اداریہ: دیوبندی علما اور تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی گول مول مذمت آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے
حال میں چھبیس دیوبندی تنظیموں کے اتحاد مجلس علماء اسلام کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت دیوبندی مدرسہ جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتمم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے کی اور اس اجلاس میں وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری ، جے یوآئی ایف کے سربراہ فضل الرحمان ، کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ اہلسنت والجماعت کے جنرل سیکرٹری قاری خادم ڈھلوں نے بھی شرکت کی
روزنامہ نیشن لاہور کی خبر کے مطابق مجلس علماء اسلام نے حکومت کی جانب سے دھشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے مدرسہ اصلاحات متعارف کرانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا – فضل الرحمان نے کہا کہ 2004ء میں وفاق المدارس اور حکومت کے درمیان ” مدرسوں کی رجسٹریشن اور نصاب کی اصلاح ” پر ایک معاہدہ ہوگیا تھا اس کی روح کے مطابق اقدامات اٹھانے چاہیں اور اس کو نظر انداز کرکے نئے اقدامات اٹھانے کا کوئی مطلب نہیں ہے -وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری نے صاف صاف اس بات سے انکار کیا کہ ان کی تنظیم کا کوئی ایک مدرسہ بھی انتہا پسندی اور دھشت گردی میں ملوث نہیں ہے
دیوبندی تنظیموں کے اس اتحادی پلیٹ فارم ” مجلس علمائے اسلام ” کے اجلاس میں لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز کے بیانات کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے مولوی عبدالعزیز کے خلاف بیانات کی مذمت کی گئی
اس اجلاس کی یہ روداد یہ بتلانے کے لیے کافی ہے کہ دیوبندی سیاسی، مذھبی تنظیمییں اور دیوبندی مدارس کی مشترکہ تنظیم وفاق المدارس کسی بھی صورت یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کے کئی ایک مدرسے انتہا پسندی اور دھشت گردی کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی کے تسلسل کو جاری رکھنے میں سہولت کار، بھرتی کے مرکز اور لاجسٹک سیل کا کردار ادا کررہے ہیں – کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ جو کہ لشکر جھنگوی، جنداللہ، احرار اور طالبان کا ہی ایک نام ہے کواپنی صفوں میں جگہ دینے یر قیادت میں شریک کرنے کا واضح مطلب پاکستانی قوم خاص طور پر مظلوم سنی صوفی، بریلوی، شیعہ، مسیحی، احمدی، ہندو و دیگر مظلوموں کے خلاف تکفیری ایجنڈے کی حمایت ہے
اس اجلاس میں تحریک طالبان پاکستان ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ ، تنظیم الفرقان سمیت ان تمام دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیموں کے دیوبندی مسلک سے خارج ہونے اور ان کے خارجی و تکفیری قرار دئے جانے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا اور دھشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی شناخت چھپانے کی کوشش جاری رکھی گئی
ہم نے سانحہ پشاور پر مفتی رفیع عثمانی کا ریکارڈ شدہ بیان دیوبندی ویب سائٹ پر سنا اور روزنامہ دنیا کے ویب ایڈشن پر پڑھا، اس بیان میں مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ سانحہ پشاور کا ارتکاب کرنے والے ” اگر ” خود کو طالبان کہتے ہیں تو غلط ہے وہ ظالمان ہیں، اس کے بعد انھوں نے ساری گفتگو کا زور اس بات پر رکھا کہ مسلمانوں میں باہم قتال کو جائز خیال کرنے والے کافروں جیسے عمل کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن مفتی رفیع عثمانی نے نہ تو تحریک