
سعودیہ عرب اور اسرائيل کے درمیان تعلقات کے بارے میں مڈل ایسٹ اور مغربی میڈیا میں بہت زیادہ بات چیت ہورہی ہے اور کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب مصر،ایران اور شام کے معاملے میں ایک طرف ہیں اور ان کے درمیان تعلقات بہتر سے بہتر ہورہے ہیں
سعودی انٹیلی جنس ،دفاعی عہدے داروں اور اسرائیل کی انٹیلی جنس اور دفاعی اداروں کے درمیان گہرے تعلقات پر بھی بات ہورہی ہے
دائیں بازو کے حلقوں میں تعلقات کے اس باب کو حیرانی سے دیکھا جارہا ہے لیکن لبنان کے معروف تجزیہ نگار ابو خلیل لبنان کے معروف اخبار الاکبر میں لکھا ہے کہ
سعودی عرب اور اسرائیل میں تعلقات اور تعاون کی پرانی تاریخ ہے اور اس پر خیرانی کی ضرورت نہیں ہے
ابو خلیل نے لکھا ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ دائيں بازو کے آمروں اور بادشاہوں کے ساتھ تعاون کیا-جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ آمر سے لیکر ایران کے رضا شاہ پہلوی اور موبوتو کے زائر اور لاطینی امریکہ کے دائیں بازو کے آمروں تک اس نے ہمیشہ فوجی ماہرین ان کو فراہم کئے اور بائیں بازو کے جو لوگ ان آمروں اور بادشاہوں کی مخالفت کرنے والوں کے قتل میں تعاون فراہم کیا،اس لیے اگر سعودی عرب کے بادشاہت کے اسرائيل سے گہرے تعلق نہ ہوتے تو حیرانگی ہوتی
صہیونی تحریک کا جب ارض فلسطین میں آغاز ہوا تو سعودی عرب کے بادشاہ سعود نے اس سے ہمدردی تو نہ دکھائی لیکن عملی طور پر فلسطین عربوں اور صہیونیوں کے درمیان تنازعے میں وہ غیر جانب دار رہا ،جب اسرائیل کے قیام کا پروجیکٹ سامنے آیا تو کنگ عبدالعزیز جو کہ برطانوی سامراج کا پٹھو تھا نے اپنے برطانوی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جو فلسطینی عربوں کے مفاد کے خلاف جاتی تھی
آل سعود کو جب تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو اس نے مڈل ایسٹ میں ایسا کردار ادا کرنا شروع کیا جس سے مڈل ایسٹ میں برطانیہ اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ مقصود تھا
1937 سے 1939 کے دوران عربوں نے صہیونیت کے خلاف جو بغاوت کی تو اس بغاوت کو ختم کرانے کے لیے سعودی بادشاہ عبدالعزیز نے شیخ امین الحسینی پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ اس بغاوت کا راستہ کھوٹا کرنے پر مجبور ہوئے اور برطانیہ کو اپنا منصوبہ عمل میں لانے کا موقعہ ملا
اس حوالے سے بادشاہ عبدالعزیز کے برطانوی شہریت رکھنے والے مشیر فب لی کا کردار بھی بہت مشکوک تھا ،اس کے صہیونیوں سے بہت گہرے تعلقات تھے اور اس کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ اس نے صہیونیوں کی طرف سے کنگ عبدالعزیز کو ایک رشوت کی پیشکش کی اور اس کے بدلے صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام میں مدد مانگی
آل سعود کو فلسطینیوں کی حالت زار یا ان کے سیاسی مستقبل سے زیادہ امریکہ اور برطانیہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی فکر تھی اور اسی روش کی بنا پر سعودیہ عرب کے امریکہ اوربرطانہ سے انتہائی گہرے تعلقات قائم ہوئے
اسرائیلی ریاست بننے کے چند سال بعد پوری عرب دنیا میں عرب قوم پرستی اور قومی خودمختاری کی تحریکوں کا ظہور ہوا اور عرب سرد جنگ مصر میں جمال عبدالناصر نے پین عرب ازم کا جھنڈا اٹھایا تو اس سارے دور میں سعودیہ عرب امریکہ ،اسرائيل اور برطانیہ کے کیمپ میں رہا
اس زمانے میں سعودیہ عرب اور اسرائیل کے تعاون سے امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں نے عرب خطے کے اندر عوامی،قومی مزاحمتی تحریکوں کو دبانے میں کیا کردار ادا کیا وہ ابھی تک ان حومتوں نے کلاسیفائیڈ کیا ہوا ہے
لیکن یمن میں جس وقت ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی تو اسرائیل اور سعودیہ عرب اور قریب آئے اور دونوں ملکوں نے یمنی اشراف حاکم طبقات کے باغیوں کو مدد فراہم کی اور سعودی عرب و اسرائیل نے مراکش اور اردن کی بادشاہتوں کو بچانے اور ان ملکوں میں حمہوری پین عرب ازم کے لوگوں کو مروانے میں اہم کردار ادا کیا
نائن الیون کے بعد جب امریکی سینٹ اور کانگریس میں سعودی عرب کی جانب سے سلفی دھشت گردوں کو پروان چڑھانے کے لیے کی جانی والی کوششوں اور کردار پر تنقید شروع ہوئی تو اسرائیل سے سعودیہ عرب نے اپنے پوشیدہ اور نیم پوشیدہ تعلقات کو آشکار کیا اور کنگ عبداللہ نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا پلان تزک واحتشام سے پیش کیا
عرب میں عوامی تحریکیں کرپشن کے خاتمے اور عرب آمریتوں کی جگہ جمہوریت لانے کے لیے ابھریں تو اسرائیل اور سعودیہ عرب نے ملکر ان تحریکوں کو کچلنے کا پروگرام بنایا
سعودیہ عرب مصر اور ایران کے بارے میں ایک موقف کے حامل ہوگئے
اسی طرح آزاد شامی فوج کے سوال پر بھی اسرائیل اور سعودیہ عرب کے درمیان ایک سٹریٹجک اور انٹیلی جنس تعاون دیکھنے کو ملا
سادات نے جب اسرائیل سے دفاعی اور معاشی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا تو سعودی عرب کے شاہ فہد اور اردن کے شاہ حسین سادآت کے اتحادی ثابت ہوئے اور حسنی مبارک کے دور می؛ں بھی سعودیہ عرب مبارک کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیاں دیں حالانکہ سادات کے اسرائیل سے ماہدے اسی طرح سے قائم تھے
سعودیہ عرب اور اسرائیل مڈل ایسٹ بارے مغرب کی بدلتی پوزیشن پر اپنے اختلافات کی وجہ سے اور زیادہ ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں اور اب سعودیہ عرب ان تعلقات کو زیادہ چھپانے کی کوشش نہیں کررہا ہے
Comments
comments