سولہ کروڑ میں بیچ دی تاریخی بلڈنگ اس ستم ظریف نے – عامر حسینی
صبح جب میں لاہور سے واپس آنے لگا تو نہ جانے کیسے اسے خبر ہوگئی اور وہ گاڑی لیکر اس ڈربے میں آن پہنچا ،جہاں میں چهپا ہوا تها ،اصل میں میں ایک ایسے نوجوان کے پاس ٹهہرگیا تها ،جسے اس کے ہم جماعت پکهی واس کہتے ہیں ، اس نوجوان نے ان دنوں ایک ایسی ورکشاپ میں ڈیرہ لگایا ہوا تها ،جہاں پینا فلیکس وغیرہ کا کام کرنے والے نوجوان مزدوروں کا ہجوم تها ، یہی ان کے کام کی جگہ اور یہی ان کی شب بسری کا ٹهکانہ تهی
آج لاہور شہر میں جتنے پینا فلیکس اور ہورڈنگ لٹکے نظر آتے ہیں ،ان میں سے اکثر یہی نوجوان مزدور لگاتے ہیں اور یہ دور دراز کے اضلاع کے انتہائی غریب علاقوں سے آئے ہوئے تهے اور ہمارا پکهی واس نوجوان بهی وہیں ان کے درمیان دو مہینے سے بسیرا کئے ہوئے تها ، ویسے وہ ڈویلپمنٹ جرنلزم میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کررہا ہے
اس صبح وہ شاید ہسپتال میں نائٹ ڈیوٹی پر تها ، صبح ڈیوٹی سے فارغ ہوکر سیدها اسی ورکشاپ میں چلا آیا اور جس کمرے میں “ٹوٹ پهوٹ ” کو پوسٹ کررہا تها ،اس میں ایک طرح سے اس نے چهاپا ماردیا ، میں نے اس کی طرف ایک نظر دیکها اور پهر “ٹوٹ پهوٹ ” لکهنے میں مصروف ہوگیا ، اسے پتہ تها کہ جب میں اتنے انہماک سے کی پیڈ کے ساته مصروف ہوتا ہوں تو مداخلت برداشت نہیں کرتا
وہ خاموشی سے میرے سامنے چوکڑی مارکر بیٹه گیا ، میرے سامنے پڑی گولڈ لیف کی ڈبی کو اس نے اٹهایا اور اس میں سے ایک سگریٹ سلگالی اور رین ، رین دهوئیں کے مرغولے چهوڑنے لگا میں جب پوسٹ کرچکا تو اسے کسی قدر ناراضگی سے دیکهنے لگا اور ساته ہی سوئے پکهی واس کو جگاکر پوچهنے لگا یہ تم نے کیا کیا ، کہا تها نا کہ کسی کو مت خبر کرنا پکهی واس نے بے بسی سے ، معصوم سی صورت بناکر کہا بهائی جان میں نے تو کسی کو نہیں بتایا وہ درمیان میں بول پڑا ، عامر بهائی ! اس نے نہیں مجهے بتایا
کل جب آپ نیلا گنبد کے پاس بڑی بےگانگی سے میرے پاس سے گزر گئے ، میں نے آواز بهی دی ، لیکن آپ نے نہیں اللہ معاف کرے ، اس قدر وحشت تهی آپ کے چہرے پر ، میں آپکے پیچهے جاکر آپ کو روکنے کی ہمت نہیں کرسکا ، بس زرا فاصلہ رکهکر آپ کا تعاقب کیا ، آپ نے تو اسقدر پیدل سفر کیا کہ میں تهکن سے چور چور ہوگیا تها ، آپ ارشد کی ورکشاپ میں داخل ہوئے اور میں نے پکهی واس کو دیکها تو سمجه گیا کہ آپ کہاں چهپے بیٹهے ہیں تو واپس چلا آیا کیونکہ ڈیوٹی کا وقت ہورہا تها ، ڈیوٹی کرتے ہی آپ کی طرف آگیا میں اب اسے کیا بتاتا کہ کل کس ٹرانس میں تها اور کیا قیامت تهی جو کل مجه پر گزرگئی تهی میں نے اسے بتایا کہ آج میں جارہا ہوں ، بس مجهے مال روڈ سے کچه کتابیں خریدنی ہیں
اس نے کہا کہ عامر بهائی ! آپ میرے ساته چلیں ، جو لینا ہے لے لینا ، پهر آپ کو بس ٹرمینل پر چهوڑ دوں گا مجهے پتہ تها کہ اب اس سے جان نہیں چهٹے گی ، اس کے ساته گاڑی میں بیٹها اور مال روڈ پر ہم آگئے ، گاڑی سے اترے اور ریگل چوک کراس کرکے میں سب سے پہلے اس بلڈنگ کی طرف بڑها جہان وین گارڈ بکس شاپ ہوا کرتی تهی اور میں تین عشروں سے وہاں سے کتابیں خرید رہا تها ، میں جب اس عمارت کے سامنے پہنچا تو سامنے دکان کے تین شٹرز پر تالے پڑے تهے ، میں سمجها کہ یہ ابهی کهلی نہیں ہوگی تو میں آغا امیر حسین کی دکان کلاسک کی طرف بڑه گیا ، اوپر والے فلور پر جہاں اب کلاسک بنی ہوئی ہے آغا صاحب کا فرزند کهڑا تها ،کیونکہ نچلی منزل کو تو اب مٹهائیوں کی دکان میں بدل دیا گیا ہے، میں نے چهوٹے آغا سے پوچها
کہ وین گارڈ کیا دیر سے کهلتی ہے ؟
