مظفر گڑھ میں ایٹمی بجلی گھر اور مقامی افراد کی پریشانیاں – بی بی سی اردو
ہم کچھ نہیں جانتے۔ بس اٹامِک اٹامِک ہو رہی ہے۔ وہاں بارود بنے گا۔ اُس کا دھواں نکلے گا۔ اِدھر اُدھر والے سب (لوگ) مر جائیں گے۔ ہمیں اِس بلا سے بچا لیں۔‘
پاکستان میں جنوبی پنجاب کے ہزارہ خان آج کل اِس فکر سے نڈھال ہیں کہ اُن کے پوتے پوتیوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ وجہ پوچھنے پر ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور ایک ’بلا‘ کا ذکر کرتے ہیں۔
’ہم کچھ نہیں جانتے۔ بس اٹامِک اٹامِک ہو رہی ہے۔ وہاں بارود بنے گا۔ اُس کا دھواں نکلے گا۔ اِدھر اُدھر والے سب (لوگ) مر جائیں گے۔ ہمیں اِس بلا سے بچا لیں۔‘
پچاسی سالہ ہزارہ خان کی چوتھی نسل، ضلع مظفر گڑھ میں تحصیل کوٹ ادو کے ایک نیم صحرائی گاؤں میں پل بڑھ رہی ہے۔ صحرائے تھل کے اِس حصے میں جس ’اٹامِک بلا‘ کا چرچا ہے، وہ دراصل نیا جوہری بجلی گھر ہے۔
بجلی گھر کی تعمیر کے لیے حکومت نے تقریباً دو ہزار ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی حاصل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
ہزارہ خان سمیت، علاقے کے تقریباً چار سو خاندانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر بار اور زرعی زمینیں حکومت کے حوالے کر دیں۔
رواں سال کے آغاز سے جاری اس سرکاری مہم کے خلاف، مقامی باشندے سراپاءِ احتجاج ہیں۔
کبھی عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتے ہیں تو کبھی سڑکوں پر نکل کر ’اٹامِک انرجی، نامنظور‘ جیسے نعرے بلند کرتے ہیں۔
حکومت پیچھے ہٹنے کو تیار ہے نہ مقامی میڈیا میں اُن کی مزاحمت کو کوئی جگہ مل پائی ہے۔
شاید اِس لیے کہ موجودہ حکومت جلد از جلد ہر ممکن ذریعے سے، بجلی کے بحران کے دردِ سر سے نمٹنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب، ملکی دفاعی حکمتِ عملی کا حساس حصہ ہونے کے باعث، بیشتر مقامی میڈیا متنازعہ جوہری امور کے متعلق انتہائی محتاط رویہ رکھتا ہے۔
مظفر گڑھ کا جوہری بجلی گھر، پاکستان کے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے وسعت دینے کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اِس کے لیے منتخب علاقے میں ہزارہ خان کی چھ ایکڑ زرعی زمین اور چار کمروں پر مشتمل پختہ مکان بھی آتا ہے۔
اُن سمیت علاقے کے باشندوں کا خیال ہے کہ جتنی محنت کر کے اور پائی پائی جوڑ کر، اُن کی نسلوں نے منتخب کیے گئے دو دیہات آباد کیے ہیں، حکومت، اُس کی درست قیمت ادا نہیں کر رہی۔ اُتنی رقم میں نئی جگہ پر زندگی کو آگے بڑھانا مشکل ہو گا۔
’میرے ساٹھ درخت ہیں، کھجور اور شریں کے۔ ایک لاکھ روپے میں ٹیوب ویل لگوایا تھا۔ سنہ اسی سے آباد کر رہا ہوں اِس زمین کو۔ یہی، ہمارے کھانے پینے کا واحد ذریعہ ہے۔‘
حکومت کی تنبیہ کے باعث، ہزارہ خان سمیت، علاقے کے بیشتر چھوٹے کاشتکار، اس سال کپاس نہیں لگا سکے جس کی فصل اُن کے سال بھر کے اخراجات کے لیے نقد رقم کا ذریعہ بنتی ہے۔
مظفر گڑھ کے ضلعی رابطہ افسر شوکت علی، مقامی لوگوں کے تحفظات اور خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
’باقاعدہ سروے کر کے، ہم نے اِس زمین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ جائز معاوضہ ادا کر کے ہی اِسے حاصل کیا جائے گا۔ مرحلہ وار، لوگوں کو تمام املاک کی ادائیگی ہو گی۔‘
منتخب کیے گئے رقبے کے گرد، سرکاری علامت کے طور پر، ہر چند میٹر کے فاصلے پر، مٹی کی ڈھیری بنائی گئی ہے۔ اُس پر سفیدی پھیر کر، چھڑی کھڑی کر دی گئی ہے۔
کراچی اور چشمہ بیراج میں قائم تین چھوٹے جوہری بجلی گھروں سے پاکستان تقریباً 750 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ، جوہری بجلی کی پیداوار کو چالیس ہزار میگاواٹ تک بڑھایا جائے۔
اِس ہدف کے حصول کے لیے جوہری امور کے ادارے، پاکستان اٹامِک انرجی کمیشن نے 1100 میگاواٹ کے بتیس بجلی گھر لگانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اِن کے لیے ملک بھر میں آٹھ مقامات منتخب کیے گئے ہیں۔
جوہری بجلی پیدا کرنے کے نئے اور نسبتاً بڑے دور میں داخل ہونے کے لیے، کراچی میں دو بجلی گھروں کا سنگِ بنیاد گذشتہ سال نومبر میں رکھا گیا۔
تیسرے جوہری بجلی گھر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے ہزارہ خان کی املاک سمیت، قرب و جوار کی زمین حاصل کی جا رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل سے منسلک ماہرین، مظفر گڑھ کے منتخب مقام کو جوہری بجلی گھر کے لیے موزوں قرار دیتے ہیں۔
محکمۂ پانی و بجلی میں کالا باغ ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ، انجینیر ممتاز احمد کہتے ہیں کہ ’یہ علاقہ ملک کے وسط میں ہے چنانچہ بجلی کی ترسیل کے اخراجات کم ہوں گے۔ یہاں آبادی کم ہے۔ جوہری بجلی گھر کو چلانے کے لیے پانی وافر مقدار میں ہے۔‘
ہزارہ خان کا گاؤں، تونسہ پنجند لِنک کینال کے کنارے ہے جو دریائے سندھ کا پانی دریائے چناب میں ڈالنے کے لیے بہتی ہے۔ لیکن ہزارہ خان کو کاشتکاری کے لیے ٹیوب ویل لگوانا پڑا کیونکہ ساتھ بہتی نہر کا پانی اُن کے کھیتوں کو نہیں ملتا۔
اُن کے گاؤں جیسے ہزار پاکستانی دیہات علاقوں میں کئی سالوں سے بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہزارہ خان کے علاقے میں حکومت کے اہم قومی منصوبے کے لیے حمایت کم اور خوف زیادہ ہے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/07/140729_problems_atomic_energy_sa.shtml