پارلیمنٹ عوام کی کب بنے گی؟ – از ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
پارلیمنٹ کا یہ رویہ بھی کسی پریشر کا نتیجہ ہے مگر وزیراعظم کی حمایت میں ناراضگی بھی تھی۔ اعتزاز احسن نے کمال کر دیا۔ وہ پہلی تقریر تھی اور پہلے نمبر کی تقریر تھی۔ پہلی تقریر تو چودھری نثار کی تھی مگر وہ تو وزیرداخلہ کی تقریر تھی۔ چودھری نثار کو بار بار اور برابر نواز شریف پرچیاں دیتے رہے جیسے امتحان میں بوٹی دی جاتی ہے جب وزیرداخلہ نے ”مخصوص میڈیا“ کی بات کی تو وزیراعظم نے کہا کہ جیو کا نام لو۔ اس کی تعریف کرو مگر وزیر داخلہ نے یہ بات سنی ان سنی کر دی۔ چودھری نثار نے کہا کہ اب خاموشی ایک گناہ ہو گی۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا یہ گناہ صغیرہ ہو گا یا گناہ کبیرہ ہو گا۔ جو آدمی وزیر بن جاتا ہے بلکہ ممبر اسمبلی بن جاتا ہے وہ گناہ صغیرہ تو کرتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے والوں میں دہشت گرد شامل ہیں۔ یہ بات میں نے چند دن پہلے کالم میں لکھ دی تھی۔ اب مجھے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے ترجمان اور نمائندے پارلیمنٹ کے اندر بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر لوگ اعتزاز اور جاوید ہاشمی کی بات سن رہے تھے جیسے وہ بھی دھرنے میں بیٹھے ہوں۔
جاوید ہاشمی کا استقبال ہوا۔ بہادر آدمی کے آنے پر مولانا فضل الرحمن کو اپنی تقریر روکنا پڑی۔ بیمار باغی کو اپنی پذیرائی اور مرتبے کا احساس ہے۔ یہ کہہ کر کہ عمران کے کہنے پر ایک آدمی نے بھی دل سے استعفی نہیں دیا اور جاوید ہاشمی نے دل سے استعفیٰ دے دیا اور جیسے اس نے یہ استعفیٰ پارلیمنٹ کے منہ پر دے مارا۔ پارلیمنٹ کو بھی غور کرنا چاہئے۔ آج فوج آ جائے تو یہ سب پارلیمنٹرین آگے بڑھ کر جرنیلوں کا استقبال کریں گے۔ پارلیمنٹ ہی مارشل لاﺅں کی تائید مزید کرتی رہی ہیں۔ عمران کے لئے نہیں اپنے دل کے کہنے پر استعفیٰ ہاشمی نے دے دیا۔ اندر سے وہ بھی سمجھتے ہے کہ یہ جعلی پارلیمنٹ ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کی محافظ جس نے اتنے برسوں میں عوام کے لئے کچھ نہیں کیا ان کا کوئی تعلق عوام کے مسائل اور مشکلات سے نہیں ہے۔ ہر شخص یہاں صرف اپنے ذاتی معاملات کے لئے فکر مند ہوتا ہے۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی تقریر بالکل اچھی نہ لگی۔ مجھے معلوم ہے کہ پچھلے کسی الیکشن میں ہارتے ہوئے محمود اچکزئی کو آئی ایس آئی نے جتوا دیا تو میں آئی ایس آئی کا بہت قائل ہوتے ہوئے کہتا ہوں کہ سارے لوگ اس کے بنائے ہوئے لوگ ہیں۔ میں پوچھ سکتا ہوں کہ حامد میر کون ہے ۔ اس نے کوہ نور ہیرے سے پاکستان کے ایٹم بم کو تشبیہہ دی ہے اور انتشار کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایٹم بم چھین لیا جائے گا۔ تحریک طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ کا بیان پڑھیں کہ چند ہزار لوگوں نے اسلام آباد پر قبضہ کر کے ہمارا کام آسان بنا دیاہے۔ زخمی صحافی نے اسامہ بن لادن کے انٹرویو کا ڈرامہ رچایا تھا اور کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کے پاس ایٹم بم ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ وہ پھر ٹی وی پروگرام کر رہا ہے تو کس معاہدے کے ساتھ اور ڈیل کے ساتھ کر رہا ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ پہلے بھی دو بار نواز شریف کی حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی تھی۔ ان کے دائیں بائیں وہ لوگ تھے جو آج بھی ان کے آس پاس ہیں۔ عین اس وقت پرویز رشید نواز شریف کے کان میں کوئی سرگوشی کر رہے تھے۔ پہلے ادوار میں پرویز رشید پی ٹی وی کے چیئرمین تھے۔ پی ٹی وی پر تازہ حملے پر میں الگ کالم لکھوں گا۔ نوازشریف پہلے جیسے ہیں اور ان کے دائیں بائیں بھی وہی لوگ ہیں۔ اعتزاز نے کہا کہ ماڈل ٹاﺅن میں منہاج القرآن کے دوستوں میں معمولی رکاوٹیں ہٹانے کی ناکام کوشش کے بعد خود حکومت کو سارے ملک میں سینکڑوں رکاوٹیں راستوں میں کھڑی کرنا پڑیں۔ ہر طرف کنٹینرز لگا دئیے گئے۔
