Takfiri militants in Syria have taken iconoclasm to new depths: With shrines, statues and even a tree destroyed – but to what end? – by Robert Fisk

Eccentricity marks the path to heaven or hell. Take the Takfiri rebels trying to overthrow Bashar al-Assad’s regime in Syria. They have chopped off the heads of their enemies, eaten a few human entrails, massacred Christians and Alawites – the Damascus government, of course, has done its share of civilian bloodletting and war crimes – and even gone to war on the Kurds. But of all the activities of the al-Qa’ida/al-Nusra/Islamic State of Iraq and Greater Syria insurgents in Syria, surely the weirdest has been an iconoclasm worthy of both Henry VIII and the Taliban: the destruction of shrines, tombs and the statues of poets and caliphs.
Take, for example, Abu Tammam Habib ibn Aws who was born near Damascus AD804. He was assistant to a weaver and the son of Christian parents – an obvious provocation to the Nusra lads 2,213 years later – but travelled to Egypt to study poetry. He went to Armenia and Iran, and produced an anthology of other poets’ work known as the Hamasah, an anthology of bravery, courage in defeat and revenge.
A work, you might think, that could appeal to the Salafists anxious to rid Syria of its infidel president. But no. In his native town of Jasim in the countryside of Deraa this year, the Islamists destroyed his statue. They simply blew it up with explosives. Was it because he had Christian parents? Unlikely, surely, since some of the current followers of al-Nusra are Muslim converts. Or was it because Abu Tammam brazenly compared the composition of poetry to the sex act? May he be turned to dust!
So let’s move on to Abu al-Ala Ahmad ibn Abd Allah al-Ma’arri, who was born almost 170 years after Abu Tammam near Aleppo, the ancient city currently split between rebel and government fighters.
Like Milton, al-Ma’arri was almost blind, but produced a popular collection of poetry called The Tinder Spark and later, in Baghdad – where he was adored by writers but lived in almost hermit-like isolation on a vegetarian diet – wrote Unnecessary Necessity, which complained about the rhyming scheme of poetry. More dodgy, however, al-Ma’arri also described a Dante-like visit to heathen poets in paradise. And a later work was described as a parody of the Koran. He believed, so we are told, in “social justice” – whatever that was in the 9th century – but thought a world without children would spare future generations the pain of life.
Well, you can understand why the al-Nusra boys scratched their heads when they saw al-Ma’arri’s turbaned statue. For the poor chap is also credited with telling his readers: “Do not suppose the statements of the prophets to be true… The sacred books are only such a set of idle tales as any age could have…” So off with his head! The al-Nusra guys decapitated the statue in al-Ma’arri’s home town of Maarat al-Numan.
Then we come to Harun ar-Rashid himself, the fifth Abbasid caliph of One Thousand and One Nights fame, who ruled Islam’s greatest empire, putting down revolts – Assad-style – in Syria, Egypt and Yemen, even bringing Tunisia under his rule. He became an immensely wealthy man whose wife insisted that only gold and silver would hold food on the family table. The palace was packed with singing girls, concubines and servant girls. But… word had it that he maintained a homosexual relationship with Jafar, one of his principal administrators, who was later executed. Luxury, concubines, vice. No chance, then, for Harun’s statue in the city of Rakaa – the only town in Syria currently under total Islamist control. His image, in the city’s Ar-Rashid Park, no less, was destroyed.
Need one go on? The shrine of the Prophet’s companion Hujr ibn Adi has been destroyed in Rif Damascus (the countryside around the capital) and a shrine to a Sufi sheikh in Busaira has been blown up. The Islamists have even announced the cutting down of a 150-year-old tree in the town of Atmeh – next to another shrine which the Salafists had taken over. “Thank God Almighty, the tree… has been removed, after people were worshipping it instead of God,” an Islamist informed a French news agency.
But what’s new? Didn’t the Taliban destroy the Buddhas of Bamiyan, just as the Saudis have reduced every old building in Mecca to rubble and the Islamists hundreds of shrines in Pakistan? Not to mention the destruction in Timbuktu. Think Henry VIII. Think Oliver
Cromwell – who would surely have understood the cruelty of the Syrian war. And beware graven images. Pity about the tree.
