نواز شریف حکومت کی ریاستی بربریت کے طوفان میں عاصمہ جہانگیر اور دوسرے کمرشل لبرلز بے نقاب ہو گئے – عامر حسینی

ns

کل رات نو بجے سے اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں پر آنسوگیس کے ہزاروں شیل فائر کیے گئے، سٹیل پر ربڑ کوٹڈ گولیاں ماری جارہی ہیں اور ڈنڈے الگ سے برس رہی ہیں اور شیلنگ سے متاثرہ ہزاروں مرد، عورتیں، بچے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان کے اندر پناہ گزین ہیں جن کی حالت بہتر نہیں ہے

اسلام آباد میں پمز اور پولی کلینک سمیت کئی ایک ہسپتالوں کے بیڈ زخمیوں اور شیلنگ سے متاثرہ لوگوں سے بهر گئے ہیں، دو نوجوانوں کی طبعی موت واقع ہوگئی ہے اور وہ وینٹی لینٹر پر زندہ ہیں اور ان کو دماغ اور پیٹ مین اصلی گولیاں لگی ہیں اس کے علاوہ بھی کم از کم دو افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں

نواز شریف حکومت اور پنجاب پولیس کے گلوبٹوں، لدھیانویوں اور پنجاب پولیس کے اس ریاستی تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پاکستان کے لبرل اور لیفٹ حلقوں کی اشراف کلاس سے تعلق رکهنے والےچند معروف لوگوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے – یہ اشراف اس سارے تشدد اور بربریت کا جواز شاندار مفروضوں کی تشکیل کرنے میں مصروف ہیں اور اس موقعہ پر ریاستی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے سے ان کی نواز شریف نظام بچاو تحریک متاثر ہورہی ہے

pic

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ساته منسلک لبرل اشراف بشمول عاصمہ جہانگیر ، آئی اے رحمان ، حنا جیلانی بڑے بڑے نام ہیں جو پاکستان میں نواز یافتہ نیم سرکاری چینل جیو اور چند ایک دوسرے چینل پر آئے اور انہوں نے بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں پر نواز شریف حکومت کی ریاستی بربریت اور تشدد پر ایک حرف بهی مذمت کا نہیں بولا اور صاف صاف ریاست کے اقدامات کی حمایت کی – عاصمہ جہانگیر کو میں نے جیو پر یہ کہتے سنا کہ ہم دیکھ لیں گے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ان گماشتوں، ڈیپ سٹیٹ کے چوچوں کو ، انهوں نے گویا ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ڈیپ سٹیٹ کے حامی اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ قرار دے ڈالا اور اس بنیاد پر ظاہر سی بات ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت ڈاکٹر قادری، عمران خان اور ان کے ہزاروں کارکنان کو مار بهی ڈالے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوگی

عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی، ماروی سرمد، ندیم پراچہ سمیت پاکستان کی بہت بڑی لبرل بورژوازی کی حامی اور پاکستان میں سول کارپوریٹ سرمایہ داروں کی کهلی حمایت کرنے والی یہ لبرل اشراف کلاس ریاست کی بربریت اور تشدد کے جواز کے لئے یہ مقدمہ پیش کررہی ہے کہ میاں نواز شریف ایک جمہوریت پسند ، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکهنے والے سیاستدان ہیں اور وہ آئین اور جہموریت کے دفاع کی کوشش کررہے ہیں جوکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کو پسند نہیں ہے اس لئے ان کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریکوں کے پیچھے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے – سبحان الله، ذرا نواز شریف کی دھاندلی زدہ جمہوریت کا دفاع کرنے والے ناموں پر نظر ڈالیں – انصار عباسی، ندیم پراچہ، مجیب الرحمن شامی، ہارون الرشید، سید طلعت حسین، طاہر اشرفی، ماروی سرمد، مرتضی سولنگی، حامد میر، احمد لددھیانوی، نجم سیٹھی، فضل الرحمن، عمر چیمہ، مفتی نعیم،عمر قریشی، حافظ سعید. عرفان صدیقی، عبدالقادر حسن، عایشہ صدیقه، حسین حقانی، مشرف زیدی، عامر سعید دیوبندی، محسن حجازی، اجمل جامی، شاہد سعید، بشری گوہر، محمد تقی، محمود اچکزئی وغیرہ – اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، وفاق المدارس دیوبند اور میر شکیل لابی بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوۓ ہیں اگر یہ لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں تو پھر ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی نئی تعریف مرتب کرنی پڑے گی

