سندھ فیسٹیول اور ہو جمالو

SindhFestival-Mohenjodaro_1-30-2014_136089_l

کہیں گزرے زمانے کے آثار کا موجود ہونا خوش قسمتی ہے، خصوصا آثار اگر ہزاروں سال پرانے ہوں تو پھر ان کی حفاظت کا قاعدہ تو یہ ہونا چاہئے کہ

“لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام “

چہ جائکہ آثار کے آثار مٹا ڈالے جائیں، چلیں طالبان اگر بامیان میں ایسا کر گزرے تو سمجھ آتا ہے کہ ان کی فکری نہج ہی اتنی تباہ کن ہے مگر یہی کام اگر ثقافت کے نام پر ہو، ایک ایسی حکومت کرے جس کے سربراہ پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری رکھتے ہوں، اور اس عظیم کاوش میں تاریخ اور آثار کی حفاظت سے متعلق ادارے بھی دامے درمے سخنے ہر طرح سے ہاتھ بٹائیں تو تعجب ہوتا ہے.  اقدار کی حفاظت کے نام پر اپنے عظیم ترین ورثے کی بھینٹ چڑھا دینا سادگی ہے یا ہٹ دھرمی اور نا عاقبت اندیشی؟ اچھے  مقصد کے لئے اٹھائے گئے اس غلط قدم  کے پیچھے نادان کی دوستی ہے یا جی حضوریوں کی فوج؟

ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ؟

یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ چلیں یہ سب نہ ہو رہا ہوتا ، یہ سندھ فیسٹیول نہ منایا جاتا ، یہ جگہ یعنی موئن جو دڑو بھی نہ چنی جاتی کہ یہاں سے تقریبات کا آغاز ہو؛ تو ہم کونسا اپنے اثار کی حفاظت کے لئے کوئی تیر مار رہے تھے یا مار رہے ہیں. آج مرے کل دوسرا دن ، یہ فیسٹیول تو آج کل میں ختم ہو جائے گا،یہ نہ بھی ہوتا تو کونسا موئن جو دڑو نے بچ جانا تھا .  ہم زندوں کو نہیں بچا سکتے، اپنے آج اور مستقبل کی لاش اٹھائے بیٹھے  ہیں، ہم کہاں اور یہ ماضی کا وبال کہاں؟ چلیں اسی بہانے سے ہی صحیح، شاید سندھ ہائی کورٹ میں یہ ذکر بھی نکل آئے کہ سندھ میں موجود آثار قدیمہ کی نگہداشت و دیکھ بھال کا کام کیسا چل رہا ہے، سندھ حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے ؟ روٹی پانی سب صحیح مل رہا ہے، کھانے پینے میں کوئی کمی تو نہیں آ رہی ؟ پیٹ کا موئن جو دڑو بھی کمبخت کسی آثار قدیمہ سے کم ہے، جتنا لگا لو کم ہے.

ہمیں یقین ہے کہ محترم وزیر اعلیٰ  ایک تو خود کو ہی مثال کے طور پر پیش کر دیں گے کہ آثار قدیمہ کی حفاظت بخوبی کی جا رہی ہے، اس کے بعد سرداروں اور پیروں کی پوری فوج ہے جو ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے آثار قدیمہ کی کتنی حفاظت کرتے ہیں، آج بھی یہی حال ہے کہ ایک ملک صاحب  کی عملداری میں اگر ایک گائے بھی چوری ہو جائے تو اس کا مالک سمجھ جاتا ہے کہ بلاوا آیا ہے اور سردار صاحب کی خدمت میں جا پنھچتا ہے کہ حضور خادم سے کیا غلطی ہوئی؟

ایک مخدوم صاحب ‘ایک دن  جیو کے ساتھ میں’  بڑے یقین سے فرما رہے تھے کہ جاگیر داری تو اب رہی نہیں کیوںکہ زمینیں وارثوں میں بٹتی جا رہی ہیں، اس حساب سے تو یہ خود بھی آثار قدیمہ میں سے ہوئے . کاش کہ میزبان صاحب پوچھ پاتے کہ حضور ایسا ہے تو پھر آپ ہی کی آل اولاد کیوں مالک چلی آ رہی ہے ؟  کیا آپ خود کھیت جوتتے ہیں ؟ جس گاڑی  میں آپ گھومتے ہیں وہی آپ کے ہاری بھی رکھتے ہیں؟ آپ کی حویلی جیسا نہ صحیح مگر سب کے سروں پر پکی چھت  کا آسرا تو ہے؟ جو منرل واٹر آپ انڈیل رہے ہیں یہی آپ کے کھیت میں کام کرنے والا بھی پیتا ہے؟ چلیں یہ نہ صحیح صاف پانی تو پیتا ہے؟ اس کی صحت بھی آپ ہی کی طرح  ہے نہ؟ سرکاری ہسپتالوں کے آگے کھلے آسمان تلے چارپائی پر دم تو نہیں توڑتا نا؟ یقین مانیں یہ سردار،پیر، وڈیرے نہ صحیح ، اس دھرتی کے ہاری بھی اثار قدیمہ ہی ہیں، بلکہ ایسے آثار کہ ان کو تو دیکھ بھال کی ضرورت ہی نہیں، نہ ہی یہ سندھ فیسٹیول کے اسٹیج کے قابل ہیں، نہ کسی ذکر کے ، نہ کسی فکر کے، یہ تو وہ خاک ہیں جو واقعی خاک ہیں، خاک سے کبھی نکلے ہی نہیں کہ موئن جو دڑو کی طرح  پھر سے خاک ہو سکیں. پتہ نہیں سندھ فیسٹیول میں سندھ کے یہ بیٹے بھی کوئی حصہ لے پائیں گے کہ کہیں دور سے آتی انگریزی ریپ کی صداؤں پر سر دھنتے رہ جائیں گے، ان کو بھی موقع ملے گا کہ نہیں کہ کسی گانے والی کا وفور مسرت سے منھ چوم لیں، اور اجرک ڈاٹ کے پاپ بیٹ پر ہو جمالو گا سکیں؟

پتہ نہیں رنکل کماری بھی سندھ فیسٹیول منا سکے گی کہ نہیں، پتہ نہیں میاں مٹھو کسی تقریب کے مہمان خصوصی بنیں گے کہ نہیں کہ یہ بھی تو حکومتی  پارٹی کا حصّہ ہیں، کم از کم ایک گانا تو ان کی تعریف میں بھی بنتا ہے ، ان کے رہتے سندھ کو کسی طالبان کی کیا ضرورت ہے ؟ سندھ کی ثقافت کا یہ ناقابل فراموش پہلو بھی کوئی بھولنے والی بات ہے؟ جشن کا آغاز تو گھر سے ہی ہونا چاہیے نا

………

پس نوشت: ایسا نہیں کہ سندھ فیسٹیول کے مقاصد کی اہمیت نہیں مگر لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے ؟ بھلائی اور اصلاح کا آغاز بھی تو گھر سے ہی ہوتا ہے؟ ہم کب تک شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیے بیٹھے رہیں گے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. shabeer
    -
  2. Khalid Bhatti
    -
  3. Mohammad Aslam Shahab
    -
  4. Khalid Bhatti
    -