دیگ سے گرم دیگ کا چمچہ ۔ تکفیریوں کے وکیل اور محرم و ربیع الاول کے اجتماعات – نور درویش
پاکستان میں دو قسم کے تکفیری پائے جاتے ھیں، ایک جن کے چھرے واضح ھیں اور ایک وہ جو آزاد خیالی یا روشن خیالی کے لبادے میں چھپے بیٹھے ھیں۔ پہلی قسم معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلتی ھے، ان پر کفر کے فتوی لگاتی ھے۔ جبکہ دوسری قسم قلم، مواصلاتی اور الیکٹرونی وسیلوں کی بدولت اپنا وار کرتی ھے۔ بظاھر وہ بات انسانی حقوق کی کرتے ھیں لیکن مقصد تکفییریوں کی درپردہ معاونت ھوتا ھے۔ ان کی بات پڑھنے والوں کو حق گمان ھوتی ھے جبکہ ان کا ارادہ دراصل باطل اور اس کے پیچھے نیت مفسدانہ ھوتی ھے۔
نظر دوڑایئں تو آس پاس بہت سے جعلی لبرل یا سیکیولر تکفیری دیوبندی نظر آیئں گے جو اب کافی حد تک ایکسپوز ھو چکے ھیں۔ ان میں نجم سیٹھی، اعجاز حیدر، ماروی صرمد، علی کامران چشتی وغیرہ شامل ھیں۔ گمان غالب یہ ھی ھے کہ مذکورہ بلاگ بھی شائد علی چشتی نامی سیکیولر دیوبندی اور تکفیریوں کے وکیل نے نے تحریر کیا ھے جو کبھی شانِ صحابہ قانون لاگو کرنے کیلیئے تکفیری دیوبندی جماعت سپاہ صحابہ کے رہنما احمد لدھیانوی کی آن ائیر حمایت کرتے دکھائی دیتے ھیں اور کبھی انسانی حقوق کے زبانی جمع خرچ کیلیئے مولوی عبدالعزیز کے خلاف رپورٹ درج کروانے تھانے پہنچ جاتے ھیں۔ البتہ کھلے عام اھل تشیع کی پر کفر کے فتوے لگانے والی اور ان کے قتل میں ملوث کالعدم جماعتوں کے خلاف بات کرنے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ھوتی۔ یہ سب ایک ھی تھالی کے چٹے بٹے ھیں۔زیر نظر میں موصوف کی ٹویٹ پر ان کے نیازمندوں کے دعائیہ جذبات آپ بھی دیکھ سکتے ھیں۔
اس سال محرم کے آغاز ھونے سے کچھ روز قل حسب معموم کچھ جعلی لبرلز کو انسانی حقوق اور شیعوں سے اپنی محبت کے اظہار کو مروڑ اُٹھا اور ان میں سے کسی ایک نے پاکستان کے معروف انگریزی روزنامہ ڈان میں ایک عدد بلاگ لکھ مارا۔ اس بلاگ کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ محرم کے آغاز سے پہلے ھی کچھ شیعہ دہشت گردی کا شکار ھو چکے ھیں اس لیئے ان کی حفاظت کے پیش نظر محرم کے اجتماعات کو محدود کر دیا جائے۔ کوئی جلوس یا اجتماع کھلی جگہ یا سڑک پر نہ نکلے، زیادہ لوگ ایک اجتماع میں جمع مت ھوں، بہتر ھے کہ چار دیواری کے اندر اھتمام کر لیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان حفاظتی انتظمات کے چیدہ چیدہ نکات تھے جو ان محبان شیعانِ حیدر کرار کرم اللہ وجہ الشریف کے اذھانِ عالیہ میں آئے۔
اس بلاگ کا ایک مفصل اور بہترین جواب محترم سید صباح حسن صاحب نے انگریری میں دے دیا ھے البتہ کچھ گذارشات ھماری طرف سے اردو میں بھی پیش خدمت ھیں۔
https://lubpak.com/archives/231585
سب سے پہلے تو ھم احتجاج کرتے ھیں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر صاحبان سے جس کا چنداں کوئی فائدہ نہیں لیکن پھر بھی سندا احتجاج کر رھے ھیں اس قسم کی تحریروں کو اپنے اخبار میں جگہ دینے کیلیئے۔