طالبان پاکستان ، نہ ہی جماعت الاحرار ، نہ ہی لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ ، نہ جند اللہ کسی ایک کے بارے میں یہ کہا کہ وہ خارجی ، تکفیری ، مثل کفار ہیں وغیرہ ، وہ دھشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کی بات تو کرتے رہے لیکن ایک جگہ بھی انھوں نے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دھشت گرد تنظیموں کو یہ نہیں کہا کہ وہ دیوبندی خود کو مت کہیں ، خود کو سنّی حنفی دیوبندی نہ کہیں اور دارالعلوم کراچی کے دیگر جن مفتیان اور مولویوں نے بھی یہ بیان جاری کیا انھوں نے بھی پاکستان کے اندر دھشت گردی کی مرتکب تنظیموں کے دیوبندی مکتبہ فکر سے خارج ہونے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی ان لوگوں کی مذمت کی جو اس واقعے کی مذمت سے انکاری ہیں اور پاکستان میں ” قتال ” کرنے والوں کی حمائت کررہے ہیں یاد رہے کہ اس سے قبل بھی رفیع عثمانی کئی مرتبہ طالبان اور سپاہ صحابہ کی تکفیری دہشت گردی کی کاروائیوں کا الزام بلیک واٹر، امریکہ اور دیگر پر دھر چکے ہیں اور طالبان و سپاہ صحابہ کی غیر مشروط اور واضح مذمت کبھی نہیں کی بلکہ ان کی تو کراچی میں لشکرجھنگوی کے مقامی سرغنہ اورنگزیب فاروقی دیوبندی سے گہری یاری ہے اور دونوں کی کئی تصاویر ریکارڈ پر موجود ہیں
بھارت میں دار العلوم دیوبند کا پریس ریلیز ہم نے دیکھا جس میں ایک مرتبہ بھی طالبان یا سپاہ صحابہ کا نام لے کر مذمت نہیں کی گئی – دیوبندی علما اور تنظیموں کی روش ہے کہ اپنے دہشت گردوں اور غنڈوں کی کاروائیوں کا خوب مالی اور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں، سعودی عرب سے مال بٹورتے ہیں، سنی صوفی اور بریلوی مسجدوں پر قبضے کرتے ہیں، سنی، صوفی، شیعہ اور دیگر مخالفین کو قتل کرواتے ہیں لیکن جب خود پر الزام آتا ہے تو الزام امریکہ، ایران، انڈیا، بلیک واٹر یا پاکستانی فوج پر دھر دیتے ہیں
قاری حنیف جالندھری سیکرٹری جنرل وفاق المدارس نے مکّہ سے سانحہ پشاور کے حوالے سے جو مذمتی بیان جاری کیا تھا وہ بھی گول مول تھا اور اج مجلس علماء اسلام کے اجلاس میں انھوں نے جب یہ کہا کہ جنوبی پنجاب میں ایک بھی دیوبندی مدرسہ انتہا پسندی اور دھشت گردی میں ملوث نہیں ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں
جبکہ مفتی نعیم دیوبندی کے مطابق پشاور آرمی سکول کا قتل عام الله کا عذاب ہے جو عمران خان کے جلسوں اور ان میں ناچ گانوں کی وجہ سے آیا
مجلس علمائے اسلام میں دیوبندی تکفیری انتہا پسند تنظیم سپاہ صحابہ نام نہاد اہل سنت والجماعت بھی شامل ہے اور یہ مجلس عمل حکومت سے مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت فرقہ وارانہ مواد اور اخۃلاف و انتشار کو ہوا دینے والے لٹریچر پر پابندی لگائے- یہ لوگوں کی آنکھوں میں مرچیں پھینک کر ان کو اندھا کرنے کے مترادف بیان ہے اور اس قسم کے بیانات دیوبندی مکتبہ فکر کی نمائندہ تںظیموں کی جانب سے آنے کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ وہ دھشت گردوں اور انتہا پسندوں کی شناخت پر پردہ پڑے رہنے کے خواہش مند ہیں
سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ” مدرسہ اصلاحات ” اور مدارس کی ریگولیشن کی مخالفت صرف دیوبندی مدرسوں کی تنظیم وفاق المدارس اور دیوبندی مذھبی سیاسی تنظیموں کی طرف سے ہورہی ہے جبکہ سنّی صوفی اور بریلوی مدرسوں کی تںظیم ” تنظیم المدارس ” اور ” شیعہ وفاق المدارس ” اور اہل حدیث مدرسہ بورڑ ” نے اس ریگولیشن کی کوئی مخالفت نہیں کی ہے اور سنّی صوفی تںظیموں نے تو صاف صاف کہا ہے کہ حکومت کو فی الفور ایسے مدرسوں کے خلاف کاروائی کرنا چاہئيے جن مدرسوں کے بارے میں مکمل ثبوت موجود ہیں انتہا پسندی اور دھشت گردی میں ملوث ہونے کے