نواز شریف کے اقدامات میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم کے اس مصرعے کی عملی تصویر ہیں:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
نواز شریف کے پرانے وزیر جاوید ہاشمی نے کہا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کر سکے جن پر ہم فخر کر سکیں۔ یہ بات اعتزاز احسن نے کی کہ نواز شریف پچھلے 31 برس سے حکمران ہیں اور موجودہ دور کے 14 مہینوں میں بھی عوام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ حالات نہیں بدلے۔ یہ میری طرف سے اضافہ سمجھئے۔ حالات نہیں بدلے۔ اور خیالات نہیں بدلے۔ عوام زندگی کے نام شرمندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے حکمرانی کی صورت میں درندگی کا سامنا کیا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ 14مہینوں میں ایک بار بھی وزیراعظم نواز شریف سینٹ میں نہ گئے۔ اس نے کانپتے ہوئے وجود اور لرزتے ہاتھوں سے کہا کہ کیوں نہ گئے؟ کیا کسی دوسرے پارلیمنٹرین بزنجو، فضل الرحمن اورشیر پاﺅ وغیرہ وغیرہ نے پوچھا۔ نواز شریف کی قابل فخر بیٹی مریم نواز ہی اپنے والد سے پوچھ لیتی۔ اس نے جاوید ہاشمی کی تعریف کی تو اس کی بات پر غور بھی کیا جائے۔
بلاول بھٹو زرداری نے جاوید ہاشمی کو بہادر آدمی کہا ہے اور جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ میں نے بے نظیر بھٹو سے کہا تھا کہ جنرل مشرف سے بات نہ کرو۔ معاہدہ نہ کرو۔ ورنہ آپ قتل ہو جائیں گی۔ میرے دل میں بی بی شہید کے لئے محبت کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے مگر اس نے بہادر آدمی کی بات نہ مانی اور بزدلوں کے بہکاوے میں آ گئی۔ تب معاہدے میں رحمان ملک بھی تھے جو پھر ”صدر“ زرداری کے قریب ترین دوستوں میں آ گئے۔ ڈاکٹر قیوم سومرو اور شیخ ریاض بھی بی بی کے شوہر نامدار اور بلاول کے ابا جان ”صدر“ زرداری کے دائیں بائیں ڈٹ گئے۔ امیر کبیر بھی ہو گئے۔ بی بی کے پاس دولت ان سے کم نہ تھی۔ کیا وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی؟
اعتزاز نے جو جرات مندانہ بات کی اور اس سے پہلے نواز شریف کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ اگر اس بحران سے نواز شریف نکل گئے تو وہ کچھ اور مغرور ہو جائیں گے۔ ان کا تکبر کچھ زیادہ ہو جائے گا۔ میرا درد دیکھیں کہ ہم نواز شریف سے محبت رکھتے ہیں کہ ہمارے مرشد و محبوب مجید نظامی ان سے محبت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری دوستی محمد نواز شریف سے ہے۔ میری دوستی وزیراعظم نواز شریف سے نہیں ہے۔ وزیراعظم بن کر انہیں کیا کرنا چاہئے تھا۔ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا۔ انہوں نے لوگوں کو کچھ ریلیف دیا ہوتا۔ لوڈ شیڈنگ کچھ کم کی گئی ہوتی۔ مہنگائی کچھ کم ہوتی۔ کچھ تو عوام کے لئے کیا جاتا۔ نواز شریف نے جو وعدے انتخابی تقریر میں کئے تھے انہیں ارادے بنایا ہوتا تو لوگ ان لوگوں کے آگے کھڑے ہو جاتے جو ریڈ زون میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں کئی دنوں سے ہٹایا نہیں جا سکا مگر حکمران تو تدبر کا کام بھی تکبر سے لیتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ نواز شریف سے مل نہیں سکتے تو ہم جیسے کہاں جائیں گے کہ ہمیں جدہ سعودی عرب سے تو فون ہوتے تھے مگر جلاوطنی کے بعد انہیں ہم وطنی نہ آئی۔ کوئی رابطہ ان سے نہیں۔
