بیٹھک آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ایک یاد گار تقریب – عامر حسینی
اس مئے سے نہیں مطلب ،دل جس سے ہو بے گانہ
مقصود ہے اس مئے سے دل ہی میں جو کھچتی ہے
کل چار فروری 2015 ء شام کے ملگجے کے ساتھ ہی خرم پورہ کالونی خانیوال میں بیٹھک آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی
اس لئے نہیں کہ اس تقریب میں مجھے ایک ایوارڈ ملا بلکہ اس لیے کہ یہ ایوارڈ مجھے ایک ایسے شخص نے دیا جو اپنی زندگی کی آٹھ عشروں پر مبنی ایسی بہاریں دیکھ چکا جس کے دوران اس نے علم ، شعور ، آگہی ، وجدان کی روشنی سے تاریکی ، جہالت ، پسماندگی ، رجعت پرستی ، کٹھ ملائیت کے خلاف جدوجہد کی اور اس نے زمین زادوں ، پسے ہوئے ، کچلے لوگوں میں تعلیم کو عام کیا اور وہ اپنی کمیونٹی کے غریب بچوں کے لئے امریکہ میں اپنے سامنے دھرے بہت روشن امکانات کو چھوڑ کر واپس آگیا اور اس نے پھر پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں اپنی صلاحیتوں کو وقف کیا ، محکمہ تعلیم میں انتہائی اہم عہدے پر رہ کر بھی اس نے ایمانداری اور دیانت کی روشن مثال قائم کی اور اس کی اولاد نے بھی اس کے نقش قدم کی پیروی کی ، اس کے خیال میں ،میں اس اعزاز کے قابل تھا تو مجھے یہ اعزازبخشا جانا چاہئیے
مجھے اس عظیم آدمی کی یہ ادا بھی بہت بھائی کہ وہ ایک باایمان شخص ہیں اور سر سے پیر تک وہ پکے مسیحی ہیں ، خدا پر ان کا ایمان ناقابل شکستہ ہے ، مابعدالطبعیات پر مکمل یقین رکھنے والے اور خیال سے مادے کی تخلیق کے قائل ہیں جبکہ میں سر سے پیر تک مادیت کی اولیت کا قائل ہوں ، تشکیک کو روشنی کے لئے لازم قرار دینے والا اور عمر رواں میں بھی ان سے ساڑھے تین عشرے پیچھے ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں زندگی کی آٹھ عشرے تو چھے عشرے بھی دیکھ نہیں سکوں گا ، ویسے جو چار عشروں پر محیط زندگی ہے اس میں خزاں زیادہ غالب رہی ہے لیکن میں نے ان کو اپنے الحاد کے سبب اور ملا و پادری و پنڈت و ربی کی نظر میں جو زندیقیت ہے کی وجہ سے مجھ سے نفرت ، حقارت یا کمتر سمجھتے ہوئے نہیں دیکھا ، وہ حقیقی معنوں میں صوفی ہیں ، سینٹ ہیں جو انسانوں سے نفرت کرنے کے قائل نہیں ہیں اور وہ مری بغاوت ، مرے لفظوں کی کاٹ اور تلخی سب کو برداشت کرتے ہیں اور مری کمزوریوں سے صرف نظر کرنے کے عادی ہیں اور یہ برداشت ان کے بیٹے شہزاد فرانسس کے اندر بھی ہے جس کے ساتھ میں نے کھلے عام کئی بار اختلاف کیا تو اس نے مری آزادی رائے کے حق کا عملی ثبوت دیا اور اس نے اپنے سیکولر و لبرل ہونے کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا اور کبھی اس بنیاد پر کینہ اور بغض کو قریب نہیں آنے دیا ، یہ ایسے خواص ہیں جن کو میں نے بڑے بڑے نامی گرامی سیکولر ، لبرل اور تزکیہ نفس کے دروس دینے والے مومنین کے ہاں بھی مفقود دیکھا
بیٹھک ایک ایسی تحریک ہے جس نے 1996ء سے لیکر ابتک جنوبی پنجاب کے کئی ایک اضلاع میں امن وآشتی ، سیکولر ، لبرل روایات کے فروغ کے لئے بہت کام کیا اور اس تنظیم نے مرے جیسے بہت سے دوستوں کو رجعت پرستی ، بنیاد پرستی ، تاریک خیالی ، متشدد مذھبیت کے خلاف کام کرنے کے لئے مواقع فراہم کیے اور یہاں خانیوال ہم دوستوں کو بہت پروگرام اور ابتدائیے شروع کرنے کے قابل بنایا
