شکارپور میں شیعہ نسل کشی، دیوبندی مذہبی جماعتیں اور دیسی لبرلز – خرم زکی
پہلے مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ عبدل نیشاپوری اور کچھ دیگر دانشور حضرات کی غلط فہمی ہے کہ ہمارے ملک اور بیرون ملک کچھ ایسے نام نہاد لبرلز اور سیکولر حضرات موجود ہیں جو جان بوجھ کر اور دانستہ طور پر ملک میں جاری شیعہ نسل کشی اور بریلوی سنی و صوفی حضرات کے قتل عام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا ہمارے ملک میں موجود نام نہاد مذہبی جماعتیں قصدا انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان جیسی کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی نام لے کر مذمت سے گریز کرتی ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ اتفاقیہ، حادثاتی اور نادانستہ عمل لگتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ان نام نہاد دیسی لبرلز اور مذہبی جماعتوں کے اپر جمی منافقت اور دو رنگی کی پرتیں اترتی گئیں اور آرمی پبلک اسکول پشاور پر تحریک طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے حملے نے مذہبی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی اور اس کے قائد سراج الحق دیوبندی کی حقیقت اور تکفیری خوارج سے اس جماعت کی فکری ہم آہنگی (جس کو منور حسن مسلح افواج اور اس ملک کے عوام کے خلاف قتال کے مطالبوں سے پہلے ہی واضح کر چکے تھے) روشن تر ہو گئی۔ لیکن شکار پور میں مظلوم، غریب اور نہتے شیعہ مسلمانوں پر انجمن سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے حملے نے (جس میں 60 کے قریب شیعہ مسلمان نمازی بشمول بچے حالت نماز میں ذبح کر دیئے گئے) نام نہاد مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان دیسی لبرلز کی اصلیت و حقیقت بھی عیاں کر دی۔
میں اپنی بات کی قدرے وضاحت کروں۔ اس ملک میں ایسے دماغی مریض موجود ہیں جو ملک میں جاری پہ در پہ دہشتگرد حملوں کو اور اس کے نتیجے میں 50000 پاکستانیوں کے قتل عام کو، شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی، بریلوی سنیوں کے قتل عام، احمدی، ہندو اور عیسائی افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور مسلح افواج، دفاعی تنصیبات، انٹیلیجینس اداروں اور عوامی مقامات پر تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ انجمن سپاہ صحابہ، تحریک طالبان کے حملوں کو، ایک شیعہ سنی باہمی فرقہ وارانہ اور دو طرفہ لڑائی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں یہ ذہنی مریض اور اخلاقی طور پر دیوالیہ حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آرمی کے شہید سرجن جنرل لیفٹینینٹ جنرل مشتاق بیگ، سوات کے جی او سی میجر جنرل ثناء اللہ نیازی، آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر فضل ظہور قادری، کوئٹہ میں شیعہ مسلمانوں کا پہ در پہ قتل عام اور نسل کشی، کراچی ائیر پورٹ پر تحریک طالبان کا حملہ، کراچی نیول بیس پر دہشتگرد حملہ، آئی ایس آئی ملازمین کی بس پر تحریک طالبان کا حملہ، جی ایچ کیو پر انجمن سپاہ صحابہ سے منسلک دہشتگردوں کا حملہ، مفتی سرفراز نعیمی کی انجمن سپاہ صحابہ کے ہاتھوں شہادت، مولانا حسن جان کا طالبان کے ہاتھوں قتل، قاضی حسین احمد پر خود کش حملہ، پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم طالب علموں کا قتل عام، کراچی میں شیعہ ڈاکٹروں اور عام شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ، داتا دربار پر انجمن سپاہ صحابہ کا دہشتگرد حملہ اور اس جیسے کتنے ہی سینکڑوں ہزاروں دہشتگردی کے واقعات کسی شیعہ سنی دو طرفہ مخاصمت کا شاخسانہ ہیں گویا یہ ذہنی مریض یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پشاور میں طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 140 سے زائد معصوم طالب علموں اور اساتذہ سے لے کر کراچی کے نشتر پارک میں عید میلاد النبی کے جلسے میں تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 60 کے قریب افراد سمیت، سب کا تعلق فقہ جعفریہ سے تھا اور یہ تمام لوگ صحابہ پر سب و شتم کرتے تھے اس لیئے انجمن سپاہ صحابہ کے “غیور” دیوبندی دہشتگردوں اور تحریک طالبان پر مشتمل “غیرت بریگیڈ” نے ان تمام لوگوں کو اپنے انجام تک پہنچا دیا۔ جی ہاں ذہنی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ یہ حضرات سعودی عرب کی جانب اس ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی کھلی معاونت اور حمایت پر (جو اب ریکارڈ پر آ چکی ہے) یہ کہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایران بھی تو کسی خیالی “سپاہ محمد” کو سپورٹ کر رہا ہے اور پھر آپ کا دل چاہتا کہ ان کی عقل پر نہیں تو اپنی بے چارگی کا ماتم کریں۔ اگر جواب میں ان سے پوچھا جائے کہ جناب اگر یہ کوئی شیعہ سنی فرقہ وارانہ پرابلم ہے تو کیوں کر ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا نشانہ پاکستان کی مسلح افواج سے لے کر آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلبہ تک بن رہے ہیں ان میں سے جو زیادہ بڑے ذہنی مریض ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ جناب یہ تو قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون اٹیک کا انتقام ہے ( اور یہ لائن لینے والوں میں اس ملک کے نامور صحافی نما انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے نام نہاد دانشور شامل ہیں) گویا ڈرون اٹیک کے جواب میں آرمی کی مسجد پر حملہ کر کے وہاں موجود 40 سے زائد نمازیوں اور بچوں سے امریکہ کو کرتوتوں کا حساب چکتا کیا جاتا ہے اور پھر اس پر تکفیری دیوبند مذہب کی اثباتی سند لگا دی جاتی ہے۔ اچھا اگر پوچھا جائے جناب کہ یہ اسکول اور معصوم طلبہ پر حملہ کیوں تو ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے سرپرست اور حمایتی جو تھوڑی دیر پہلے یہ فرماتے نظر آتے تھے کہ یہ شیعہ سنی فرقہ وارانہ لڑائی ہے اب ایک نئی لائن لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب اگر ان کے بچے قتل ہوں گے تو وہ بھی آپ کے بچے قتل کریں گے کیوں کہ اسلام بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے گویا تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ ان تکفیری دیوبندی طالبان کے ہاتھوں عام پاکستانیوں اور سنی مسلمانوں کا قتل عام کسی شیعہ سنی اختلاف سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتا۔ اچھا جناب پھر یہ داتا دربار پر حملہ کیوں، یہ مزارات پر حملے کیوں، یہ بریلوی سنیوں کا قتل عام کس چکر میں اگر یہ محض امریکی ڈرون اٹیک کا بدلہ ہے تو جوب ندارد البتہ جو اور بھی بڑے ذہنی مریض ہیں وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ جناب چوں کہ ہمارے مکتب کی رو سے یہ اولیاء ﷲ کے مزارات شرک اور بدعت کے اڈے ہیں اس لیئے ان کو نشانہ بنانا اور یہاں آنے والوں کو قتل کرنا جائز ہے اور پھر اپنے مدعا پر احادیث بھی پیش کر دیتے ہیں۔ اچھا بھائی اگر تکفیری دیوبندیوں کے ہاتھوں عام پاکستانی، معتدل دیوبندی سے لے کر سنی بریلوی اور صوفی سبھی قتل ہو رہے ہیں تو پھر اس کو شیعہ سنی مسلہ کس چکر میں بنا کر پیش کر رہے ہو تو موضوع ہی بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیوبندی علماء بھی تو مارے جا رہے ہیں، ان کو کون مار رہا ہے اور گویا یہ اس مسلہ کو فرقہ وارانہ مسلہ ثابت کرنے کی ان کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی اس ذہنی مریض سے پوچھے کہ بھیا یہ دیوبندی علماء کے قتل عام کا آرمی پبلک اسکول کے بچوں سے کیا تعلق تھا ؟ کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے حملے سے کیا تعلق تھا، نیول بیس سے کیا تعلق تھا، داتا دربار اور عید میلاد النبی کے جلوس سے کیا تعلق تھا، ان لوگوں کو نشانہ کیوں بنایا گیا اگر جنگ صرف شیعہ مسلمانوں سے ہے تو پھر جواب ندارد۔ گویا دیسی لبرلز اور دیوبندی اپالوجسٹس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں موجود ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کہ یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی بہانے سے یہ ملک میں موجود کسی بھی شخص، گروہ اور مکتب کا قتل عام کر سکتے ہیں اور پھر اس کو سعودی ایران پراکسی وار کہ کر، شیعہ سنی لڑائی کہ کر، یا ڈرون اٹیک کا رد عمل کہ کر جان چھڑوا سکتے ہیں، ان میں سے کوئی دماغی مریض یہ نہیں بتاتا کہ ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے حملوں مہں شہید ہونے والے شیعہ مسلمان، بریلوی سنی، عیسائی، ہندو اور احمدی حضرات کے اہل خانہ اور دوستوں رشتہ داروں میں سے کوئی شخص اٹھ کر اسی دلیل کے تحت کیوں نہیں عام دیوبندی عوام کو نشانہ نہیں بناتا، کیوں نہیں عام دیوبندی عوام کا قتل عام کرتا، کیوں نہیں دیوبندی مساجد پر حملہ کرتا، کیوں نہیں اسی طرح عام دیوبندی حضرات کو شکلیں دیکھ کر، نام چیک کر کے بسوں سے اتار کر قتل نہیں کرتا ؟ کیا انتقام، بدلے اور قتال کے نام پر عام عوام کا قتل عام صرف ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے لیئے جائز ہے ؟ اگر یہ انتقام کا کوئی جائز، شرعی اور قانونی طریقہ ہوتا تو آج ملک میں موجود احمدی، عیسائی اور ہندوؤں سے لے کر سنی بریلوی اور شیعہ مسلمان بھی ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے خلاف یہی حربے استعمال کر رہے ہوتے۔ کیا پچھلے کئی مہینوں اور سالوں میں کبھی کسی نے سنا کہ کہ کسی دیوبندی مسجد میں گھس کر نمازیوں کا قتل عام کیا گیا ہو یا کسی بس کو روک کر چن چن کر ان سے دیوبندیوں کو الگ کر کے ان کا قتل عام کیا گیا ہو ؟ نہیں بالکل نہیں جبکہ گلگت سے لے کر بلوچستان تک یہ تکفیری دیوبندی دہشتگرد شیعہ مسلمانوں کے گلے اسی طرح شناخت کرنے کے بعد کاٹتے آئے ہیں جن کی ویڈیو فٹیج بھی موجود ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ان تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہوں سے وابستہ دہشتگرد بھی مارے گئے ہیں اور میں یہاں ان کی بات کر رہا ہوں جو مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں نہیں مارے گئے لیکن پہلی بات تو یہ کہ ان 50000 افراد میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے (یعنی سینکڑوں سے آگے نہیں بڑھتی) اور دوسرا یہ کہ ان میں بھی بڑی تعداد خود آپسی لڑائیوں میں جہنم واصل ہوئی ہے جیسے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے انجمن سپاہ صحابہ کا ملک اسحق گروپ پنجاب میں لدھیانوی اور خادم حسین ڈھلوں گروپ کے لوگوں کا صفایا کر رہا ہے اور جو انجمن سپاہ صحابہ کے لاہور میں پکڑے جانے والے دہشتگردوں کی زبانی منظر عام پر بھی آ چکا ہے۔ کیا کوئی صحیح العقل شخص ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے قتل کو ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے ہاتھوں اس ملک کے پچاس ہزار سے زائد لوگوں کے قتل عام کے برابر یا مماثل قرار دے سکتا ہے ؟ کیا ایک عام شہری، ایک معصوم طالب علم اور ایک دہشتگرد برابر ہیں ؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو کس طرح سے ان تکفیری مولویوں کا قتل، جو اس ملک میں موجود دیگر مکاتب فکر کو کافر مرتد قرار دے کر اپنے لوگوں کو ان کے قتل پر اکساتے رہے ہوں، زہریلی کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے رہے ہوں، ایک ڈاکٹر و مسیحا، ایک جرنل اور ایک پروفیشنل کے قتل کے برابر ہو سکتا ہے جس نے اپنی زندگی اس قوم کی خدمت اور بھلائی میں وقف کر رکھی ہو ؟ کیا قانون اخلاق اور دین کی نظر میں ایک تکفیری دہشتگرد کا خون جس نے اس مملکت خداد کے خلاف، مسلح افواج کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہو، اس جنرل کے خون کے برابر ہے جس نے اپنی جان اس سرزمین کے دفاع میں قربان کر دی ہو یا ان معصوم طالب علموں کی مقدس جانوں کے برابر ہو سکتا ہے جو بغیر کسی جرم اور گناہ ذبح کر دیئے گئے ؟
