار بارے اتنا علم نہیں رکھتے تھے جتنا رکھے جانے کی ضرورت تھی کیونکہ نفس مذھب کے خلاف اعلان جنگ تو روشن خیالوں کے خلاف وھابی سنڈروم اور وھابی وائرس انجیکٹ کرنے والوں کی پہلی کامیابی ہے اور اس سے وہ اپنے اردگرد بہت سے مسلم بنگالی قوم پرستوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس نے بنگالی سماج میں سیکولر ازم کی تحریک کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا ہے اور صوفی منش عام بنگالی کو بھی بے گانہ کیا ہے

لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ڈاکٹر ابجیت رائے اپنی رائے میں کسی بے ایمانی اور بدیانتی کے مرتکب نہ تھے اور نہ ہی انھوں نے بنگلہ دیش کی دیوبندی وھابی جماعتی تکفیریت اور ان کے دہشت گردوں کی سافٹ امیجنگ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان قاتلوں کو ھیومنائز کرنے کی کوشش کی جیسے ہمارے ہاں بعض فری تھنکرز کررہے ہیں جن کی دیوبندیت ، سلفیت سے لتھڑے تعصبات ان کے ملحد ہوجانے کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے

بنگلہ دیشی سماج میں سیکولرازم کی لڑائی اپنی چند بے اعتدالیوں کے باوجود سماج کے اندر گہری جڑیں رکھتی ہے اور اسی وجہ سے ابجیت رائے کی بیوہ تنہائی کا شکار نہیں ہے ویسی تنہائی جیسی ہمارے سلمان تاثیر ، راشد رحمان ، شہباز بھٹی کے اہل خانہ کے ہاں دیکھتے ہیں اور آج جبران ناصر سمیت کئی ایک اور لوگ محسوس کررہے ہیں ، ہمیں اپنے مکوتو مونو کی ضرورت ہے ، کیا ہم اس مکوتو مونو کی تعمیر کرپائیں گے ؟یا ہمارا مقدر ایاز نظامی جیسے جعلی ملحد علامہ اور جعلی سول سوسائٹی ایکٹوسٹ ہی رہیں گے جو جعلی مکوتو مونو بناکر دھوکہ دہی کا کاروبار جاری رکھیں گے

Comments

comments