پینسٹھ کی جنگ میں اقلیتوں کا کردار
پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں عیسائی، ہندو، پارسی ، احمدی اور سکھ بھی اتنی ہی پاکستانی ہے جتنا کہ ایک مسلمان شہری ہے۔ چھ ستمبر1965 کی جنگ میں اقلیتوں کا اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی مسلمان فوجی کا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری نصاب کی کتابوں میں ان کی قربانیوں کا ذکر تک موجود نہیں ہے.اس لئے ہماری نئی نسل ان کی قربانیوں کو بھول گئی ہے.اس لئے ان میں سے بہت سے اقلیتوں کی اس ملک کی وفاداری کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں.حالانکہ اقلیتیں اس ملک کی اتنی ہی وفادار ہیں جتنا کہ ایک مسلمان شہری ہے.اس مضمون میں ہم نے مختصرًا ہم نے پینسٹھ کی جنگ میں اقلیتوں کا کردار کا ذکر کیا ہے۔
مسیحی برادری کا کردار
پینسٹھ کی جنگ میں فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا تھا۔سیسل چودھری 1965 ء اور 1971 ء کی پاک بھارت میں جنگ میں کم ترین وقت میں دشمن کے متعدد طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے قومی ہیرو تھے۔
سیسل چودھری نے 65کی جنگ میں امرتسر کا ریڈار سٹیشن بھی تباہ کیا تھا اور اس جنگ میں ان کی بہترین کارکردگی پر انھیں ستارہ جرات سے نوازا گیا جبکہ 1971ء کی جنگ میں انھیں تمغہ جرات ملا۔
پاک بھارت جنگوں1965 اور1971کےغازی نذیر لطیف کا تعلق راولپنڈی کے کرسچین خانوادے سے تھا۔ اُنہیں بہادری کا تیسرا اعلیٰ ترین اعزاز دو بار عطا کیاگیا۔سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے 1965 کی جنگ میںبی57 طیاروں کے بہادرانہ مشن اُڑانے پر تمغہ جرات کا اعزاز حاصل کیا۔وہ 1971 کی جنگ میں جاں بحق ہوئے۔ اُنہیں ستارہ جرات کا اعزاز دیا گیا۔ونگ کمانڈر میروِن لیزلی مڈل کوٹ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دُشمن کے حملہ آور لڑاکا طیاروں کو شکار کرنے کے صلے میں ستارہ جرات کا اعزاز حاصل کیا۔میرون لیزلی اور پیٹر کرسٹی وہ مسیحی جوان تھے جنہوں نے میدان جنگ میں پاکستان پر اپنی جانیں قربان کیں۔
ائروائس مارشل ایرک گورڈن ہال1965کی جنگ میں گروپ کیپٹن تھے.رن آف کچھ کے محاذ پر برّی فوج کی فوری منتقلی اُن ہی کی کوششوں سے بروقت اور موٗثر ہوئی.اس کے علاوہ اپنی زیر نگرانی ہرکولیس سی ون تھرٹی طیاروں کو بطور بمبار استعمال کروایا اور کامیاب مشن کیے حب الوطنی کے جذبے سے سر شار گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال نے کئی مشن خود بھی سرانجام دئیے جس سے عملے کے اراکین اور ہوابازوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔آپ کی شاندار حربی کاروائیوں کے پیش نظر حکومت پاکستان نے اُنہیں ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا ۔آپ پاک فضائیہ سے ائر وائس مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل جیولین پیٹر نے 1965اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا۔
پارسیوں کا کردار
لیفٹننٹ کرنل میک پسٹن جی سپاری والا نے 1965میں بلوچرجمنٹ کی ایک بٹالین کمان کی۔
احمدیوں کا کردار
پیسنٹھ کی جنگ میں دو احمدیوں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ کو بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے پرہلالِ جرات کا اعزاز ملا تھا۔
کشمیر میں چھمب کی فتح کا کارنامہ انجام دینے والے ایک اور احمدی لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک تھے ۔ یہ ایک بڑی فتح تھی جس کے اعتراف میں آپ کو سب سے پہلے دوسرا بڑا جنگی اعزاز ہلالِ جرأت دیا گیا ۔آپ کے اس عظیم کارنامے کا ذکر مشہور دانشور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے یوں کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک قوم کے ایک ایسے ہیرو تھے جن کا نام پاکستانی بچوں کو بھی یاد ہے ۔ وہ بہادری اور استقامت اور اولو العزمی کی ایک مجسم تصویر بن کر ابھرے اور اہل پاکستان کےذہنوں پر چھا گئے ۔
روزنامہ جنگ کراچی 9ستمبر1969ء صفحہ4
اسکواڈرن لیڈرخلیفہ مینار الدین پاک فضائیہ کے ایک بہادر فائٹر پائلٹ تھے.1965 کے فضائی جنگ کے دوران انہوں نے اپنی زندگی وطن پر قربان کردی.جس پر انہیں ستارہ جرأت دیا گیا۔
دفاع پاکستان میں اقلیتوں کی وطن عزیز کے لیے ایسی بے شمار مثالیں ہیں انہی قربانیوں کے باعث آج ہم اپنے ملک پاکستان میں عزت و آبرو سے آزاد زندگی گزار رہے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قوم اقلیتوں کی قربانیاں کو بھلاچکی ہے اور نصاب کی کتابوں اور میڈیا میں اس کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔
پاکستانی میڈیاپر 1965 کی جنگ کےہیرو جنرل اختر ملک کاذکر شاید ہی کوئی کرےکیونکہ وہ احمدی تھے
Comments
Tags: Defence Day, Minorities
Latest Comments
وہ سب ٹھیک ہے مگر – فی الحال سعودیہ کی نظر ان غلاموں پر ہے جو مفت میں پاکستان سے مل جائیں گے
اور یہ سب اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پاکستان صرف اور صرف وہابی سلطنت ہو.
اور تمام اقلیتوں کو کچل دیا جاۓ کوئی بھی حیثیت نہ ہو. تمام خدمات کی ایسی تیسی کردی جائے – باقی سب اقلیتوں مارا بھی جائے ڈرایا دھمکایا بھی جائے. لشکر جھنگوی آج کل اس کام پر معمور ہے بھی –
مگر جب ایسا ہو جائیگا تو واپسی کا راستہ بہت مشکل ہوگا – پاکستان ایک وہابی ملک بن جاےگا
تو پاکستان میں سعودیہ سے زیادہ پھٹکار برسیگی . کیونکہ پاکستان میں نہ تو اتنا تیل ہے اور نہ ہی مکّہ اور مدینہ جیسے با برکت پر نور شہر ہیں.
تمام سعودیہ میںبھی پھٹکار کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا . حالانکہ بڑا سرمایا لگایا جاتا ہے پھر بھی پھٹکار ہی پھٹکار
نظر آتی ہے سواے مکّہ اور مدینہ کے
. انڈیا اور امریکہ میں ترقی اس لیے ممکن ہوئی کہ وہاں مختلف قسم کے لوگوں میں ایک مثبت مقابلے کی فضا بر قرار ہے . مگر افغانوں اور پٹھانوں کو پتھروں کا زمانہ ہی پسند ہے وہ اسی وہابی پھٹکار میں خوش ہیں.
اب بس اس بات کی دیر ہے کہ کب پنجابیوں کی اکثریت اس پھٹکار پے راضی ہوتی ہے
Totally agree with brother Tariq Khan.