ویسے تو نفس مضمون دیکھ کر اندازہ ھو رھا ھے کہ مسئلہ کسی انسانی جان کی حفاطت سے نہیں بلکہ جلوس عزا اور سلسلہ عزاداری سے ھے۔ تکفیری دہشت گرد اس پر براہ راست حملے کرتے ھیں اور یہ جعلی لبرل بات کو گھما کر اس کے خلاف اپنا بغض ظاھر کرتے ھیں۔ ٹارگٹ دونوں کا ھی ایک ھے۔ اسی قسم کے اعتراضات ربیع الاول کے جلوسوں پر بھی کیئے جاتے ھیں جو بریلوی سنی اور صوفی حضرات نہایت اہتمام سے نکالتے ھیں۔ افسوس کا مقام یہ ھے کہ ان اجتماعات پر حملے کرے والوں کی فکر اور ان کے حملوں کی مذمت کرنے کی بجائے یہ حضرات ان شعائر کو محدود کرنے کی ترغیب دینتے ھیں جن کا تعلق براہ راست شیعوں اور بریلیوں کی اساس اور بنیاد سے ھے۔
اس سے بھی بڑی بددیانتی یہ ھے کہ یہ سیکیولر دیوبندی ان ریلیوں اور جلسوں کے خلاف کبھی زبان نہیں کھولتے جو کالعدم تنظیمیں نکالتی رھتی ھیں۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ موجودہ اھلسنت والجماعت کے جلسے جن میں کھلے عام شیعہ دشمی کا اظہار اور ان کے قتل عام کی ترغیب دی جاتی ھے، ایسی تمام جلسے اور ریلیاں ان دانشوروں کی نظر سے نہیں گذرتیں۔ کوئٹہ میں شیعہ ھزارہ کی نسل کشی میں ملوث سپاہ صحابہ کا امیر رمضان مینگل، کراچی میں اورنگزیب فاروقی، پنجاب میں احمد لدھیانوی اور عنقریب رھا ھونے والے ملک اسحق سر عام شیعہ دشمنی، تکفیر اور قتل عام کا اعلان کرتے نظر آتے ھیں۔ ان کی منعقد کردہ شان صحابہ کانفرنس، دفاع صحابہ ریلی اور دھرنے ان دانشوروں کو کوئی تکلیف نہیں دیتے۔ ان حضرات کوشائد اس بات پر بھی اعتراض نہیں ھوتا جب ایک کالعدم جماعت کا رھنما اسلام آباد میں نون لیگ کی حمایت میں نام نہاد جمہوریت بچاو ریلی نکالتا ھے اور کھلے عام بریلوی علامہ طاھر القادری، اور ان کے چاہنے والوں کو دھمکی دیتا ھے۔ علی الاعلان شیعہ دشمنی کا اعلان کرتا ھے، علامہ طاھر القادری کے پیچے ایرانی ھاتھ کا نعرہ لگا کر فرقہ وارانہ آگ بھڑکاتا ھے اور ان کے دھرنے میں موجود لوگوں کو مشرف اور بدعتی قرار دیتا ھے۔
البتہ سیکیولر دیوبندی حضرات ان کالعدم تکفیری گرہوں کو محدود کرنے کی بجائے الٹا جلوس عزا اور ربیع الاول کو محدود کرنے پر زور دیتے ھیں۔
اگر ھم تھوڑی دیر کیلئے ان حضرات کی تجویز پر غور کر بھی لیں تو ذرا خود سوچیئے، کیا عزاداری کو چار دیواری میں محدود کرنے سے مسئلہ واقعی حل جا ئے گا؟ کیا کراچی آئ آر سی امام بارگاہ میں گرنیڈ حملہ، امام بارگاہ علی رضا میں دھماکہ، مسجد حیدری، ربیع الاول میں سانحہ نشتر پارک، پشاور میں امام بارگاہ کے اندر حملہ، اے این پے رھنما بشیر بلور کا چار دیواری کے اندر جاری جلسے میں قتل، لاھور میں داتا گنج بخش کے مزار کے اندر دھماکہ، اسلام آباد میں بری امام مزار کے اندر دہشت گردی، نوے کی دھائی میں لاھور کے قدیمی شیعہ قبرستان مومن پورہ میں بدترین دہشت گردی، لاھور ھی میں معروف قدیمی بریلوی درسگارہ جامعہ نعیمیہ کے اندر خود کش دھماکہ جس میں جناب مفتی سرفراز نعیمی شہید ھوئے، لاھور ھی میں احمدیوں کی مسجد یا عبادت گاہ پر حملہ، کویٹہ میں 2003میں جامعہ مسجد اثنا عشری ھزارہ کے اندر کیا جانے والا خود کش حملہ، 2013 میں کوئٹہ ھی میں امام بارگاہ ابو طالب کے دروازے یا بیرئر کے پاس خود کش دھماکہ، اور 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا واقعہ۔ یہ اور بہت سے دیگر واقعات چار دیواری کے اندر ھوئے۔ جلوسوں اور اجتماعات کے دوران ھونے والے واقعات ان کے علاوہ ھیں۔ لہذا یہ بات بالکل غیر منطقی ھے کہ عزاداری کے اجتماعات کو محدود کرنے سے دہشت گردی میں کبی واقع ھوگی۔ دہشت گردی میں کمی ان عناصر پر پابندی اور ان کے خاتمے سے ھوگی جن کی در پردہ وکالت یہ تکفیری وکیل مختلف حیلوں بہانوں سے کرتے نظر آتے ھیں۔
عراق اور شام جیسے شورش زدہ ملکوں تک میں یہ سلسلہ جاری ھے۔ داعش کی تمام تر دہشت گردی کی دھمکیوں کے باوجود لاکھوں لوگ ھر سال کی طرح اپنی جانوں کی پرواہ کیئے بغیر با پیادہ نجف سے کربلاء پہنچے۔ ان دیسی تکفیری لبرلز کو یہ جان کر بہت دکھ ھوگا کہ ان قافلوں میں شیعہ اور سنی تو ھوتے ھی ھیں بہت سے مسیحی عقیدتمند بھی شامل ھوتے ھیں۔ وھاں کوئی عزاداری کو چار دیواری میں محدود کرنے جیسی بے منطق باتیں نہیں کرتا ۔
کچھ ایسی طرح کی نرالی منطق جناب جاوید چوہدری نے بھی کچھ روز قبل اپنے کالم میں پیش کی، جو ان کی دہشت گردی کے مقابلے کیلیئے مجوزہ باتوں میں سے ایک تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو رضوی، کاظمیِ جعفری، فاروقی، بریلوی نقوی، نیز تمام تخلص، سابقوں اور لاحقوں پر پابندی لگا دینی چاہیئے۔ تمام لاحقے اور سابقے جن سے فرقے کا پتہ چلے۔ اس انوکھے حل پر پہلے تو ھم جاوید چوہدری صاحب کو مبارک باد دیں گے اور پھر صباح حسن صاحب کےانگریزی کالم سے ایک مثال مستعار لیں گے جو کہ جاوید چوہدری اور ان کے قبیلے کے دیگر تکفیری وکلاء کی ذہنیت کی عکاس ھے۔ اس مثال کے مطابق ایک گاوں میں ایک خونخوار بھیڑیا وارد ھو گیا۔ اس سے بچاو کیلیئے گاوں کے بڑوں نے ایک بہت بڑے پنجرے کی تعمیر کا حکم دیا۔ جب پنجرا تیار ھوگیا تو تمام گاوں والوں کو اس کے افتتاح کی تقریب میں بلایا گیا۔ گاوں والے اپنی دانست میں یہ سوچ کر آئے کہ اس پنجرے میں وحشی بھیڑیے کو قید کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن انہیں حیرانی ھوئی جب گاوں کے بڑوں نے ان سے پنجرے کے اندر جانے کو کہا تا کہ انہیں بھیڑیئے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس گاوں کا نام پاکستان تھا اور گاوں کے بڑے یقینا جاوید چوہدری اور ان کے ھمخیال تھے۔
محرم کے مخصوص ایام عزا اس سال اپنے اختام کو پہنچنے والے ھیں، اب تمام اپن پسند مسلمان ربیع الاول کے جلوس روایتی مذنبی جوش اور رواداری سے نکالیں گے۔ کہیں ھفتہ وحدت کا انعقاد کیا جائے گا کہیں میلاد اور نعتیہ محافل سجائی جایئں گی۔ گل ھائے عقیدت پیش کیئ جایئں گے جس میں بر صغیر کی منفرد ثقافت کی امیزش بھی بھی شامل ھوگی۔ اس موقع پر تکفیری قوتیں محرم کی طرح ربیع الاول کے اجتماعات پر اپنے تحفظات گنوانا شروع کریں گی البتہ محرم کی طرح اس بات بھی انہیں اور ان کی ھمنوا تکفیری کالعدم جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
http://www.dawn.com/news/766065/low-key-ashura