وفاق المدارس سمیت دیوبندی تنظیموں کے اتحاد پر مبنی تںطیم ” مجلس علمائے اسلام ” کا موقف اگر ٹھیک ہوتا کہ حکومت مدارس دینیہ یا اسلام کے بارے کوئی برے ارادے رکھتی ہے تو ” اتحاد تنظیمات المدارس ” غیر فعال نہ ہوتا اور اس پلیٹ فارم پر شیعہ ، صوفی سنّی مدارس کی تںطیمیں مشرف دور میں وفاق المدارس کی اتحادی بنی تھیں ساتھ نا ہوتیں؟ یہ شیعہ ، اہل حدیث اور صوفی سنّی مدارس کی تنظیمیں اگر اتحاد تںظیمات المدارس سے الگ ہوئی ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاق المدارس اور دیوبندی تںظیمیں اپنی تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے والے مدارس اور لوگوں کو اپنی صفوں سے خارج کرنے پر تیار نہیں ہیں
دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کا نام لیے بغیر اور ان کو اپنی صفوں سے خارج کرنے کا اعلان کئے بغیر اور ان مدارس سے وفاق المدارس کا الحاق ختم کئے بغیر جو انتہا پسندی اور دھشت گردی میں ملوث ہیں سانحہ پشاور جیسے واقعات کی مذمت منافقت اور دھوکہ دہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور دیوبندی ملائيت اور ان کی سیاسی و مذھبی قیادت اس منافقت میں سر سے پیر تک لتھڑی ہوئی ہے
پاکستان سول سوسائٹی فورم سمیت پاکستان کی مجموعی سول سوسائٹی کی نامور لبرل اور انسانی حقوق کی تںطیمیں اور بڑے بڑے نام ” غلط قسم کی غیر جانبداری ” کی بیماری میں مبتلا ہیں ، وہ جب مدرسہ اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو کسی جگہ بھی یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ جن مدارس اور تںظیموں کے ابتک خودکش بم دھماکوں، منظم دھشت گردی کے حملوں کے ٹھوس ثبوت میسر آئے وہ سب کے سب دیوبندی کتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور پاکستان میں کوئی ایک شیعہ یا صوفی سنّی مدرسہ ایسا نہیں ہے جس کے خود کش حملوں ، ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا ثبوت ملا ہو ،یا پاکستان کے اندر دھشت گردی میں ملوث دھشت گردوں نے ان مدرسوں میں قیام کیا ہو یا ان مدرسوں سے لاجسٹک سپورٹ ملی ہو
ابتک آئی ایس پی آر کے اعدادوشمار کے مطابق 3000 سے زائد انٹیلی جنس بینادوں پر شہروں اور دیہاتوں میں آپریشن کئے گئے اور ایک بھی آپریشن کسی شیعہ یا سنّی یا اہل حدیث مدرسے یا تںطیموں کے خلاف نہیں تھا اور انٹیلی جنس رپورٹوں سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے اندر ” جہاد و قتال ” کے ساتھ نفاز شریعت کی مہم چلانے والی تمام تںطیميں اور دھشت گرد دیوبندی ہیں
ہم پوچھتے ہیں کہ یہ سب حقائق سامنے ہوتے ہوئے دیوبندی ملائيت اور سیاسی مذھبی قیادت اپنی صفوں میں موجود دھشت گردوں اور ان کے مددگاروں اور ہمدردوں کی موجودگی سے انکاری کیوں ہے ؟ اور ان کے اس انکار کا کیا مطلب لیا جائے ؟
دوسرا سوال ہم لال مسجد کے عزیز کے خلاف مہم چلانے والے جبران ناصر، مشرف زیدی، بینا سرور سمیت ان سب لوگوں سے کرتے ہیں کہ وہ دیوبندی تکفیری دھشت گردی کے بارے میں گول مول موقف کیوں اپنائے ہوئے ہیں جو دھشت گردوں کے ہمدردوں کے سماجی مقاطعہ کی مہم کے علمبردار بنے ہوئے ہیں آج ان کی مہم کو شروع ہوئے دو ہفتے ہونے آئے ہیں لیکن انھوں نے ابتک فوکس صرف لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز پر رکھا ہوا ہے جبکہ انھوں نے اس وقت تک ایک بھی مظاہرہ سپاہ صحابہ ” اہل سنت والجماعت ” کے کسی ایک ضلعی ، صوبائی یا مرکزی دفتر کے سامنے منظم نہیں کیا – کراچی میں ناگن چورنگی کی دیوبندی مسجد صدیق اکبر ہر لحاظ سے لال مسجد سے بد تر ہے اور اورنگزیب فاروقی کی سرپرستی میں ہر مہینے درجنوں شیعہ اور سنی صوفی سندھ میں قتل ہو رہے ہیں، اس پر خاموشی کیوں؟
