شہادتِ حضرت عثمانؓ: مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت سے ایک اقتباس
ہم اس پوسٹ میں مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت سے ایک مختصر اقتباس پیش کر رہے ہیں، مولانا مودودی نے بہت بالغ نظری کے ساتھ اس حساس لیکن اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اگرچہ کہ آپ نے تاریخی حقائق پیش کیے ہیں، مگر اس پر ہی ان پر کفر کے فتوے لگ گئے۔
مولانا مودودی رقمطراز ہیں
شورش کے اسباب
لوگوں کو اپنی شرارت میں کامیابی صرف اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ اپنے اقرباء کے معاملے میں حضرت عثمانؓ نے جو طرزِ عمل اختیار فرمایا تھا اس پر عام لوگوں ہی میں نہیں بلکہ اکابر صحابہ تک میں ناراضی پائی جاتی تھی۔ اسی سے ان لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور جو کمزور عناصر انہیں مل گئے ان کو اپنی سازش کا شکار بنا لیا۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ فتنہ اٹھانے والوں کو اسی رخنے سے اپنی شرارت کے لیے راستہ ملا تھا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ:
وکان الناس ینقمون علی عثمان تقریبہ مروان و طاعتہ و یرون ان کثیرا مما ینسب الی عثمان لم یامربہ و ان ذالک عن رای مروان دون عثمان جکان الناس قد شنقو العثمان لما کان یصنع بمروان و یقربہ۔(حوالہ: طبقات، جلد ۵، صفحہ ۳۶)
“لوگ حضرت عثمانؓ سے اس لیے ناراض تھے کہ انہوں نے مروان کو مقرب بنا رکھا تھا اور وہ اس کا کہا مانتے تھے۔ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ بہت سے کام جو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کا حضرت عثمانؓ نے خود کبھی حکم نہیں دیا بلکہ مروان انس سے پوچھے بغیر اپنے طور پر وہ کام کر ڈالتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ مروان کو مقرب بنانے اور اس کو یہ مرتبہ دینے پر معترض تھے۔”
ابن کثیر کا بیان ہے کہ کوفہ سے حضرت عثمانؓ کے مخالفین کا جو وفد ان کی خدمت میں شکایات پیش کرنے کے لیے آیا تھا اس نے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ جس چیز پر اعتراض کیا وہ یہ تھی:
بعثوا الی عثمان من نیاظرہ فیما فعل و فیما اعتمد من عذل کثیر من الصحابۃ و تولیہ جماعۃ من بنی امیہ من اقربائہ و اغلظوالہ فی القول و طلبوا منہ ان یعزل عمالہ و یستبدل ائمۃ غیرھم (حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ۷، صفحہ ۱۶۷)
“انہوں نے کچھ لوگوں کو حضرت عثمانؓ سے اس امر پر بحث کرنے کے لیے بھیجا کہ آپ نے بہت سے صحابہ کو معزول کر کے ان کی جگہ بنی امیہ میں سے اپنے رشتہ داروں کو گورنر مقرر کیا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ سے بڑی سخت کلامی کی اور مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو معزول کر کے دوسروں کو مقرر کریں۔”
آگے چل کر حافظ ابن کثیر پھر لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار جو اُن کے مخالفین کے پاس تھا، وہ یہی تھا کہ:
ما ینقمون علیہ من تولیتہ اقرباہ وذوی رحمہ و عزلہ کبار الصحابۃ فدخل حذا فی قلوب کثیر من الناس (حوالہ: البدایہ، جلد ۷، صفحہ ۱۶۸)
“حضرت عثمان نے اکابر صحابہ کو معزول کر کے اپنے رشتہ داروں کو جو گورنر بنایا تھا اس پر وہ اظہارِ ناراضی کرتے تھے اور یہ بات بکثرت لوگوں کے دلوں میں اُتر گئی تھی۔”