Source :
شام میں غیر ملکی جہادیوں کا ایجنڈا
آخری وقت اشاعت: منگل 24 دسمبر 2013 ,
القاعدہ سے تعلق رکھنے والے النصرہ فرنٹ شام میں سرگرم گروہوں میں سب سے زیادہ با اثر سمجھا جاتا ہے
شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں مغربی ممالک کی سب سے بڑی تشویش عرب ممالک، مغربی یورپ اور دیگر ممالک سے سنی جنگجوؤں کا شام میں آنا ہے۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے تازہ ترین اندازے کے مطابق شام میں اس وقت گیارہ ہزار جنگجو موجود ہیں جو دیگر ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔
اسی بارے میں
شام میں موجود جنگجو یورپ کے لیے خطرہ؟
’غیرملکی جنگجو شامی انقلاب کو برباد کر رہے ہیں‘
شام میں دوہری لڑائی، اسد حکومت کے بعد القاعدہ کا محاذ
متعلقہ عنوانات
دنیا
ان جنگجوؤں کی آمد سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنگجو کس گروہ میں شریک ہوتے ہیں اور مختلف گروہوں کے درمیان کیا روابط ہیں۔
شام میں دو گروہ بہت سرگرم ہیں جن کا تعلق القاعدہ کے ساتھ ہے۔ ایک ہے النصرہ فرنٹ اور دوسرا ہے الدولۃ الاسلامي في العراق والشام یعنی آئی ایس آئی ایس۔النصرہ فرنٹ شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے۔
عراق میں القاعدہ کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے یک طرفہ طور پر اپنی تنظیم کو النصرہ فرنٹ میں ضم کیا اور اس طرح آئی ایس آئی ایس قیام میں آئی۔ تاہم النصرہ فرنٹ کے سربراہ ابو محمد الجلانی اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اس عمل کو رد کر دیا۔ تاہم البغدادی نے آئی ایس آئی ایس کو ختم کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ تنظیم ابھی بھی اسی نام سے سرگرم ہے۔
نیٹ ورک
ان دونوں تنظیموں میں سے آئی ایس آئی ایس غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے زیادہ پرکشش ہے۔ اسی وجہ سے اس تنظیم میں زیادہ تر جنگجو غیر ملکی ہیں۔
لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ شام میں آئی ایس آئی ایس غیر ملکی جنگجوؤں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم میں ساٹھ سے ستر فیصد شامی جنگجو ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کہ آئی ایس آئی ایس کے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہے اور اس کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔
آئی ایس آئی ایس اہم عسکری کارروائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شامی جنگجو کو شامل کر رہا ہے۔ اور مستقبل میں شام میں اپنی موجودگی کا جواز پیش کرنے کے لیے یہ نئی نسل کو شامل کر رہی ہے۔ اور اسی لیے یہ تنظیم بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سعودی عرب اور مراکش
النصرہ اور آئی ایس آئی ایس کے علاوہ بہت سے اور گروہ شام میں موجود ہیں جن میں غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔ یہ گروہ زیادہ تر اذقیہ کے علاقے میں کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
ان گروہوں نے النصرہ اور آئی ایس آئی ایس کے ہمراہ علوی علاقوں پر حملوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان گروہوں میں سے چند گروہ النصرہ اور آئی ایس آئی ایس سے نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود ان سے منسلک نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اذقیہ میں سقور العذ اور حرکت شام الاسلام نامی دو گروہ ہیں۔ سقور العز سعودی عرب سے آئے جنگجوؤں نے اور حرکت شام الاسلام مراکش سے آئے جنگجوؤں نے قائم کی۔
ان دونوں تنظیموں میں شامی سمیت کئی غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔
نظریاتی ہم آہنگی