چهوٹے آغا نے کہا حسینی بهیا ! لگتا ہے آپ یہاں کے معاملات سے خآصے بے خبر ہیں ، وین گارڈ والی پراپرٹی تو 16 کروڑ میں کب بهی بیچی جاسکی ، 16 کروڑ بینک میں فکس ہوں تو سولہ لاکه منافع ملتا ہے اور اتنی کمائی کب کتابوں سے ہوتی ہے میں نے کہا آغا کیا نجم سیٹهی کی ہوس زر کا کوئی ٹهکانہ نہیں ہے ؟ اسے دولت کی کمی ہے ، نواز شریف کے دستر خوان سے ہی اسے اتنا کچه مل رہا تها کہ اس تاریخی دکان کو بیچنے کا جواز نہیں بنتا تها
چهوٹے آغا نے برجستہ کہا حسینی بهیا ! نواز شریف کی کمپنی میں بیٹهنے والوں کو تاریخ ، ثقافت اور علم سے الرجک ہونا لازم ہوتا ہے ، نواز شریف سمیت جتنے بهی ضیاء کے بچے تهے ان کو تاریخ ، ثقافت اور علم سے دشمنی ورثے میں ملی اور وہ اس چهوت کی بیماری کو دوسروں کو بهی لگاتے ہیں میں سوچنے لگا کہ چهوٹا آغا بات تو ٹهیک کررہا ، یہ معتدی بیماری نجم سیٹهی ، ملیحہ لودهی ، عاصمہ جہانگیر ، امتیاز عالم ، ماروی سرمد ، عابد حسن منٹو ، رسول بخش پلیجو کو لگی اور سب کا سیکولرازم ، لبرل ازم ، جہموریت پسندی ایک فراڈ بن گئی
نجم سیٹهی کا دعوی تها اور جب تک وین گارڈ بکس شاپ موجود تهی وہ ٹهیک بهی تها کہ وہ آسانی سے دنیا بهر کا انگریزی میں چهپنے والا ادب ، تاریخ ، سیاست اور معشیت پر لٹریچر پڑهنے والوں کو فراہم کررہا ہے اور یہ بظاہر گهاٹے کا سودا ہے جو وہ کئے جاتا ہے ، یہ کیا کہ آج جب اس کے پاس پیسا اور آسائش 70ء اور 80ء کی دهائیوں سے زیادہ تهیں تو اس نے اتنی بری تاریخی دکان کو 16 کروڈ کے عوض فروخت کردیا
امتیاز عالم سے ملوانے کے لئے ایک کامریڈ اپنے بیٹے کو لے گئے تهے تو امتیاز عالم نے اسے ” پیسے بنانے کا مشورہ دیا ” وہ کامریڈ دنگ رہ گیا عابد حسن منٹو اپنے نوجوان شاگرد وکیلوں کو سیاست سے دور رہنے اور کرئیر پر دهیان دینے کی نصحیت کرتے نظر آئے اور اب جب خود پیرانہ سالی میں پہنچے اور اپنی وکالت کی جاگیر اپنے بیٹے کو سونپ دی تو اس مرتبہ ورکرز پارٹی کی کانگریس میں انہوں نے وکالت چهوڑنے اور کل وقتی سیاست کرنے کا اعلان کرڈالا ، میں انهیں عمر کے نویں عشرے میں داخل ہونے پر فل ٹائم سیاست کی نوکری کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں
میرے ایک دوست نے چند دن پہلے ٹوئٹ کیا تها کہ عاصمہ جہانگیر جعلی لبرل ہے میں نے اس کے جواب میں کہا تها کہ عابد منٹو اور عاصمہ کے لئے صرف جعلی لبرل کا لقب خاصی رعائت ہے ، یہ تو ” مہا جعلی لبرل ” ہیں جس کے بعد ڈگری ختم ہوجاتی ہے چهوٹے آغا نے مجهے بتایا کہ ابتک مال روڈ سے پانچ کے قریب انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل پرانے کتاب گهر غائب ہوگئے ہیں اور یہ میرے لئے کسی دهچکے سے کم نہیں تها ، میں آزرودہ اور دلگیر ہوکر کلاسک سے باہر نکل آیا اور مرے دماغ میں چهوٹے آغا کی کہی بات گردش کررہی تهی وین گارڈ والی پراپرٹی سولہ کروڑ کی بکی ہے اور یہ رقم اگر بینک میں فکس کرائی جائے تو سولہ لاکه روپے منافع ملتا ہے اور اتنی کمائی کتابوں سے کب ہوتی ہے
Not the people u name are fake liberals, but real liberals r only live in workshops, no body bother to remember their sincere activities. It is no more fashion to be live like Ustad Daman. Empty stomach, empty hands cant impact on people my experience to watch them since 1970 NSO, NSF, PSF and my favorite book of that time Aag ka Darya to quote everywhere. Chotay Agha sahab is very right. What ever they r now is better for them. Otherwise left liberals will remember them with 25 people wast gathering on tea party at Mcleod Road, Lahore for nothing.