جبران ناصر اور سول سوسایٹی کے دیگر افراد کی طرف سے ابتک لدھیانوی ، اورنگ زیب فاروقی ،خادم ڈھلوں، رمضان مینگل، ملک اسحاق سمیت سپاہ صحابہ اہلسنت والجماعت کے سماجی مقاطعہ کی کوئی تصویری ایڈ یا پیغام دیکھنے کو نہیں ملا ہے، اس کا کیا مطلب لیا جائے ؟ فیس بک پر جبران ناصر صاحب نے کہا ہے کہ وہ دیوبندی، شیعہ اور سلفی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، غلط غیر جانبداری کی اس سے زیادہ قبیح مثال نہیں ملے گی – پینتالیس ہزار سے زائد سنی صوفی اور بائیس ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں کے قاتل تکفیری دیوبندیوں کا مقابلہ مظلوم شیعہ اور سنی سے؟
دھشت گردی اور فرقہ پرستی کے دو بڑے مرکز فکری اعتبار سے ہیں ، ایک جامعہ بنوریہ ہے اور دو سرا اورنگ زیب فاروقی کا مدرسہ ہے لیکن کراچی میں احتجاج ” ادارہ نور حق ” جماعت اسلامی اور لال مسجد کے خلاف تو ہورہا ہے لیکن اہلسنت والجماعت اور بنوریہ کو ںظر انداز کیا جارہا ہے ، سول سوسائٹی کے جغادریوں کا یہ کاسمیٹک احتجاج سماجی بنیادوں سے محروم ہے اور اس کا حقیقی ہدف جو ہونا چاہئيے وہ بھی نہیں ہے اور یہ دیوبندی تکفیری دھشت گردی کے ایک مربوط و منظم نیٹ ورک اور اس کی مربوط فکری شناخت کے وجود سے انکار کی علامت بھی ہے اور مذھبی فایشزم کی جڑ ک چھوڑ کر اس کی شاخوں کو کاٹنے کے مترادف بھی ہے
اس لیے ہم دھشت گردی کی مبہم ، گول مول اور بغیر خاص کئے عمومی مذمت کو منافقت کہتے ہیں اور دیوبندی ملائيت اور سول سوسائٹی کے جعلی و کاغذی شیروں کی اس منافقت کا پول کھول رہے ہیں تاکہ سادہ لوح لوگ ان کے دھوکے میں نہ آئیں
جب تک دیوبندی علما اور مدارس کھل کر، غیر مشروط طور پر طالبان اور سپاہ صحابہ کی مذمت نہیں کرتے، جب تک اپنی صفوں سے تکفیری خوارج کو نکال باہر نہیں کرتے، جب تک شیعہ مسلمانوں کی تکفیر اور سنی صوفی اور بریلوی مسلمانوں کو بدعتی اور قبر پرست کہنے کے تکفیری فتوے واپس نہیں لیتے، جب تک سپاہ صحابہ اور طالبان کی عذر خواہی اور حمایت سے باز نہیں آتے، پشاور آرمی سکول، داتا دربار لاہور اور کوئٹہ ہزارہ ٹاون جیسے سانحات ہوتے رہیں گے اور ان سانحات کی ذمہ داری دیوبندی مولویوں کے علاوہ جعلی سول سوسایٹی پر بھی عائد ہو گی
http://darsequran.com/index.php/bayanat/mufti-rafi-usmani/1341-saniha-peshawar
http://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2014-12-18/487178#.VJz72ACk
http://nation.com.pk/islamabad/25-Dec-2014/ulema-want-govt-to-come-out-clean-on-action-plan
Fazl opposed to military courts, but ready for rethink
Kalbe Ali
Dawn, 26 Dec 2014
ISLAMABAD: “We are opposed to establishment of military courts in principle – but we are prepared to explore possibilities in this regard that are within the constitutional ambit,” Maulana Fazlur Rehman, chief of his own faction of the Jamiat Ulema-i-Islam (JUI-F), said on Thursday.
Speaking at an ulema conference jointly organised by his party and Wafaqul Madaris al Arbia – the body responsible for overseeing the affairs of seminaries affiliated with the Deobandi school of thought – the JUI-F leader lauded the army’s role in the fight against terrorists. However, he warned that this fight should not in any way undermine democracy in the country.
