نفع بخشی – سید اسرار احمد
یہ غالبا” کوئی تیسری یا چوتھی مسجد تھی جہاں ہمارا سہہ روزہ قیام تھا، اب تک کے ایام میں سیکھی جانے والی باتوں میں بہت سی روایتی سوچ و فکر کے لوگوں سے ملاقات رہی، بعض بہت قابل اور اکثر سطحی خیالات کے سادہ لوح لوگ تھے،
مغرب کی نماز کے بعد ایک صاحب کا بیان طے تھا، نماز پڑھ کر ہم اردگرد جمع ہوگئے کہ بیان سنیں، بہت سادہ اور عام فہم انداز میں وہ صاحب ایمان و یقین کا زکر کرنے لگے،
محسوس یہ ہوا کوئی لفاظی اور سخن وری کی کوشش میں بات کو لچھے دار تقریر بنانے کی کوشش کرے تو تمام تر روحانیت و سادگی صفر ہوجاتی ہے، لیکن انہوں نے جو کچھ کہا وہ سراسر دل کی گہرائی سے نکلنے والا درد تھا،
ان کے چہرے سے لوگوں کے لیے محبت کسی بےقابو لہر کی طرح بیتاب محسوس ہورہی تھی،
اسی دردمندی اور محبت نے مجمع کو اپنی طرف متوجہ کرلیا،
مسجد کا پاکیزہ ماحول اور اطراف کی خاموشی نے ماحول کو مزید پر اثر بنارکھا تھا
کبھی خیال آیا کہ کونسی بات ہے اس بیان میں جو نئی ہے؟ یقینا” یہ سب باتیں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں،
اللہ پر یقین، رسول اللہ کے طریقوں میں کامیابی وغیرہ، لیکن ہر جملہ کیوں دل کو پگھلائے دے رہا ہے؟
دفعتا” یہ بات اللہ نے سجھائی کہ داعی کے دل کی کیفیت کا براہ راست مدعو پر اثر ہوتا ہے، اگر داعی کے دل میں لوگوں کے لیے محبت اور خیرخواہی کے بجائے اشتعال و نفرت ہو تو چاہے بات کتنی ہی لچھے دار کی جائے
لغت سے کیسے ہی اعلی الفاظ منتخب کرلیے جائیں، مدعو ہر قسم کی دعوت کے اثر سے بے اثر رہیگا،اور یہ تمام الفاظ جو ‘خدمت’ انجام دیں گے وہ سوائے شور کی آلودگی کے اور کچھ نہیں ہوگا,
یہ شخص مقرر نہیں ہے، عالم یا مفتی نہیں ہے، بس ایک دردمند داعی ہے یہی وجہ ہے جو اس کے سادہ الفاظ بھی کسی ملکوتی کلام کی طرح دل پر اثر کررہے تھے،
کوئی آدھے گھنٹے میں انہوں نے ایمان، عمل صالح، اخلاق حسنہ ، خلوص نیت اور سب سے آخر میں کار دعوت کی اہمیت کو بتانا تھا، یہ گویا حاصل کلام ہوتا ہے، (یا اسے مقصد بیان کہیے) اس کے بعد تشکیل شروع ہونی ہوتی ہے،
آخر کے چند منٹس میں انہوں نے دعوت و تبلیغ کے مقصد کو سمجھاتے ہوئے مجمع سے سوال کیا، بتاو بھئی امت اس وقت کسقدر مصائب و پریشانیوں میں ہے، ہرجگہ فتنہ و فساد ہے، ظلم ہے، آہیں اور سسکیاں ہیں,
کیا آپکو معلوم ہے اسکی کیا وجہ ہے؟ آخر کیوں جن لوگوں کو اللہ نے دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا وہ دنیا بھر میں زلیل و رسوا اور بے وقعت ہیں؟
میرے اندازے کے مطابق انہوں نے اب یہود و نصاری کی سازشوں کی لمبی چوڑی فہرست گنوانی شروع کردینی ہے، اور اگر جماعت اسلامی یا اسی طرز کی دوسری مزہبی جماعتوں کے اجتماعات کو سنا جائے تو مقرر کی ساری شعلہ بیانی میں امریکہ اسرائیل اور یہود و ہنود کی سازشوں کے انکشافات کے سوا کچھ نہیں ہوتا،
یہاں سے میری بوریت کا آغاز ہونے والا تھا، اور جلد مجھے اٹھنے کی تیاری کرنی تھی، کیونکہ گھوم پھر کر مولوی تو بہر حال مولوی ہوتا ہے، میں پہلو بدلنے لگا، کہ بات شروع کی تو اچھی تھی لیکن اب نوحہ ہوگا، کافروں پر لعنت و ملامت کی جائیگی، بربادی کی زمہ داری اغیار کے خانے میں ڈالی جائیگی,
اور مجھے ان باتوں سے ایک فیصد بھی اتفاق نہیں ہے،
اس اثناء میں انہوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دینا شروع کیا،