طبری، ابن اثیر، ابن کثیر اور ابن خلدون نے وہ مفصل گفتگوئیں نقل کی ہیں جو اس فتنے کے زمانے میں حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کے درمیان ہوئی تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ مدینے میں جب حضرت عثمانؓ پر ہر طرف نکتہ چینیاں ہونے لگیں اور حالت یہ ہو گئی کہ چند صحابہ (زید بن ثابت، ابو اسید الساعدی، کعب بن مالک، اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم) کے سوا شہر میں کوئی صحابی ایسا نہ رہا جو حضرتِ والا کی حمایت میں زبان کھولتا۔
[نوٹ: اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مدینہ میں ایسی ہی حالت پیدا ہو گئی تھی تو جب مصر سے آنے والے سازشیوں کو سمجھانے اور فساد سے باز رکھنے کے لیے حضرت عثمان نے حضرت علیؓ کو بھیجا تھا اُس وقت مہاجرین و انصار میں سے تیس بزرگ کیسے اُن کے ساتھ چلے گئے؟ لیکن یہ اعتراض اس لیے غلط ہے کہ عمائدِ قوم کا خلیفہ وقت کی کسی خاص پالیسی کو ناپسند کرنا اور چیز ہے اور خلیفہ کے خلاف شورش برپا ہوتے دیکھ کر اُسے روکنے کی کوشش کرنا دوسری چیز۔ نکتہ چینی کرنے والے لوگ اگر تنقید کرتے تھے تو اصلاح کے لیے کرتے تھے۔ ان کو حضرت عثمان ؓ سے دشمنی نہ تھی کہ ایک سازشی گروہ کو ان کے خلاف فتنہ برپا کرتے دیکھ کر بھی خاموش بیٹھے رہتے اور اُسے من مانی کرنے دیتے۔]
تو لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہ اکر آپ حضرت عثمانؓ سے مل کر ان معاملات پر بات کریں۔ چنانچہ وہ ان کی خدمت میں تشریف لے گئے اور اُن کو وہ پالیسی بدل دینے کا مشورہ دیا جس پر اعتراضات ہو رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو میں نے عہدے دیے ہیں اُنہیں آخر عمر ابن الخطابؓ نے بھی تو عہدوں پر مامور کیا تھا، پھر میرے ہی اوپر لوگ کیوں معترض ہیں؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا “عمرؓ جس کو کسی جگہ کا حاکم مقرر کرتے تھے، اس کے متعلق اگر انہیں کوئی قابلِ اعتراض بات پہنچ جاتی تھی تو وہ بری طرح اس کی خبر لے ڈالتے تھے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے۔ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نرمی برتتے ہیں۔” حضرت عثمانؓ نے فرمایا “وہ آپ کے بھی تو رشتہ دار ہیں۔” حضرت علیؓ نے جواب دیا “ان رحمھم منی لقریبۃ ولکن الفضل فی غیرھم۔” بے شک میرا بھی ان سے قریبی رشتہ ہے، مگر دوسرے لوگ ان سے افضل ہیں۔ حضرت عمثانؓ نے کہا “کیا عمرؓ نے معاویہؓ کو گورنر نہیں بنایا تھا؟” حضرت علیؓ نے جواب دیا “عمرؓ کا غلام یرفا بھی ان سے اُتنا نہ ڈرتا تھا جتنے معاویہؓ ان سے ڈرتے تھے، اور اب یہ حال ہے کہ معاویہؓ آپ سے پوچھے بغیر جو چاہتے ہیں کر گذرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عثمانؓ کا حکم ہے، مگر آپ انہیں کچھ نہیں کہتے۔” (حوالہ: الطبری، جلد ۳، صفحہ ۳۷۷، ابن الاثیر، جلد ۳، صفحہ ۷۶، البدایہ، جلد ۷، صفحہ ۱۶۸، ابن خلدون تکملہ، جلد دوم صفحہ ۱۴۲)