a1

میاں نواز شریف کس قدر اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پورے دور اقتدار میں بلوچستان میں بلوچ نسل کشی اور بلوچ پر ملٹری کے پورے جبر کے خلاف کوئی بهی روک لگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے تو پوری شدت کے ساته کارپوریٹ سرمایہ کے عزائم کے تناظر میں بلوچ علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار کے زیادہ بڑے منصوبوں کی تشکیل کی ہے اور اس کام میں ڈاکٹر مالک جیسے ننگ قوم کو بهی ساته ملایا ہے

میاں نواز شریف اور ان کے ساتهیوں نے ڈیفنس بجٹ میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے جبکہ ان کی صحت ، تعلیم ، هاوسنگ اور دیگر سوشل امور میں فنڈنگ کم ہوگئی ہے

پنجاب میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تکفیری گروہ کے پرورردہ کالعدم جہادی گروہوں سپاہ صحابہ (اہلسنت والجماعت) اور جماعت الدعوہ کے ساتھ نواز شریف کے قریبی سیاسی اور سٹرٹیجک تعلقات ہیں جس کا سنی صوفی اور شیعہ نسل کشی میں کلید کردار ہے

a3marvi 21 22

اگر کسی مقام پر میاں نواز شریف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساته کسی معمولی تضاد میں ہو سکتے ہیں تو وہ تضاد ہے ہمسایہ ملکوں کے ساته پاکستان کے صنعتکاروں اور تاجروں نیز مالیاتی بینکنگ کارپوریشنز میں سے بہت سی پرتوں کو جو عظیم تجارتی فوائد تجارت کے لئے سرحدوں کو زیادہ سے زیادہ نرم کرنے میں نظر آتے ہیں کے معاملے ہر ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پرانی سٹریٹیجک پالیسی پر زور دینے کی وجہ سے آئے ہیں اور اس میں ان کے اپنے طبقے کی پرتوں کے مفادات ملوث ہیں جن کا اس ملک کی عوام شہری و دیہی غریبوں اور پیٹی بورژوا طبقے کے ساته ہر گز نہیں ہے اور اسی لئے ان پرتوں میں نواز شریف کے لئے کوئی زیادہ ہمدردی موجود نہیں ہے –

میاں نواز شریف اور ان کے ساتهیوں کو اس ملک کے نہ تو سٹہ باز سرمایہ داروں سے کوئی مسئلہ ہے ، نہ ہی اس ملک کے صنعتکاروں اور لارج سکیل کے تاجروں ، مالیاتی سرمایہ داروں سے کوئی مسئلہ ہے اگر ان کی کہیں کوئی مسابقت اگر ہے بهی تو وہ اس ملٹری بزنس کے ساته ہے جو پاکستان کی سویلین کارپوریٹ سرمایہ دار اشرافیہ کے سرمایہ کے مقابلے میں کہیں کم حجم اور پهیلاو کا حامل ہے

