President Zardari’s rational politics – by Abbas Mehkari
آخر کوئی بات تو ہے
نشیب و فراز…عباس مہکری
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب این آر او اور سوئس کیس کے حوالے سے بہت شور شرابہ ہورہا تھا اور کچھ لوگ یہ پیش گوئیاں کررہے تھے کہ حکومت صبح چلی جائے کہ شام‘ ایک دوست کی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کرکے جب وہ واپس آئے تو راقم نے اُن سے پوچھا کہ صدر صاحب کا ”مورال“ کیسا ہے؟ اُس دوست کا کہنا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری کو گزشتہ 40 سال سے جانتے ہیں اور مشکل سے کوئی لمحہ ایسا آیا ہوگا جب کسی نے آصف علی زرداری کو گھبرائے ہوئے دیکھا ہو، وہ کبھی نہیں گھبراتے اور خندہ پیشانی سے ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔
اُس دوست کے اس قریبی مشاہدے کو حقیقت کے طور پر پورا ملک یہاں تک کہ صدر آصف علی زرداری کے مخالفین بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ اب تو بڑے بڑے سیاسی مبصرین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صدر زرداری اپنے کارڈز بڑی خوبصورتی سے کھیل رہے ہیں۔ با الفاظ دیگر مخالفین بھی اُنہیں ایک ایسے لیڈر کے طور پر تسلیم کررہے ہیں جس کا کوئی وژن ہے۔
کوئی کچھ بھی بولتا رہے‘ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ صدر آصف علی زرداری نے شاید سب سے زیادہ اس فارمولے پر عمل کیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مقبول سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی ایک پرانا وتیرہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے یہ کام ہورہا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض بڑے بڑے سیاسی قائدین نے اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا بہت زیادہ اثر لیا اور ردعمل میں بعض غلط فیصلے بھی کئے۔ یہ پروپیگنڈہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کسی کو اصل کام نہ کرنے دیا جائے اس معاملے میں آصف علی زرداری کا رویہ بہت کارگر ثابت ہوا اور اُنہوں نے اس طرف توجہ نہ دینے کا جو فیصلہ کیا‘ اس سے اُن کے مخالفین ”فرسٹریٹ“ ہوئے۔
ایک دفعہ راقم سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ میں ان معاملات میں اُلجھوں۔ ہمیں پاکستان کے لئے بہت کچھ کرنا ہے۔ ہر بات کا جواب دینے سے بہتر ہے کہ میرا کام بولے۔ جب میری جگہ میرا کام بولے گا تو اُس سے بہتر کوئی جواب نہیں ہوگا۔ کسی نے اُن سے کہاکہ فلاں شخص آپ کے خلاف بہت باتیں کرتا ہے تو اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اللہ اُسے خوش رکھے۔ میں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں نہیں اُلجھنا چاہتا۔
سیاست ایک بے رحم کھیل ہے خصوصاً پاکستان جیسے ملکوں کی سیاست تو انتہائی کٹھن اور مشکل ہوتی ہے‘ جہاں غیر ملکی طاقتوں اور ملک کے اندر غیر مرئی قوتوں کے مخصوص مفادات کا بے رحمانہ کھیل ہر وقت جاری رہتا ہے اور جہاں عوام کے ہیروز کو قبروں میں پہنچا دیا جاتا ہے‘ وہاں مفاہمت کی سیاست کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
گزشتہ ڈھائی سال کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ صدر آصف علی زرداری نے جن سیاسی قوتوں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا‘ اُنہوں نے اس مفاہمت کو کمزوری تصور کرکے ہر سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوششیں کی۔ لوگوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ کچھ سیاسی مخالفین نے ظاہری طور پر ایک بات کی اور اندرونی طور پر اُس کے برعکس عمل کیا۔
