پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں سکھ مظاہرین کا احتجاج – از ایوب ترین
اسلام آباد میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے صوبہ سندھ میں اپنی مذہبی کتاب کی بےحرمتی پر احتجاج کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔
یہ مظاہرین جمعے کو سخت رکاوٹوں کے باوجود پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں داخل ہوگئے اور وہاں احتجاج کرتے رہے تاہم حکومتی یقین دہانی پر تقریباً پانچ گھنٹے بعد پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
اسلام آباد میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع ہے جب مظاہرین تمام سکیورٹی حصار توڑ کر پارلیمنٹ بلڈنگ کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز سینیٹ کا اجلاس جاری تھا کہ اچانک سکھ برادی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد سخت سکیورٹی کے باوجود عین اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں داخل ہوگئی جب ملک میں حکومت، فوج ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری تناؤ پر بحث ہو رہی تھی۔
اس بارے میں انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد آفتاب احمد چیمہ نے بتایا کہ پولیس کو معلوم ہوا تھا کہ یہ لوگ سرینا چوک سے جلوس کی صورت میں پریس کلب جا کر مظاہرہ کریں گے۔
ان کے مطابق تاہم مظاہرین راستے میں موجود رکاوٹیں اورگیٹ نمبر ایک کو توڑتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوگئے اور اس دوران پولیس نے مظاہرین کو کئی بار روکنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکی۔
پولیس نے سکھ مظاہرین پر لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال کرنے سےگریز کیا اور پولیس افسر کے مطابق اگر مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا جاتا تو پاکستان کےخلاف پروپیگنڈا شروع ہو جاتا کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔
پارلیمنٹ کے حدود میں مظاہرین اس ڈائس پر جمع ہوگئے جہاں اکثر اوقات ارکانِ پارلیمان ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہیں۔
یہاں سکھ مظاہرین سے ان کے نمائندوں کا خطاب جاری تھا کہ آئی جی اسلام آباد آفتاب احمد چیمہ کی قیادت میں پولیس نے ان کاگھیراؤ کیا اور انھیں قائدین سمیت وہاں سے کار پارک تک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم مظاہرین نے خبردار کیا کہ وہ وہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک وزیراعظم میاں نواز شریف یا وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان خود آکر یقین دہانی نہیں کراتے۔
اسی اثنا میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر سید ظفراللہ شاہ اقلیتوں کے دیگر منتخب نمائندوں کے ہمراہ مظاہرین کے پاس آئے اور مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویزدی۔
اس پر تشکیل پانے والی تیرہ رکنی کمیٹی نے اسمبلی کے سبزہ زار پر حکومتی ارکان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر مذاکرات کیے اور پانچ مطالبات حکومت کےسامنے رکھے۔
سکھ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنت صاحب کی بے حرمتی کرنے والوں کو فوری طور پرگرفتار کر کے سخت سزا دی جائے۔
اس پر سینیٹر سید ظفر علی شاہ نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ حکومت ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرےگی۔
Source :
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140523_islamabad_sikh_protestors_gh.shtml