لیکن ہماری لبرل اشرافیہ جو نہ تو سرمایہ داری کی مخالف ہے ، نہ ہی اس کو ریاست کی جانب سے پورے ملک میں معشیت کا نیولبرل ماڈل نافذ کرنے پر کوئی اعتراض ہے، نہ اسے صحت ، تعلیم جیسے شعبے نجی شعبے کے حوالے کرنے پر کوئی تشویش ہے اور نہ ہی اسے پاکستانی سرمایہ داری کے کرونی کیپٹلست ماڈل پر اور جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتوں پر کوئی اعتراض ہے لیکن وہ ملٹری بزنس کے بارے میں بہت زیادہ بولتی ہے اور سارا زور اس بات پر لگاتی ہے کہ فوج اگر کاروبار بند کردے ، کسانوں کی زمینوں کا قبضہ چهوڑ دے تو پاکستانی ریاست خوشحالی کی طرف سفر شروع کردے گی جبکہ اس سے یہ سوال کرنا فضول ہوگا کہ پاکستانی ریاست جو زرعی زمینیں ملٹی نیشنل اور نیشل سرمایہ داروں کو دے رہی ہے اور یہ جو پاکستان کے وسائل پیدوار پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کنٹرول ہے اور جس میں مقامی سرمایہ داروں کی شراکت ہے کیا یہ اس ملک کے عوام کی بدحالی اور بدترین استحصال کے زمہ دار نہیں ہیں تو اس سوال پر یہ آپ کو فوری طور پر مارکسی مولوی قرار دے ڈالیں گے اور نیولبرل اکنامک ماڈل کے گن گانے لگیں گے

عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی اور میر شکیل الرحمن سمیت اس ملک کی لبرل اشراف سول سوسائٹی کی اکثریت اصل میں غیر عسکری سویلین گلوبل ایند نیشنل کارپوریٹ سرمایہ داروں کے مفادات کی پاسدار اور ان کے ساته گہرے اتحاد میں ہے اور یہی وہ اتحاد ہے جو ان کو اس حکمران طبقے کی موقعہ پرستی ، بربریت ،وحشت اور خون آشامی کی بهی حمائت کرنے پر اکساتا ہے عاصمہ جہانگیر جیسے کارپوریٹ سرمایہ کے حامی سانحہ ماڈل ٹاون کا زکر کرنے سے بهی گریز کرتے ہیں اور اس میں بهی ان کا بس نہیں چلتا ورنہ مرنے والوں کو ہی اپنی موت کا زمہ دار قرار دے ڈالیں

انسانی حقوق کمیشن کے فیکٹ فائینڈنگ مشن بلوچ مسنگ پرسن پر تو بن جاتے ہیں لیکن لاہور ہی جہاں اس کمیشن کا مرکزی دفتر ہے سترہ جون کے ماڈل ٹاؤن سانحہ پر کوئی فیکٹ فائینڈنگ مشن نہیں بنتا اور انسانی حقوق کمیشن اس واقعے پر مذمت کی ایک پریس ریلیز تک جاری نہیں کرتا

نام نہاد سول سوسائٹی فار ڈیموکریسی اسلام آباد میں نواز شریف کی کرسی کے بچاو کے لئے زنجیر بناتی ہے لیکن اس کمپئن کے ممبرز نے اس طرح کی زنجیر سترہ جون اور تیس و اکتیس اگست کو نہیں بنائی کہ ریاستی بربریت کو روکا جاسکتا – لدھیانوی اور طاہر اشرفی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر نواز حکومت اور ریاستی بربریت کا دفاع کرنے والے جمہوریت کی کونس خکڈم کر رہے ہیں

d2

ریاست کی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مذمت کرنے کی بجائے اس بربریت و خلاف ورزی کا ساته دینے والوں میں بعض ایسے لوگ بهی آگے آگے ہیں جو خود کو کارل مارکس سمیت عظیم اشتراکی انقلابیوں کی فکر کا پیرو کہتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور بہت ہی بچگانہ باتیں کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر ریاست کی رٹ ، ریاست کو بچانے ، سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچانے اور یہاں تک کہ یہ ملٹری کارپوریٹ سرمایہ کے مقابلے میں خود کو سول کارپویٹ سرمایہ کے ساته کهڑا کرتے ہیں جبکہ ایک مارکسی انقلابی کی جدوجہد سرمایہ دار ریاست ، اس کی رٹ اور اس کے سسٹم یا سرمایہ کے مختلف گروپوں میں سے کسی ایک گروپ کو بچانے کے لئے نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی کوئی مارکسی مادی تضادات چاہے وہ سرمایہ داری کی مختلف پرتوں میں ہوں یا سرمایہ اور محنت کے درمیان ہوں وہ ان کے درمیان مصالحت و سمجهوتے یا سرمایہ کی مختلف پرتوں کے باہمی تصادم میں کسی ایک کیمپ میں نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ سرمایہ کی تمام شکلوں کے خلاف ورکنگ کلاس کے مفاد کے ساته ہوا کرتا ہے

لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ پاکستانی مارکسیوں میں اشراف کے لوگ اور ان کی پیروی کرنے والے کم و بیش اپنے موقف کے اعتبار سے عاصمہ جہانگیر جیسے لبرل اشراف کے ساته کهڑے ہیں اور وہ ملٹری بزنس اور اس کی ڈیپ سٹیٹ پالیسی کا سہارا لیکر اس کے خلاف نواز شریف اینڈ کمپنی کے سرمایہ کے ساته کهڑے ہیں اور انہی اصطلاحوں میں ریاست کے تشدد اور بربریت کا جواز تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو عاصمہ اینڈ کمپنی کی زبان پر عام ہیں

اگر اور گہرائی میں جاکر دیکها جائے تو صاف نظر آجائے گا کہ یہ مارکسی اصل میں اپنے آخری تجزئے میں ریاست کے نیولبرل ماڈل کے حامی نکلتے ہیں اور ان میں اور عاصمہ جہانگیر جیسے لبرل اشراف میں یک گونہ اتحاد نظر آتا ہے

یہ دونوں قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ ایک طرف تو یہ شیعہ نسل کشی ، سنی صوفی نسل کشی جیسے سماجی مظہر کو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری قرار دیکربالواسطہ تکفیری دہشت گردی کو جواز دیتے ہیں اور دیوبندی دہشت گردی کے خلاف کبهی اس طرح واضح طور پر کهڑے نہیں ہوتے جیسے یہ آج عمران خان، طاہر القادری ، حامد رضا اور ناصر عباس کے بارے مین شیزوفینک رویوں کے ساته سامنے آئے ہیں

آخر میں جو سرخے ڈاکٹر طاہر القادری کے طرز سیاست پر معترض ہیں اور ان کے بارے میں بہت دو عملی کا اظہار کر رہے ہیں مگر 1905ء کے روسی انقلاب اور روسی عوام کے بڑے احتجاج کی مثالیں دیتے نہیں تهکتے اور یہ بهی سبق دیتے نظر آتے ہیں کہ ابتداء میں اس کی قدروقیمت کا لینن کو بهی اندازہ نہیں تها ان کو 1905ء کے زار شاہی کے محل کے گیٹ پر جانے والے روسی اجتماع کی طبقاتی هئیت ، اس کی قیادت کرنے والے آدمی کا سماجی مقام و مرتبہ بهی دیکه لیں میرے دوست سرتاج خان نے مجهے لکھ کر بهیجا: روسی انقلاب 1905میں ملوث شخص ایک پادری تھا۔ہمارے قادری جیسامذہبی رہنماتھا۔ جو روسی بادشاہ زار سے بہتر سلوک کی فریاد لے کر گیاتھا۔زارکے فوجیوں نے گولی چلادی کئ مارے گئے۔ اور معاملہ انقلاب تک پھیل گیا۔وہ پادری بھی بہت ہی مشکوک آدمی تھا۔ضروری نہیں کہ موجودہ صورتحال ویسی ہی بن جائے۔ مگرریاست کی طرف سے جبر کی مذمت ضروری ہے۔ اور یہ لنک تمام اشتراکیوں کو ضرور دیکهنا چاہئیے
http://www.historylearningsite.co.uk/1905_russian_revolution.htm

خاص طور پر یہ اکتساب ملاحظہ کریں

The 1905 Russian Revolution

The 1905 Russian Revolution was sparked off by a peaceful protest held on January 22nd. This protest may well have been the turning point in the relationship the tsar, Nicholas II, enjoyed with his people. Led by a Russian Orthodox priest, Father Gapon, 150,000 people took to the cold and snow covered streets of St Petersburg to protest about their lifestyle. They were not intent on making any form of political protest in the sense of calling for the overthrow of the government or royal family. The petition they carried clearly shows that they wanted Nicholas to help them.

 

a2

 

a4

demoanti-estab haha urdu

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarwar Ali Shaheen
    -