صدر زرداری کو زبردست تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا اور اُنہیں پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ صدر آصف علی زرداری نے مفاہمت کی پالیسی کے خلاف کوئی بات کی ہے تاہم سیاست کو سمجھنے والا ہر شخص یہ بات کہہ رہا ہے کہ صدر زرداری نے مخالفین کی سیاسی چالوں کو انتہائی خوبصورتی سے ناکام بنایا۔ مخالفین یہ بات تسلیم کریں یا نہ کریں‘ لوگ سرعام یہ بات کہہ رہے ہیں کہ صدر زرداری کے مخالفین کی کوئی چال کامیاب نہیں رہی ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف خود کو پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے زیادہ اسمارٹ تصور کرتے تھے‘ چاہے اب سیاستدانوں کا تعلق اسٹیبلشمنٹ کے حامیوں میں ہو یا مخالفین میں۔ پرویز مشرف سیاستدانوں کا ذکر حقارت سے کرتے تھے اور اُن کا خیال یہ تھا کہ یہ سیاستدان کسی بھی طرح اُن سے اقتدار حاصل نہیں کرسکتے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب پرویز مشرف کو سیاسی طور پر ”ٹریپ“ کرکے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو پرویز مشرف کو پہلی مرتبہ اپنی شکست کا احساس ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پرویز مشرف نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ اب وہ ایک ذہین اور قد آور سیاسی لیڈر کی مزید فتوحات سے بچ جائیں گے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اُن کا یہ خیال غلط تھا۔
انتہائی مشکل حالات میں آصف علی زراری نے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو حصہ دلواکر پرویز مشرف کا آئندہ کا منصوبہ ناکام بنایا۔ پھر دنیا اُس وقت عش عش کر اُٹھی جب پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرکے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ دنیا کو اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ صدر آصف علی زرداری حکومتی اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے ووٹ سے ایوان صدر میں داخل ہوئے۔
یہ باتیں اُن لوگوں کے لئے پریشان کن تھیں جو یہ سمجھتے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی میں کوئی بڑا لیڈر نہیں پیدا ہوسکے گا۔ آصف علی زرداری نے جلد دنیا کو یہ باور کرادیا کہ وہ ایک پیدائشی لیڈر ہیں۔ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد بڑے بڑے بحران پیدا ہوئے یا مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے۔
شروع شروع میں ہر نئے بحران پر یہ کہا جانے لگا کہ حکومت بس جانے والی ہے لیکن لوگوں کو یہ تجربہ ہوتا گیا کہ ایک کے بعد دوسرا بحران آیا اور چلا گیا لیکن حکومت اپنی جگہ پر موجود رہی۔ آہستہ آہستہ لوگ صدر آصف علی زرداری کی صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے قائل ہوتے گئے اور اب یہ مرحلہ آگیا ہے کہ بڑے بڑے نقاد، سیاسی مبصرین اور مخالفین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ صدر زرداری نے اپنے پتے بہت خوبصورتی سے کھیلتے ہیں۔ یہ اگرچہ کنجوسی سے کی جانے والی تعریف ہے لیکن یہ اچھی بات ہے کہ معاملہ یہاں تک پہنچا ہے۔
اب بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُن لوگوں کے بارے میں بھی رائے تبدیل کی جائے جنہیں قبل ازیں عظیم سیاسی مدبر کہا جاتا رہا اور جنہوں نے اب تک اپنے سیاسی پتّے صحیح طریقے سے نہیں کھیلے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (عوامی) کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ اگر زرداری کے مخالفین نے عقل سے کام نہ لیا تو وہ اُنہیں نمک مرچ لگائے بغیر کھا جائیں گے۔ شیخ رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاست پیسے سے نہیں عقل سے ہوتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سیاست میں عقل کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ سیاست میں عقل کو اہمیت بھی دی جارہی ہے۔
صدر زرداری کے دیگر کارناموں کے ساتھ تاریخ میں اس کارنامے کا بھی ضرور تذکرہ ہوگا کہ سیاست میں عقل کے کردار اور اہمیت پر زور دیا گیا۔ شیخ رشید بہت ذہین سیاستدان ہیں اُن سے گزارش ہے کہ وہ عقل کے ساتھ ساتھ ایک اور انسانی خصوصیت کو بھی سیاست میں شامل کریں اور وہ ہے جرأت اور بہادری۔ یہ وصف بھی صدر زرداری کی شخصیت میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔ تبھی تو سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پتّے خوبصورتی سے کھیلتے ہیں۔
Source: Jang, 28 Nov 2010