“We recognise that the army has a key role in the war against terrorism, but we cannot support handing over the reins of the country to the army chief for two years,” he said.
JUI-F, Wafaqul Madaris and ASWJ deplore anti-madressah sentiment
Mr Rehman supported the decision to end the moratorium on the death penalty, but warned that authorities were disorganised and past governments had inconsistent policies when it came to dealing with terrorism.
The conference seemed to be an effort to counter policy statements issued by the government. Interior Minister Chaudhry Nisar Ali Khan had implicitly conceded at a recent press briefing that at least 10 per cent of madressahs had some sort of links with terrorist groups and in his address to the nation on Wednesday night, the prime minister also stressed the need to register and regulate religious schools.
The JUI-F chief stressed that madressahs were not involved in terrorism and said that a recent accusations against seminaries were “part of an international conspiracy against Islamic religious schools”.
“These madressahs have produced about 200,000 to 300,000 religious scholars. All of them can’t be declared terrorists,” he said. “Even I obtained my education at a madressah, but does that mean someone can call me a terrorist,” he asked, rhetorically.
But he did say that if a seminary was found to be involved in supporting terrorist networks, the government should allow religious organisations such as the Wafaqul Madaris to act against them.
Other speakers at the conference, hailing from various Deobandi groups, also denied allegations levelled against seminaries, saying that those blaming madressahs for supporting terrorists were only trying to please America and the West.
The speakers included leaders from the JUI-F, Wafaqul Madaris al Arbia and other allied groups. But conspicuous by their presence were members of the proscribed Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ), formerly known as the Sipah-i-Sahaba Pakistan.
Traditionally, the ASWJ has been closer to the JUI’s Samiul Haq faction, and has also had differences with Mr Rehman over his role in the 2007 Lal Masjid operation.
But nearly all those present expressed profound grief and sorrow over the Peshawar tragedy.
Mohammad Hanif Jalandhri, secretary general of the Wafaqul Madaris, also called on the government to hang those who had killed clerics and seminary students.
He also demanded action against international NGOs and educational institutions with foreign links and warned that any decisions made by the government unilaterally would not be accepted by the madressahs.
It was telling, however, that none of the speakers attempted to defend the controversial Lal Masjid cleric Abdul Aziz, nor did he show up at the gathering, which was attended by most other prominent Deobandi ulema.
Dr Khadim Hussain Dillo, central secretary of the banned ASWJ, claimed that his party had always stood for the safety and security of Pakistan. “Even though scores of our workers and office bearers have been killed, we have never resorted to violence and arson,” he said.
He even went as far as to say that his party wanted to eliminate the mindset that had sparked differences between Shias and Sunnis.
Published in Dawn, December 26th, 2014
http://www.dawn.com/news/1153257/fazl-opposed-to-military-courts-but-ready-for-rethink
what about Dr Amir Liaqat ? is he too kharji ?
APPEAL, APPEAL, APPEAL ASIF ALI ZARDARI AUR SINDH GOVERNMENT SE APPEAL:
DISTRICT COUNCIL ALL SINDH KE EMPLOYEES SALLARY AUR PENSION NA MILNE KI WAJHA SE GUZISHTA 4 SAAL SE FAKAQASHI KI ZINDAGI GUZAR RAHEE HAIN KHUDARA, LOCAL GOVERNMENT KE SALARRY, PENION ONLINE KARWAEN, DISTRICT COUNCIL LARKANA KE EMPLOYEES KO 4 SAAL KE SALLARY AUR PENSION KE PESSE JALD AS JALD DO.
HUMBLE REQUEST TO ASIF ALI ZARDARI SB AND BILAWAL BHUTTO SB. Please Local government ke employees ki sallary online karwao Trasury se jesse Sindh ka her Idara ha.
District Council Larkana ke senior clerk Ghulam sarwar abbasi jis ko PPP Government main 4 saal ke salary na milne ke waja se aj 10-12-2014 intqal kar gya ina-lilah-wa-ina-illeh-rajoon jis ke lash lekar employees ne ahtjaj bhi kia, lakin koi farak nahe para kisi bhi hukmaran pr. KHUDARA KHUDARA KHUDARA BIBI KE KHOON SE WAFADARI KARO USKE MISSION KA KIYA HOGA.