کیاوجہ ہے کہ جب پشاور میں معصوم طالب علموں کا انہی تکفیری دیوبندی دہشتگردوں نے قتل عام کیا تو سب مذمت کرتے نظر آئے، سوائے ان تکفیری خوارج کے حامیوں اور ہمدردوں کے، مگر آج جب شکار پور میں معصوم شیعہ مسلمان ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کا نشانہ بنے تو ہماری عوام نے اس رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا جو کرنا چاہیئے تھا۔ میں جماعت اسلامی اور سراج الحق دیوبندی کی بات نہیں کرتا جو کہ در پردہ ان دہشتگردوں کے حامی ہیں اور جنہوں نے آج تک، جی ہاں آج تک، طالبان اور انجمن سپاہ صحابہ کی جانب سے پاکستانیوں کے قتل عام کی مذمت نہیں کی، حیرت نہ ہو بلکہ تحقیق کریں، یہ قتل کی مذمت کرتے ہیں لیکن قاتل کی نہیں، جی ہاں یہ کبھی طالبان اور انجمن سپاہ صحابہ کی نام لیکر مذمت نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس ان دہشتگردوں کے ساتھ ان کے قریبی روابط اور تعلقات کے شواہد سامنے آ چکے جبکہ برما، چیچنیا، مصر سمیت دینا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کے قتل عام اور قاتلوں کے خلاف ملین مارچ سے لے کر ہر قسم کا مارچ کریں گے لیکن اپنے ہی ملک میں موجود سنی بریلوی مسلمانوں، شیعہ مسلمانوں کے تکفیری خوارج کے ہاتھوں قتل عام کے خلاف اور اس قتل عام میں ملوث تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے خلاف مارچ تو دور کوئی ریلی بھی نکالتے نظر نہیں آئیںگے۔ میرا مخاطب وہ دیسی لبرل بھی نہیں جو رسول مکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کرنے والے فرنچ میگزین پر حملے کے خلاف احتجاج کرتے تو نظر آئیں گے اور سب کے سب یکدم چارلی بن جائیں گے لیکن شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے دہشتگرد حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے آپ کو شیعہ کہلاتے نظر نہیں آئیں گے۔ ان دیسی لبرلز اور ان جماعتی مذہبی افراد دونوں کی ڈوریں ایک ہی جگہ سے ہل رہی ہیں۔ لیکن میرا مخاطب وہ عام پاکستانی ہے، وہ معتدل دیوبندی، وہ شیعہ، وہ سنی ہے جو اس ملک سے محبت کرتا ہے، جس کا جینا مرنا اسی ملک کے ساتھ ہے، اسے جاگنا پڑے گا، اگر اس کو اس ملک کو بچانا ہے، اگر اس کو اس ملک سے محبت ہے، تو اس دہشتگردی کے خلاف اس کو اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا اور ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے بے نقاب کرنا پڑے گا، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہماری مسلح افواج کو بھی اب سبق پکڑنا چاہیئے، انہی تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کو ایک عرصے تک ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ تزویراتی اثاثے سمجھ کر پالتی آئی ہے اور ان کی سرگرمیوں سے آنکھیں چراتی رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے کمان سنبھالنے کے بعد کئی دہائیوں میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ملک کے عوام کی واضح اکثریت پاکستان کی مسلح افواج کا کھلا اور والہانہ انداز میں ساتھ دے رہی ہے، فوج پر اعتماد کر رہی ہے، اعتبار کر رہی ہے۔ عام پاکستانی عوام کی نظروں اور امیدوں کا مرکز فوج ہے، وہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں اپنی نام نہاد حکومت نہیں بلکہ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب یہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو دہشتگردی کی اس عفریت سے نجات دلائیں اور وہ گروہ، مساجد اور مدارس جو اس دہشتگردی اور قتل عام کی حمایت کر رہے ہیں ان کا بے رحمی سے جڑ سے خاتمہ کر دیں۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی مجھ سے کہے کہ جناب آپ کا ہدف صرف ایک مکتب سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہی کیوں ہیں تو جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شیعہ مدرسہ اور تنظیم سنی مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل عام کی تعلیم دیتی اور حمایت کرتی ہو تو اس کا بھی جڑ سے صفایا کر دیا جائے۔ میری ہمدردی کسی بھی تکفیری دہشتگرد کے ساتھ نہیں۔
Wahabi murdabad