طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان: اصلی کہانی کیا ہے؟ – از فکر اقبال
نواز شریف حکومت نے دیوبندی طالبان سے مذاکرات کا جو عمل شروع کیا تھا، اس میں اس وقت تعطل آ گیا جب طالبان نے مذاکرات کے دوران ہی پے در پے حملے کر کے عام شہریوں کے علاوہ بہت سے پولیس اور ایف سی اہلکار شہید کر دئے اور خصوصاً 4 سال سے اغوا شدہ ایف سی اہل کاروں کو جس بہیمانہ انداز سے شہید کیا گیا اس کے بعد حکومت نے طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان تک مذاکرات معطل کر دئے اور فوج کو جوابی ایکشن کی اجازت دی جس کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ہی طالبان نے ایک ماہ کے لئے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے حوالے سے کچھ چشم کشا حقائق سامنے آ رہے ہیں جن میں سعودی عرب کا کرادر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میڈیا رپورٹس میں واضح نشاندہی کی گئی ہے کہ دیوبندی طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے پیچھے سعودی عرب کا کرادر ہے اور اس نے ہی افغان طالبان میں موجود اپنے ذرائع کو استعمال کر کے پاکستانی طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کیا ہے اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کا کردار بہت اہم ہوگا لہٰذا طالبان ان دو ممالک سے تعلقات خراب نہ کریں۔ ان رپورٹس سے اسٹیبلشمنٹ کے بنائے گئے اس تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ ہیں اور ان کا آپس میں کوئی خاص رابطہ نہیں ہے جبکہ پاکستانی طالبان واضح طور پر ملا عمر کو اپنا امیر اور سرپرست مانتے ہیں اور ملا عمر یا افغان طالبان کی جانب سے بھی کبھی پاکستانی طالبان سے اظہار لاتعلقی نہیں کیا گیا۔ طالبان جغرافیائی سرحدوں پر یقین نہیں رکھتے اور طاقت کے زور پر ایک عالمی خلافت کے نظام کو قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔
پاکستان، افغانستان کو انہی دیوبندی طالبان کے ذریعے کنٹرول کرنا چاھتا ہےجس طرح افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد پاکستان نواز طالبان کی حکومت قائم کی گئی تھی۔
طالبان سے مذاکرات حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے معروف شیعہ عالم دین استاد سید جواد نقوی نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کا پہلا ہدف طالبان میں چھانٹی کرنا ہے تاکہ وفادار اور باغی گروپوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے اور وہ باغی گروپ جو ان کے بنانے والوں کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں انہیں ہٹا کر ان کے وفادار گروپ باقی رکھے جائیں۔ اب ان کے ساتھ شرائط طے ہوں گی کہ ہماری بات مانتے ہو یا نہیں مانتے۔ اگر مانتے ہو تو ٹھیک ہے ہم اگلے مرحلے کے مذاکرات میں آپ کو بٹھائیں گے اور اگر نہیں مانتے تو آپ ختم ہو جاؤ گے۔
دوسرا ہدف طالبان کی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹنا اور انتشار سے بچانا ہے کیوں کہ ان پر بہت محنت ہوئی ہے، بہت پیسہ لگا ہے، قومی خزانہ لگا ہے اور بہت سے ملکوں کا پیسہ لگا ہے لہٰذا یہ ان کے لئے بہت قیمتی موجود ہیں۔ ہماری نگاہ میں طالبان بھیڑئے، درندے اور خونخوار ہیں لیکن جنہوں نے بنایا ہے، ان کی نگاہ میں یہ بہت ہی قیمتی موجود ہیں اور ان کی مدد سے بہت سے اہداف حاصل کئے جاتے ہیں۔
تیسرا ہدف یہ ہے کہ طالبان کو مستقل خطرے کے طور پر دنیا میں باقی رکھنا اور ان کے ذریعے سے ہمیشہ عالمی اور اندرونی حالات پر دباو رکھنا، یعنی ایک ڈنڈے کے طور پر یہ رہیں اور جہاں بھی ضروت پڑے وہاں طالبان کا رخ موڑ دو۔ مثلاً ایران کو اگر تنبیہ کرنا مقصود ہو تو ایران کی طرف موڑ دو، شیعہ کو سبق سکھانا مقصود ہو تو شیعہ کے پیچھے لگا دو۔
