عزاداری اور تعزیہ داری میں ہندو بھی پیش پیش
ایڈیٹر نوٹ : ایک طرف نام نہاد مسلمان تکفیری دیوبندی اور تکفیری وہابی محرم کے جلوسوں کو پابند کر کے یاد مظلوم امام حسین (ع) کو روکنا چاہتے ہیں وہاں دوسری جانب ہندو امام مظلوم کی یاد منا کر اور عزاداری میں شریک ہو کر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امام حسین (ع) صرف مسلمانوں کے نہیں ہر با ضمیر اور با غیرت انسان کے امام ہیں
محرم یوں تو مسلمانوں سے مخصوص ہے لیکن بھارت میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس غم میں شریک ہوتے ہیں۔
بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کے سنبھار علاقے میں سرسوں کا تعزیہ ہر عاشورہ کے موقعے پر برسوں سے ہندو مسلم ہم آہنگی کی علامت بنا رہا ہے۔ یہ تعزیہ ایک ہندو خاندان نکالتا ہے۔
صحافی آبھا شرما کے مطابق ریاستی دارالحکومت جے پور سے تقریباً 80 کلومیٹر دور واقع اس قصبے میں رنگین پنّيوں اور خوبصورت جھالروں سے سجے تعزیوں کے درمیان سرسوں کی تازہ اور سوندھي خوشبو والا یہ تعزیہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔
حاجی فضل اللہ خان 75 برس کے ہیں اور بچپن سے ہی اس تعزیے کی روایت دیکھ رہے ہیں۔ وہ اسے ہندو مسلم یکجہتی کی ’بہترین مثال‘ مانتے ہیں۔ ہندو اور مسلم دونوں ہی اس موقعے پر تقسیم کیے جانے والے تبرک کو شوق سے لیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اس میں بہت عقیدت ہے اور ہندو عورتیں بطور خاص اپنے بچوں کی سلامتی اور صحت کے لیے انھیں اس تعزیے کے نیچے سے نکالتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ روایت قصبے کے ایک ہندو اگروال كيال خاندان کی طرف سے بنجاروں کے پیر و مرشد کی وجہ سے کاروبار میں برکت اور اولاد کی منت پوری ہونے کے بعد اظہارِ تشکر کے طور تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے شروع کی گئی تھی۔
سرسوں کا تعزیہ آج بھی بنجاروں کی مسجد میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔
كيال خاندان کے دوارکا پرساد گوئل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرسوں کی ہریالی ہندو مسلم بھائی چارے کی علامت ہے۔‘
سرسوں کا تعزیہ ان کے خاندان کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔ اسے بنانے کے لیے پہلے بانس کی لکڑیوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا ہے اور پھر سرسوں کے دانوں کو گیلی روئی میں رکھ کر اس پر لپیٹا جاتا ہے۔
اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک شخص ہمہ وقت تعینات رہتا ہے جو تعزیے پر مسلسل پانی کا چھڑكاؤ کرتا رہتا ہے۔
محرم کے دن کربلا کے لیے روانگی سے قبل كيال خاندان کی طرف سے تعزیہ بنانے والے بابو بھائی بنجارہ کے خاندان اور مسجد کے مولوی کو دستار پیش کی جاتی ہے اور تعزیے کے چوک پر آنے کے بعد پیسے اور کوڑیاں لٹائی جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ ان سکوں کے تعویذ بنوا کر اپنے بچوں کے گلے میں ڈالتے ہیں۔
تعزیے پر سرسوں کتنی پھولی ہے اور رنگ کیسا کھلا ہے، اس سے لوگ فصل کیسی ہوگی، اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے صحافی اتل چندر بتاتے ہیں کہ وہاں شیعہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے محرم کا مہینہ پورے مذہبی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ قدیم لکھنؤ کے امام باڑے اور كربلا میں ماتمی ماحول نظر آتا ہے۔
لکھنؤ کے محرم کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اس میں ہندو بھی حصہ لیتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہندو خاندان ہیں جو محرم میں اسی عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے ہیں جیسے کوئی شیعہ کرتا ہے۔ ان میں کئی تو برہمن خاندان ہیں جو اب ’حسینی برہمن‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
نرہی محلے کے رمیش چند اور ان کے بیٹے راجیش اپنے گھر میں تعزیہ رکھتے ہیں اور حضرت عباس کے نام پر علم بلند کرنے کی تیاری میں ہیں۔ رمیش چند ہندو تہوار بھی مناتے ہیں لیکن ان کا حضرت عباس پر پختہ یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’ہم مرتے دم تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔‘
رمیش سابق فوجی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ تعزیہ دفنانے کے لیے تال کٹورہ کے کربلا جائیں گے تو ان کے سسرال اور محلے کے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔
وہ گذشتہ 15 سال سے محرم منا رہے ہیں۔ رمیش کہتے ہیں کہ ان کے محلے میں تقریباً 50 ہندو خاندان ہیں اور وہ سب تال كٹورہ تک جائیں گے۔ رمیش کہتے ہیں: ’ان میں سے کسی کو ہمارے محرم منانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘
ہریش چندر دھانوک بھی ہندو ہیں اور انھیں عزاداری اور تعزیوں میں زبردست یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’بھیا ہمارے یہاں 1880 سے تعزیے اور عزاداری کی رسم چلی آ رہی ہے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/11/141104_india_hindu_ashura_muharram_mb‘
سندھ کے ہندو عزادار
گزشتہ ایک عشرے میں پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد بھی بڑھا ہے۔ لیکن صوبہ سندھ میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں یہ عشرہ اِتنے امن و امان اور مذہبی ہم آہنگی سے منایا جاتا ہے کہ اِس میں صرف مسلمان ہي نہیں بلکہ ہندو عقیدت مند بھی شریک ہوتے ہیں۔ عمرکوٹ سے ریاض سہیل کی رپورٹ۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2014/11/141104_hindu_riaz_kq