اذقیہ کے باہر سب سے اہم آزاد گروہ گرین بٹالین اور جماعت جندالشام ہیں۔
غیر ملکی عورتیں بھی جہاد کے لیے شام کا رخ کر رہی ہیں
گرین بٹالین کو سعودی عرب سے آئے جنگجوؤں نے قائم کیا اور ان کے نظریات آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے نظریات ہی ہیں لیکن یہ گروہ آزاد اس لیے ہے کہ اس تنظیم کے جنگجوؤں کا آئی ایس آئی ایس اور النصرہ سے ذاتی اختلاف ہے۔
تاہم دمشق کے مضافات میں شامی سکیورٹی فورسز اور شیعہ ملیشیا کے ساتھ لڑائی میں گرین بٹالین نے آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے ہمراہ لڑائی لڑی۔
جماعت جندالشام کو لبنان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے حمس میں بنایا لیکن اس میں بڑی تعداد شامی جنگجوؤں کی ہے۔
نظریاتی طور پر یہ تنظیم آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے قریب ہے اور ان میں کسی قسم کا ذاتی اختلاف بھی نہیں ہے۔
شام میں دیگر گروہ آئی ایس آئی ایس کے ہی دوسرے نام ہیں۔ ان گروہوں میں سب سے نمایاں جیش المہاجرین ولانصار ہے جو حلب، اذقیہ اور ادلب میں موجود ہے۔ مئی میں اس کے سربراہ عمر الشیشانی کو آئی ایس آئی ایس کے سربراہ نے تنظیم کا شمالی کمانڈر نامزد کیا۔ اس کے بعد سے نومبر تک جیش المہاجرین آئی ایس آئی ایس کا دوسرا نام بن کر رہ گئی۔ تاہم نومبر میں یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک گروپ عمر الشیشانی کا ہے جو اپنے آپ کو آئی ایس آئی ایس سے منسلک کرتی ہے جبکہ دوسرا گروپ صالح الدین الشیشانی کی قیادت میں اپنے آپ کو آزاد گروپ کے طور پر سامنے لا رہا ہے۔
دنیا پر غلبہ
کئی حکومتوں کو ایک مخمسے کا سامنا ہے کہ یہ جنگجو دنیا کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں۔
شام میں موجود تمام تنظیموں میں سے صرف آئی ایس آئی ایس کھلم کھلا دنیا پر راج کرنے کے عزم رکھتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔
گیارہ ہزار غیر ملکی جہادی اس وقت شام میں موجود ہیں
شاید اسی لیے آئی ایس آئی ایس کی طرف سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجو مائل ہوتے ہیں جو عالمی جہادی نظریاتی سے تعلق رکھتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے مجھے صاف الفاظ میں بتایا کہ عراق اور شام میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد وہ دیگر مسلم ممالک میں بھی اسلامی ریاست قائم کر کے خلافت قائم کریں گے۔
دوسری جانب اذقیہ جانے والے ایک جنگجو نے بتایا کہ حرکت شام الاسلام شام میں جاری مسلح تصادم کو تربیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور یہ جنگجو واپس مراکش جا کر اپنی حکومت کے خلاف لڑیں گے۔
ترکی
شام میں جاری مسلح تصادم اگلے دس پندرہ سال تک ختم نہیں ہونے والا اور اس کے باعث غیر ملکی جنگجو کا شام آنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس وقت ترکی پر صرف دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد و رفت کے حوالے سے سخت اقدام کرے اور اپنے ہوائی اڈوں پر زیادہ سختی کرے۔
ترکی ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی آمدورفت میں کسی قسم کی مدد کرتا ہے۔ لیکن جنگجوؤں اور ان کو شام لانے والے افراد کا کہنا ہے کہ ترکی کے حکام اس معاملے میں نرمی برتتے ہیں۔
جنگجوؤں کی آمد و رفت میں لبنان اور عراق بھی شامل ہیں اور ان جنگجوؤں میں صرف سنی نہیں شیعہ جنگجو بھی شامل ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/12/131224_syria_foreign_militants_ra.shtml
This is what you get when you combine ‘religious dogma & hatred’ with ignorance , backward sheeple and the politicized saudi version of ‘petro-dollar islam’…