دنیا نیوز کے لئے کامران شاہد کے پروگرام میں ”لیڈر“ صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیرالدین کو تبدیل کیا جائے تو کامران نے کہا کہ آپ دنیا ٹی وی کو جیو ٹی وی نہ بنائیں۔ انہوں نے جاوید ہاشمی کی اس طرح تعریف کی کہ پاک فوج پر تنقید کا اشارہ ملتا ہے۔ نذیر ناجی نے کہا کہ نئے نئے کروڑ پتی بنے ہوئے لوگوں کو حمایت اور مخالفت کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے۔ مگر وہ محبور ہیں وہ ایسی ہی باتیں کریں گے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جنرل ضیا کی فوجی حکومت میں جاوید ہاشمی کو وزیر شامی صاحب نے بنوایا تھا۔ میری طرف سے اتنی بات کہ خود جاوید ہاشمی نے بتایا جب میں جیل میں تھا تو ایک دفعہ بھی شامی صاحب مجھے ملنے نہ آئے کہ تب چودھری پرویز الٰہی کی حکومت تھی۔
جس انداز میں عمران خان وزیراعظم کی گردن دبوچ کر استعفیٰ مانگ رہے ہیں غلط ہے۔ اور نواز شریف کو استعفیٰ نہیں دینا چاہئے مگر پاک فوج کو تنازعات میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہاں پھر ایک بات اعتزاز احسن کی یاد آتی ہے کہ پچھلے دور میں نواز شریف نے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور دوسرے دن استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج پارلیمنٹ انہیںیاد آ رہی ہے۔ پارلیمنٹرین بھی یاد آ رہے ہیں۔ نواز شریف کے دوست وہ ہیں جو انہیںپسند ہیں۔ ”صدر“ زرداری کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے دوست وہ ہیں جو ان کے لئے مفید ہوں۔ جو انہیں ”فائدہ“ پہنچانے کے لئے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ اعتزاز نے کہا کہ شکر ہے آج پارلیمنٹ اور پارلمنٹرین نواز شریف کو یاد آئے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں اسمبلی کے باہر دھرنے والوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ پھر ایک مثال بھی انہوں نے سنائی۔ ایک نوجوان اپنی ماں کو مارتا پیٹتا تھا۔ توہین کرتا تھا۔ ایک دفعہ اسے تھانے والے پکڑ کے لے گئے۔ اس کو مارتے تھے تو وہ پکار اٹھتا ہائے ماں۔ اس کی ماں آئی تو کہا کہ میں صدقے جاﺅں تھانیدار کہ تمہاری وجہ سے میرے بیٹے کو ماں کو یاد آئی ہے۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ لوگ فوج کی بات مانتے ہیں۔ پولیس کی نہیں مانتے۔ تو سوچئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ کسی بھی سروے کے مطابق لوگوں کی طرف سے سب سے زیادہ شکایتیں پولیس کے خلاف ہوتی ہیں۔ پولیس ظالموں کی ساتھی ہے۔ مظلوموں کے ساتھ نہیں ہوتی۔ پولیس حکومت کی ہے۔ فوج ریاست کی ہے۔ فوج پاکستان کی ہے۔ پولیس مسلم لیگ ن کی ہے۔ کبھی پولیس ”صدر“ زرداری کی تھی۔ یہ فوج کی محبت ہے اور یہ بھی سوچیں کہ لوگ پولیس سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو شاید یاد نہیں کہ انہوں نے ایم ایم کے ممبران کی حمایت سے جنرل مشرف کے پانچ سال حکومت کرنے کو ممکن اور آسان بنایا تھا۔ مشرف کون تھے۔ پاک فوج کے چیف تھے اور انہوں نواز شریف کی حکومت توڑی تھی۔ آج مولانا نواز شریف کی کابنیہ میں ہیں اور ان کے حامی ہیں۔ محمود اچکزئی کو پولیس اچھی لگتی ہے کہ وہ ان کو ممبر اسمبلی بننے میں مدد دیتی ہے۔ فوج اور پولیس کا موازنہ کرنا کونسی سازش ہے۔ حکمران فوج کو پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ یہ محمود اچکزئی کی پاکستان دوستی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کو صرف مراعات یافتہ طبقے کا محافظ نہیں بنانا چاہئے۔ کوئی بات ووٹرز کی بھی ہو۔ انہی کے ووٹوں سے وہ پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی عوام سے ہے۔ نواز شریف غور کریں کہ وہ طاقتور وزیراعظم کیسے ہو سکتے ہیں۔
Source:
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-09-04/page-3/detail-8