محمود اچکزئی اور سلیم صافی کی کشمکش: ایک تجزیہ – از عامر حسینی
نواز شریف کے ساته بیٹهے پشتون قوم پرست محمود خان اچکزئی کی آج کل سیاست مرکز پسند قوم پرست سیاست ہے جس کا مقصد پشتون قوم کے سرمایہ داروں اور پیٹی بورژوازی طبقے کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات ، ملازمتیں ، ٹهیکے اور اقتدار میں زیادہ حصہ داری ہے اور اس مقصد کے لئے محمود خان اچکزئی نے اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کے پشتون قوم ہرستی کے حوالے سے بہت سے نکات اور خیالات سے رجوع کرلیا ہے
وہ نواز شریف کے ساته ملکر شریک حکومت ہونے سے پہلے پونم میں رہے جس کا مقصد پاکستان کو فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن میں بدلنا تها اور خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی پشتون پٹی کو ایک صوبہ بنانے کا مطالبہ کررہے تهے لیکن اب وہ اس ایشو پر خاموش ہیں
حالیہ کچھ برسوں میں فوجی اسٹبلشمنٹ پر ان کی تنقید میں بہت ہی زیادہ کمی آگئی ہے بلکہ وہ سیاست دانوں کے جمہوری کیمپ اور ملٹری قیادت کے درمیان باعزت سمجهوتے کی تلقین اسمبلی کے فلور پر کرتے ہیں
بلوچ ایشو پر انہوں نے بالکل ہی خاموشی اختیار کرلی ہے اور افغانستان کے معاملے پر وہ فوج اور افغان حکام کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں
بلکہ حیرت انگیز امر یہ ہے کی محمود اچکزئی اور مولوی فضل الرحمان دونوں افغان طالبان اور کرزئی حکومت کے درمیان درمیان کی راہ بهی تلاش کرتےنظر آتے ہیں -امریکہ اور یورپ سمیت جوسرمایہ دار بلاک ہے اس بارے ان کی رائے ماضی کی رائے سے بدلی ہوئی ہے
محمود اچکزئی اور ان کے ساتهی جس شدت کے ساته سید مودودی کی جماعت اسلامی اور اس کی طلباء تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے اخبارات و میڈیا کو بیانات جاری کرتے ہیں اتنی شدت کے ساته وہ دیوبندی فسطائی دہشت گردوں خاص طور پر سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) کے بارے میں نہ تو اسمبلی کے فلور پر بات کرتے ہیں اور نہ ہی اخبارات یا ٹی وی چینل پر بات کرتے ہیں
ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کے سعودیہ عرب اور دیوبندی وہابی دہشت گردوں سے جو روابط اور تعلقات ہیں وہ اس پر بهی آج تک اپنا واضع سیاسی موقف پیش نہیں کرسکے – پاکستان میں جب سعودیہ عرب کے هائی پروفائل وفود دورے کررہے تهے اور پاکستان حکومت مڈل ایسٹ(ایران، سعودی عرب، شام) کے معاملے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جوهری تبدیلیوں کی خواہش مند تهی اور سعودی ڈیڑھ ارب ڈالر پر شور مچا ہوا تها تو بهی محمود اچکزئی کا اس سارے معاملے پر کوئی بیان دیکهنے کو نہ ملا اور انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکهی
محمود اچکزئی دیوبندی طالبان کے ساته مذاکرات کی پالیسی کی حمایت بهی کرتے رہے اور ان کی پارٹی نے ماضی میں بهی دیوبندی دہشت گردوں کی کثیر القومی اور کثیر اللسانی بنیادوں کی ہمیشہ نفی کی اور اسے ہمیشہ پنجابی قرار دینےفتنہ کی کوشش کی اور دہشت گردی کی دیوبندی نظریاتی شناخت کی نفی پر زور دیا
کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ سلیم صافی اور محمود اچکزئی کے حامیوں کے درمیان جو تازہ تو تکار ہوئی اس میں سلیم صافی پر محمود اچکزئی کی پارٹی کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا اس میں سلیم صافی کے جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم سے رشتے کا زکر تو تها لیکن سلیم صافی کے دیوبندی طالبان اور دیوبندی سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جهنگوی سے جو تعلقات ہیں ان کا زکر مفقود تها جبکہ سلیم صافی نے ایجنسیوں سے اپنے رابطے پر الزام کے جواب میں محمود اچکزئی کی فوج اور ایجنسیوں سے روابط اور یوبندی طالبان سے قربت کے اشارے اپنے کالم میں کئے ہیں
میرے دوست عبدل نیشاپوری نے اس تازہ کش مکش کو دائیں بازو کے ایک پختون صحافی کی بائیں بازو کے پختون قوم پرست حلقے کےدرمیان توتکار سے تعبیر کیا ہے – میں ویسے دونوں کو بالترتیب پختون پیٹی بورژوازی کے دائیں اور بائیں سمت کے موقعہ پرست رجحانات سے تعبیر کرتا ہوں اور ان دونوں رجحانات میں پاکستان کی غالب سیاسی اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساته هاته ملانے کا طاقتور رجحان موجود ہے
ویسے پختون دائیں بازو کے سلیم صافی ہوں یا کہ مولوی فضل الرحمان ، مولوی سمیع الحق جیسے دیوبندی کردار ہوں یا پنجابی دائیں بازو کے محمد احمد لدهیانوی ، قاری حنیف جالندهری ، ملک اسحاق ، طاہر اشرفی جیسے دیوبندی ہوں یا پهر کراچی میں رہنے والے اردو بولنے مفتی تقی عثمانی ،رفیع عثمانی یا پشتو بولنے والے مولوی سلیم اللہ خان دیوبندی کردار ہوں اور محمود اچکزئی جیسے پختون سیکولر دیوبندی ہوں، ان سب کے نواز شریف اینڈ کمپنی سے تعلقات مثالی ہیں اور ان سب کا دیوبندی تکفیری دہشت گردی پر موقف ڈهلمل اور گول مول ہے ، هاں فرق صرف اتنا ہے کہ بائیں بازو کے پختون دیوبندی قوم پرست پشتون علاقوں پر فوجی آپریشن پر دو کیمپوں میں نظر آتے ہیں ایک پاک فوج کے آپریسنز کو پشتون نسل کشی قرار دے کر علیحدگی پسندی کا نعرہ اور پنجابی سامراج کے خلاف اعکان جنگ کی خواہش کرتا نظر آتا ہے دوسرا جو اقتدار میں شریک ہے اس کی حمایت تو کرتا ہے لیکن دہشت گردی میں پشتون دیوبندیوں کے تکفیری ٹولے کی شمولیت سے انکاری رہتا ہے
ویسے پختون دائیں بازو اور بائیں بازو کے پیٹی بورژوازی رجحانات دیوبندی دہشت گردی کے متاثرین جن میں پختون شیعہ اور صوفی سنیوں کی بڑی تعداد شامل ہے کے حق میں آواز آٹهانے میں خاصی سستی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے
غلام احمد بلور جو اے این پی کے سرکردہ رہنماء ہیں، انہوں نے آج تک شیعہ ، صوفی سنی نسل کشی کے خلاف دیوبندی سپاہ صحابہ کی دہشت گردی کی مذمت نہیں کی مگر وزیرستان میں فوجی آپریشن پر ان کا یہ بیان سامنے آگیا کہ پاک فوج شمالی وزیرستان میں پختونوں کی نسل کشی کررہی ہے
اسی طرح اے این پی کی بشری گوہرنے طاہر القادری ساگا پر اپنی توپوں کا رخ طاہر القادری کے خلاف کیا ہوا تها لیکن انہوں نے اس کمٹمنٹ کے ساته کبهی دیوبندی سپاہ صحابہ لدھیانوی کے خلاف محاز نہیں کهولا
میں کہتا ہوں کہ اگر انصاف اور ایمانداری کے ساته اس وقت ان باتوں کا غور سے جائزہ لیا جائے تو صاف اندازہ ہوجائے گا کہ کہاں پر ڈنڈی ماری جارہی ہے
دائیں بازو اور بائیں بازو کے لیبل کے ساته آنے والی اکثر سیاسی مئے موقعہ پرستانہ غیرکشید شدہ عناصر سے گدلی ہیں اور سب مردود حرم اہل صفا ہونے کی ڈرامہ بازی کر رہے ہیں اور ان جیسے پاکهنڈیوں سے فیض جیسے سہل پسند سچے فرہاد معلوم ہوتے ہیں گویا درویشی بهی عیاری ہے اور سلطانی بهی عیاری
—————
Appendix: Saleem Safi’s column on Mehmood Achakzai (Daily Jang, 1 July 2014)
Comments
Latest Comments
shion k liye Pakistan me koi jaga nahi hy ….. bago Iraan