ایک اور موقع پر حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی قربت کا واسطہ دے کر ان سے کہا کہ آپ اس فتنے کو فرد کرنے میں میری مدد کریں۔ انہیں نے جواب دیا ” یہ سب کچھ مروان بن الحکم، سعید بن العاص، عبداللہ بن عامر اور معاویہ کی بدولت ہو رہا ہے۔ آپ ان لوگوں کی بات مانتے ہیں اور میری نہیں مانتے۔” حضرت عثمانؓ نے فرمایا “اچھا اب میں تمہاری بات مانوں گا۔” اس پر حضرت علیؓ انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کو ساتھ لے کر مصر سے آنے والے شورشیوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو واپس جانے کے لیے راضی کیا۔(حوالہ: الطبری، جلد ۳، صفحہ ۲۹۴، ابن الاثیر، جلد ۳، صفحہ ۸۱، ابن خلدون تکملہ جلد دوم، صفحہ ۱۴۶)
اسی زمانہ فتنہ میں ایک اور موقع پر حضرت علیؓ سخت شکایت کرتے ہیں کہ میں معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور مروان ان کو پھر بگاڑ دیتا ہے۔ آپ خود منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر لوگوں کو مطمئین کر دیتے ہیں اور آپ کے جانے کے بعد آپ ہی کے دروازے پر کھڑا ہو کر مروان لوگوں کو گالیں دیتا ہے اور آگ پھر بھڑک اٹھتی ہے۔ (حوالہ: الطبری، جلد ۳، صفحہ ۳۸۹۸، ابن الاثیر، جلد ۳، صفحہ ۳۸، ابن خلدون، تکملہ جلد دوم، صفحہ ۱۴۷)
حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے متعلق بھی ابن جریر نے روایات نقل کی ہیں کہ یہ حضرات بھی اس صورتِ حال سے ناراض تھے۔
[الطبری، جلد ۳، صفحہ ۴۷۷ تا ۴۸۶۔ ان حوالوں کے متعلق ایک صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ غلط ہیں۔ لیکن شاید یہ دعویٰ اس بھروسے پر کیا گیا ہے کہ اُردو داں لوگ اصل کتاب کو دیکھ کر حقیقت معلوم نہ کر سکیں گے۔ تاہم عربی داں لوگ تو اصل کتاب کو دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ ۴۷۷ پر یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جب فرمایا کہ بخدا میں حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ طلب کروں گی تو عبد بن ام کلاب نے کہا، خدا کی قسم سب سے پہلے تو آپ ہی نے ان کی مخالفت کی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا، ” ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ سے توبہ کرا لی تھی، پھر ان کو قتل کر ڈالا۔” اسی طرح صفحہ ۴۸۶ پر بھی یہ عبارت موجود ہے کہ حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے اہلِ بصرہ کے سامنے تقریریں کیں اور ان میں یہ فرمایا کہ “انما اردنا ان یستعتب امیر المومنین عثمان۔۔۔ اس پر لوگوں نے حضرت طلحہؓ سے کہا ‘یا ابا محمد قد کانت کتبک قدتتینا بغیر ھذا۔ حضرت زبیرؓ اس کے جواب میں بولے کہ میرا بھی کوئی خط حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں کبھی تمہارے پاس آیا تھا؟ ان واقعات کو ابن خلدون نے بھی نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو تکملہ جلد دوم، صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۷۔]
مگر ان میں سے کوئی بھی یہ ہرگز نہ چاہتا تھا کہ خلیفہ وقت کے خلاف کوئی شورش یا بغاوت ہو یا ان کے قتل تک نوبت پہنچ جائے۔ طبری نے حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ “انما اردنا ان یستعتب امیر المومنین عثمان ولم برد قتلۃ فغب سفھاء الناس الحلماء حتی قتلوہ” ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ امیر المومنین عثمانؓ کو یہ پالیسی ترک کر دینے پر آمادہ کیا جائے۔ ہمارا یہ خیال ہرگز نہ تھا کہ وہ قتل کر ڈالے جائیں۔ مگر بے وقوف لوگ بردبار لوگوں پر غالب آ گئے اور انہوں نے ان کو قتل کر دیا۔”