دیکھو میرے عزیزو، اللہ نے ہر شئے کو بامقصد بنایا ہے، اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے، وہ ساری مخلوق میں سب سے افضل ہے، اور پھر یہ امت تو رسول اللہ کی امت ہے، کیا اسکا کوئی مقصد نہیں ہوگا؟
یہ الفاظ سنکر میں نے اٹھنے کا ارادہ ترک کیا اور پھر سے بیٹھ گیا، کہ بات کچھ معقول لگتی ہے،
انہوں نے بات جاری رکھی۔۔۔
مقصد کی بنیاد پر چیزوں کی حیثیت اور وقعت طے ہوتی ہے، اب دیکھو یہ پنکھا جو ہمارے سروں پر چل رہا ہے، یہ بلب جو اونچائی پر نصب ہے، اسے اونچا کیوں رکھا گیا ہے؟
یہ ہمارے سر پر اس لیے ہے کہ یہ ‘کارآمد’ ہے، یہ اپنے ‘مقصد’ پر ہے، جب کوئی چیز اپنے مقصد پر ہوتی ہے، کارآمد ہوتی ہے تو اسے یونہی سروں پر بٹھایا جاتا ہے
جس دن یہ پنکھا ناکارہ ہوجائے گا ، یہ بلب فیوز ہوجائےگا، تو ہم اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اسے کباڑ میں پھینک دینگے، اب یہ پیروں تلے روندا جائے یا مٹی اور گرد میں اٹا رہے، اسکے مالک کو اسکی کوئی پرواہ نہیں ہوگی،
کیوں؟
کیا یہ ہم نے اپنے ہاتھ سے نہیں خریدا؟ اپنی محنت کے پیسوں سے خرید کر یہاں لاکر لگایا، اب کیا وجہ ہے جو اسے اٹھا کر پھینک دیا؟
میرے عزیزو اسکی وجہ ‘نفع بخشی’ کی صلاحیت کا کھودینا ہے۔
اللہ کے رسول نے فرمایا بہترین انسان وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پنہچے، اب دیکھو کیا ہم سے انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں لوگوں کو کوئی نفع پنہنچ رہا ہے؟ یا ہم دنیا کے لیے ضرر رساں بنے ہوئے ہیں؟
وہ اپنی بات کہتے رہے اور میں کئی اہم سوالوں کے جواب پاچکا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفع بخشی کی صلاحیت ہی ہے جو انسان کو لوگوں کی نظر میں قابل احترام بناتی ہے، جس شخص سے لوگوں کو نفع نا پنہنچے یا نفع کے بجائے ضرر پنہچے تو وہ یونہی بے وقعت اور بے حیثیت سمجھا جاتا ہے،
یہ شخص کوئی دانشور نہیں ہے، لیکن جو کہا سو فیصد سچ ہے، حق ہے، میں یہ سوچتا رہا اور ایک بار پھر انہوں نے مجمع کو متوجہ کیا،
دیکھو میرے دوستو، جب انسان ‘کرنے والے کاموں’ سے غفلت برتے گا، تو نا کرنے والے کاموں میں لگنا پڑیگا، انسان کو اللہ نے بامقصد بنایا ہے، یہ مقصد سے ہٹے گا تو بےمقصد کاموں میں لگے گا،
اس امت کو ایک اعلی مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے، اور وہ مقصد لوگوں کو آنے والے بڑے دن کی حاضری سے باخبرکرنا ہے، یہ خدا کے حضور پیشی کا دن ہے، جس سے انسانیت غافل ہے
اس حاضری اور جوابدہی کے احساس میں جینے والے لوگ کبھی دوسروں کے لیے نقصان و تباہی کی وجہ نہیں بنتے، بلکہ ان کے وجود سے لوگ نفع و خیر پاتے ہیں،
یہ امت جب تک نفع بخش رہی یہ اللہ کے ہاں بھی عزت و اکرام کی مستحق رہی اور اہل عالم نے بھی اسے سروں کا تاج بنائے رکھا، آج اس نے اپنا کام – دعوت و تبلیغ- کو چھوڑا ہے، تو دنیا بھی اسے کوئی مقام دینے کو تیار نہیں ہے اور اللہ کے ہاں بھی اسکی کوئی وقعت نہیں اب یہ ناکارہ و بےمقصد چیزوں کی طرح کباڑ و کوڑے کی طرح بے وقعت و بے حیثیت ہے,
جو بات بڑی کتب بینی اور اوراق چھاننے کے بعد سیکھی وہ ایک سادہ لوح اور دیدہ عبرت رکھنےوالے بندے نے چند منٹس میں سمجھادی۔
اسرار بھائی، دعا ہوچکی ہے، کہاں گم سم رہتے ہیں، بات بھی کم کرتے ہیں؟ سب خیریت ہے ناں؟
اوہ جی جی، بس سننے پر دھیان رہتا ہے اسلیے بولنے کی ضرورت کم محسوس کرتا ہوں….
اچھا ماشاءاللہ ، اللہ آپ سے راضی ہو!