فطرت ، محبت اور موسیقی کا حسین امتزاج – از عامر حسینی

kalar-kahar-lake-view

برسے گا ساون جهوم جهوم کے جب تم او گے سجن ایک خوبصورت گیت سن رہا ہوں کلر کہار کے پاس رک گیا ہوں دو دل ایسے ملیں گے برسے گا ساون جهوم جهوم کے گانے والا وردیں لگا رہا ہے اور اس کی آواز سینے کے وسط سے آتی محسوس ہورہی ہے اور اونچے اونچے پہاڑوں اور گہری کهائیوں اور کہیں کہیں اگی گهاس سے بهرے یہ مناظر طبعیت پر عجیب اثر کررہے ہیں اور دل کررہا ہے کہ بے اختیار رقص کروں اور یہ کیفیت آپ سب دوستوں سے بهی شئیر کروں ،بن پئے شرابی ہوگیا ہوں بہت سی بهولی بسری یادیں ہیں جو زہن کے پردے کی سکرین پر چل رہی ہیں،یہ جو دماغ میں یادوں کی ایک ہارڈ ڈسک ہے اس پر ایک کہانی ہے جس کو چلنے سے کون رکه سکتا ہے
زندگی کوہم بسر کرتے ہیں یا وہ ہمیں بسر کرتی ہے کچه کہہ نہیں سکتا

لاہور گیا تها لیکن طبعیت کی سیلانیت مجهے اسلام آباد تک لے آئی اور اب اس ویرانے میں کهڑا ہوں جرم وفا کی سزا کاٹ رہا ہوں اور ایک جنون ہے جومجهے یہاں لے آیاہے مجهے کیا یاد آرہا ہے کیا بتاوں آپ مجهے سودائی کہیں گے اور شاید اس ساری گفتگو کو لاحاصل کہیں گے

ویسے یہ نصرت فتح علی خان کیا کہہ رہے ہیں – یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے

کسی کی بہکی بہکی نگاہ کا انسان کو شرابی کیسے بنا سکتی ہے یہ جو اندر کا موسم نوازش محبوب ہوتی ہے جو نگاہ کو بہکاتی ہے – یوں تو ساقی ہر طرح کی تیرے می خانے میں ہے -یہ جو ساقی کی عشوہ گری کو الزام دینا تو بس ایک بہانہ ہےیہ داخل کی کارفرمائی ہے جو آدمی کو تمام شد کرتی ہے

انسان ٹهیک کہتا کہ داستان عشق میں یہ عاشق کے جنون کامعجزہ ہوتا ہے جو سب کچه کرتا ہے میں اپنے دل کی کیفیت کو اب سب دوستوں سے شئیر کررہا ہوں مجهے مصنوعیت سے سخت نفرت ہے اور اوریجنلٹی سے عشق کرتا ہوں – آپ سب دوستوں کو سلام محبت

Comments

comments