دوستوں کی ایک منڈلی سجانے کے لئے بھی شہزاد فرانسس کی کاوشوں کا بہت دخل ہے ، سید کرار حیدر شاہ ترمذی ، ندیم ناجد ، اختر حسین ، باسط ترمذی ، سیسل پال اور کئی اور نام ہیں جو آج کم از کم جنونیت ، تکفیری فاشزم کے خلاف سینہ سپر ہیں اور جعلی سول سوسائٹی ، فیک لبرل ازم کو دھتکارنے اور اس کے خلاف ایک محاز کی تعمیر میں سرگرم ہیں اور ہم نے ملکر بہت سے نوجوانوں کو ضیاء الحقیت کی دلدل میں دھنسنے سے بچایا ہے اور ہم نے بہت سے کام شروع کئے ، بے سروسامانی کے عالم میں بھی حوصلہ نہیں ہارا اس شام ملتان سے شکنتلا دیوی ، سرفراز کلیمنٹ ، مہندر پال سنگھ کے بھائی بھی اس محفل یاراں میں شریک تھے اور گویا ” صحبت نازک خیالاں ” تھی جو امید کی جوت جگارہی تھی
ہم نے یہاں ہندوستان کے خورشید انور کو یاد کیا اور مجھے رہ رہ کر مہاتما گاندھی کی یاد آرہی تھی ، وہ اس لئے کہ جنوری میں جہاں سعادت حسن منٹو کا یوم وفات آیا تو ساتھ ہی فروری میں گاندھی جی کی شہادت کا دن بھی آگیا تھا اور میں نے اپنے صحافی دوست شاہد انجم سے کہا کہ کیا یہاں پاکستان میں کسی کو یاد ہے کہ گاندھی کو رام ناتھ گوڈے نے کیوں گولی ماری تھی اور گاندھی کس کے لئے اپنی جان دے بیٹھا تھا ؟ کسی کو یاد بھی نہیں ہے اور تو اور گاندھی کو اس دن ان لوگوں نے بھی یاد نہیں کیا جن کے دیس میں اس نے کئی میل پیدل سفر کرکے عدم تشدد کا فلسفہ سکھایا تھا ، اے این پی اقر فضل الرحمان کی جے یو آئی ایف کو بھی اس کی یاد نہیں آئی ،
بلکہ اے این پی کا ایک مہا لیڈر غلام علی بلور سینٹ میں ایک لاکھ ڈالر کے اعلان مذھبی جنونیوں کو دینے خا اعلان کررہا تھا تو دارالعلوم دیوبند کے سرکردہ وفاق المدارس والے سیکولر ازم کا پرچار کرنے والوں کے خلاف پورا ملک بند کرنے کی دھمکی دے رہے تھے اور یہ بھول گئے تھے باپو ، مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کے اکابر کھادی ، چرخہ کے ساتھ عدم تشدد پر مبنی تحریک میں آگے آگے تھے اوف وہ مہاتما گاندھی کے اوتار ہونے اور یہاں تک کہ ان کو اپنے منبروں تک پر جگہ دے رہے تھے اور اقوام کے وطن سے بننے کا درس دیتے تھے اور جب اس کا یوم وفات آیا تو سب نے سنگ دلی کی حد تک خاموشی اختیار کرلی ، کیونکہ اس موضوع پر کلام کرتے تو دیوبندی ملائیت کو آج اپنی عسکریت پسندی ، جنگجوئی ، مذھبی جنونیت اور اینٹی سیکولر لائن کا جواب دینا مشکل ہوجاتا ، یہ تو عبید اللہ سندھی بارے بولتے ہوئے شرماتے ہیں
میں چاہتا تھا کہ اگر اس تقریب برائے امن وآشتی میں مجھے کچھ بولنے کا موقعہ ملتا تو ضرور باپو جی کی بات کرتا اور خود مہاتما گاندھی سے بھی یہ سوال کرتا کہ انہوں نے ہندوستان کے سوراج کے لئے اپنے ساتھ قوم پرستی کے نام پر دارالعلوم دیوبند ، ندوہ کو ساتھ رکھا اور یہاں تک کہ علی گڑھ کے مقابلے میں جس جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی اور آج کے خیبر پختون خوا اور باجوڑ اتمان زئی میں سرحدی گاندھی کے ھاتھوں جن مدارس کی بنیاد رکھوائی اس سے کھادی ، چرخہ اور عدم تشدد تو کب کے غائب ہوگئے اور قوم پرستی بھی ، اس سے اب تکفیری فاشزم ، گلوبل خلافت اور خود کش بمبار نکل رہے ہیں اسی لئےجیسا آرٹیکل لکھنے پر مجبور ہوتا ہے ، معاف کیجئے گا میں کہیں اور نکل گیا مجھے جیکب فرانسس گنجی بار کا جوگی لگتا ہے ویسا ہی جوگی جیسا موئن جو داڑو کا سوبھوگیان چندانی تھا