اس سے بچنے کے لئے کہ دیوبندی طالبان، طالبان کے ہاتھوں تباہ ہو جائیں ان کو سمیٹا جائے، چھانٹی بھی کیا جائے، جو وفادار نہیں ہیں انہیں الگ کیا جائے اور ختم کر دیا جائے اور جو وفاداری کے قابل ہیں انہیں آپس میں ملایا جائے اور ایسی مرکزیت قائم کی جائے جو ان کے بنانے والوں کے تابع ہو۔
ان مذاکرات کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک تکفیری فوج تشکیل پا رہی ہے جس کی سرپرستی سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کر رہاے ہے۔ پہلے انہوں نے مختلف ملکوں میں تکفیری فوج کے یونٹ بنائے مثلاً پاکستان، افغانستان، یمن و عراق اور اب ان سب کو ملا کر ایک عالمی تکفیری فوج بنائی جا رہی ہے تاکہ عالمی حالات پر اثر انداز ہوا جائے۔ اب دو سالوں سے سعودی عرب کی یہ حکمت عملی ہے کہ ان علاقائی لشکروں کو سمیٹ کر ایک عالمی تکفیری فورس تشکیل دی جائے اور اس میں انہیں پاکستان سے بہت امیدیں ہیں اسی لئے سعودی عرب کے حکام پاکستان کے اتنے دورے بھی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے سب سے زیادہ تخریب کاری کے کاموں میں سرمایہ کاری پاکستان میں کی ہے اور اب وہ اس عالمی تکفیری فورس کے قیام کے لئے بھی پاکستان کی مدد لینا چاھتے ہیں۔
Post by Vision of Iqbal.
Comments
Latest Comments
بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سابق سیکرٹری فاٹا محمود شاہ کا موقف ہے کہ دیوبندی شدت پسندوں کی کاروائیاں پاکستان کے آئین و قانون کے خلاف ہیں یہ ایک ماہ تک گناہ کبیرہ کو روکنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی لیکن بات چیت مسئلے کا حل نہیں یہ دہشت گردی نہیں چھوڑیں گے۔ برگیڈئیر محمود شاہ کہتے ہیں کہ حکومت نے طالبان سے یک طرفہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا، ایسے میں پاکستانی فوج کو چاہیے کہ وہ زمینی کارروائی کے آغاز تک فضائی کارروائیاں اُسی طرح جاری رکھے، اور وزیراعظم کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہیے۔ محمود شاہ نے بتایا کہ ’پاکستانی فوج نے ماضی میں قبائل یا طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں کبھی بھی جنگ بندی نہیں کی ہاں البتہ 2006 میں ہونے والے ایک معاہدے میں چند جگہوں سے چیک پوسٹیں ختم کر دی گئیں تھیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں دیوبندی طالبان اور قبائل کے ساتھ فوج اور آئی ایس آئی نے جو بھی معاہدے کیے وہ ناکام ہوئے۔
جنرل (ر) عبدالقیوم نے فوج کی جانب سے جنگ بندی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اس کی توجیہہ کچھ یوں بیان کی ’ دیوبندی طالبان نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کریں گے لیکن ہمیں کامل یقین ہے کہ دہشت گردی کی یہ کاروائیاں پورے ملک میں جاری رہیں گی کیونکہ یہ ایک اکیلا گروپ نہیں۔ طالبان کو یہ گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ جو لوگ شدت پسندی کی کارروائیاں کریں گے ان کے خلاف ایکشن نہیں ہوگا۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کا نظام پاکستان کے دیگر علاقوں سے مختلف ہے۔ جنرل عبدالقیوم نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ سیزفائر نہیں کیونکہ یہ دو ریاستوں کے مابین مقابلہ نہیں ’دہشت گرد اور ریاست میں فرق ہوتا ہے۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/03/140301_expert_analysis_taliban_ceasefire_sa.shtml