یہ تمام واقعات اس امر کی ناقابلِ تردید شہادت بہم پہنچاتے ہیں کہ فتنے کے آغاز کی اصل وجہ وہ بے اطمینانی ہی تھی جو اپنے اقرباء کے معاملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل کی وجہ سے عوام اور خواص میں پیدا ہو گئی تھی، اور یہی بے اطمینانی ان کے خلاف سازش کرنے والے فتنہ پرداز گروہ کے لیے مددگار بن گئی۔ یہ بات تنہا میں ہی نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ اس سے پہلے بہت سے محققین یہی کچھ کہہ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ساتویں صدی کے شافعی فقیہ و محدث حافظ محب الدین الطبری حضرت عثمانؓ کی شہادت کے اسباب بیان کرتے ہوئے حضرت سعید بن المُسیب کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
لما ولی عثمان کرہ ولایتہ نفر من اصحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان عثمان کان یحب قومہ۔ فولی اثنتی عشرۃ حجۃ، وکان کثیرا ما یولی بنی امیۃ ممن لم یکن لہ ضحبۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، و کان یحیی من امراء ہ ما یکرہ اصحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، و کان یستغاظ علیھم فلا یغیثھم، فلما کان فی الستۃ الحجج۔ الاواخر استاثر بنی عمہ فولاھم وامرھم۔۔۔”
“جب حضرت عثمانؓ حکمران ہوئے تو ان کے برسرِ اقتدار آنے کو صحابہ میں سے بعض لوگوں نے اس بنا پر ناپسند کیا کہ وہ اپنے قبیلے سے بہت محبت رکھتے تھے۔ بارہ سال آپ حکمران رہے اور بارہا آپ نے بنی امیہ میں سے ایسے لوگوں کو حکومت کے مناصب پر مقرر فرمایا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت نہ پائی تھی۔ آپ کے امراء سے ایسے کام صادر ہوتے تھے جنہیں رسول اﷺ کے اصحاب پسند نہ کرتے تھے۔ آپ سے ان کی شکایت کی جاتی مگر آپ ان شکایات کو دور نہ فرماتے۔ اپنی حکومت کے آخری ۶ سالوں میں آپ نے اپنے بنی عم کو خاص ترجیح دی اور انہیں حکومت و امارت کے مناصب پر مقرر فرمایا۔۔۔”[حوالہ: الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۴]
حافظ ابن حجر بھی اسبابِ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ پر کلام کرتے ہوئے یہی بات کہتے ہیں:
وکان سبب قتلۃ ان امراء الامصار کانوا من اقاربہ، کان بالشام کلہا معاویہ، و بالبصرۃ شعید بن العاص، و بمصر عبد اللہ بن ابی سرح، و بخراسان عباللہ بن عامر، و کان من حج منھم یشکومن امیرہ وا اکان عثمان لین العریکۃ، کغیر الاحسان و الحلم، ۔۔۔۔۔
“اُن کے قتل کا سبب یہ ہوا کہ بڑے بڑے علاقوں کے حکام ان کے اقارب میں سے تھے۔ پورا شام حضرت معاویہؓ کے ماتحت تھا، بصرے پر سعید بن العاص تھے، مصر پر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے، خراساں پر عبداللہ بن عامر تھے۔ ان علاقوں کے لوگوں میں سے جو لوگ حج پر آتے وہ اپنے امیر کی شکایت کرتے، مگر حضرت عثمانؓ نرم مزاج، کثیر الاحسان اور حلیم الطبع آدمی تھے۔ اپنے بعض امراء کو تبدیل کر کے لوگوں کو راضی کر دیتے اور پھر انہیں دوبارہ مقرر کر دیتے تھے۔۔۔”
[حوالہ: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد ۲، صفحہ ۴۵۵ ]