Poetry on Karbala and Ashura – by S.H.Bangash
Tribute to Imam Hussain(a.s) & Karbala ideaology in the form of poems/nauhas & marsya is present in all Langauges literature and poetry around the World.This credit goes only to Imam Hussain(a.s) & Marka-e-Haq wo Batil KARBALA that it have given many separte sections to Poetry & Literauture Like Marsia, Nauha ,Qaseeda Sooz wo Salam .These mentioned sections like Marsia, Nauha ,Qaseeda Sooz wo Salam never existed before KARBALA ideaology. Here the three languages urdu/English & Pashto literature poetry of different poets and poetes is presented.
معرکہ حق و باطل کربلا کا زکر دنیا بھر کے تمام زبانوں و ادب اور شاعری کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ اعزاز صرف سید الشہدا امام حسینؑ و کربلا کو حاصل ہے کہ کربلا نے ادب و شاعری کو کئی اصناف جیسے مرثیہ،نوحہ،قصیدہ سوز و سلام عطا کئیے۔یہ اصناف کربلا ہی کے مرہون منت ہیں۔اسلئے سید الشہدا امام حسینؑ و کربلا کا احسان نہ صرف دنیا بھر کے انسانوں پر ہے بلکہ ادب و شاعری پر بھی ہے۔ اسلئے تو شاعر نے کہا تھا۔
انسان کو بیدار تو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
|
غلام محمد قاصر:
جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر
فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر
سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے
جو کشتیٔ حق کا بادباں ہے سلام اس پر
جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں
وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر
مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی
جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر
ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی
وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر
حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے
جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر
کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ
وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر
میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گِھر چکا ہوں
وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر
شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے
لہو تمھارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر
*****
اقبال:
علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری کے یذیدیت کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمای
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسینؑ کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ
اسی طرح آج کے دور اکیسیویں صدی کے ٰیزید وقت امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ طالبان و سپاہ یذید کی صورت میں ہو ان خواراج و یذیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ کے بارے میں بھی اقبال نے پیشن گوئی کی تھی۔اور یوں برملا اظہار کیا تھا
۔ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بنده شو آزاد شو
عشق را آرام جان حریت است
ناقه اش را ساربان حریت است
آن شنیدستی که هنگام نبرد
عشق با عقل هوس پرور چه کرد
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول
الله الله بای بسم الله پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بهر آن شهزاده ی خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او
در میان امت ان کیوان جناب
همچو حرف قل هو الله در کتاب
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
زنده حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
چون خلافت رشته از قرآن گسیخت
حریت را زهر اندر کام ریخت
خاست آن سر جلوه ی خیرالامم
چون سحاب قبله باران در قدم
بر زمین کربلا بارید و رفت
لاله در ویرانه ها کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بهر حق در خاک و خون غلتیده است
پس بنای لااله گردیده است
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر
*****
جوش ملیح آبادی:
کیا صرف مسلمان کو پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
……….
معین الدین چشتی
شاه است حسین پادشاه است حسین
دین است حسین دین پناه است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا که بنائے لا الہ است حسین
امام حسین علیہ السلام
نانک چند نانک لکھنوی
ہندوستان کا ایک مشہور ہندو شاعر
نقش جمیل حسنِ نبوت حسین ہے
روشن چراغ قصر رسالت حسین ہے
درِّ ثمین درج کرامت حسین ہے
خورشیدآسمان امامت حسین ہے
اسکا کوئی جواب اگر ہے جہاں میں
تو حضرت حسن ہیں اسی خاندان میں
کرب و بلا کا واقعہ آئینہ دار ہے
اسلام کے چمن میں اسی سے بہار ہے
عالم بہ رنگ صبر و رضا آشکار ہے
جو حشر تک رہے گی یہ وہ یادگار ہے
گھر بار اپنا راہ خدا میں لٹادیا
تبلیغ امر حق کے لیے سر کٹا دیا
دھن تھی شرع جلوہ پہ آئے نہ کچھ زوال
ہر لحظہ تھا حفاظت اسلام کا خیال
جب مذہب اور قوم کا پیدا ہوا سوال
بربادیوں کا دل میں نہ لائے کبھی ملال
تکمیل دین پاک کا سامان کر دیا
اکبر سے نوجوان کو قربان کر دیا
اکبر پہ کیا ہے، عون و محمد سے آفتاب
قاسم سا نوجوان مثال ابو تراب
تازہ تھا جن کے حسن سے اسلام کا شباب
ہر اک تہور اور شجاعت میں انتخاب
ان کی شہادتوں کو پریشانیوں کو دیکھ
دین کے لیے حسین کی قربانیوں کو دیکھ
اس راہ میں ہر عزیز چھٹا آشنا چھٹا
آل نبی پہ ظلم و ستم کون سا چھٹا؟
کنبہ چھٹا دیار رسول خدا چھٹا
سب کچھ ہوا نہ دامن صبر و رضا نہ چھٹا
گو دل پہ لاکھ داغ الم لے گئے حسین
ایثار کا ہمیں یہ سبق دے گئے حسین
ہٹنے نہ پائے جادہ حق سے کبھی قدم
آنے نہ پائے دل میں کبھی مصائب کا کوئی غم
برسائیں آسمان اگر ناوکِ ستم
دم لے نہ ایک دم، رہے جب تک دم میں دم
زخم گلوئے اصغر بے شیر دیکھ لے
قربانی حسین کی تصویر دیکھ لے
غازہ ہے حسن حق کا شہادت حسین کی
اسلام کے چمن میں ہے نزہت حسین کی
روشن ہے مثل مہر امامت حسین کی
کم ہو گی تا بہ حشر نہ دولت حسین کی
تھا خاص سلسلہ جو رسول خدا کے ساتھ
دین خدا بچا لیا صبر و رضا کے ساتھ
کیا تبصرہ ہو راز و نیاز حسین پر
نازاں ہے کائنات نماز حسین پر
قرباں حقیقتیں ہیں مجاز حسین پر
نغمہ سرا جہاں ہے ساز حسین پر
نیرنگیوں کا رنگ عجب دیکھتا ہوں میں
افسوس تجھ کو مہر بہ لب دیکھتا ہوں میں
دعوی تو یہ شراب محبت سے چور ہے
پھر کس لیے حسن کی منزل سے دور ہے؟
پست میں تو ہے چرخ پہ فرق غرور ہے
جوش ولہ ہے اور نہ وفا کا شعور ہے
ہے روح کو سکوں نہ ترے دل کو چین ہے
پھر کس لیے زبان پہ نام حسین ہے؟
عاشق ہے تو حسین کے نقش قدم ہی چل
چاہے خوشی تو جادہ رنج و الم پہ چل
جو وہ بتا گئے ہیں اسی راہ غم پہ چل
سر کا خیال چھوڑ دے تیغ ستم پہ چل
دنیا کی کلفتوں کو مسرت سے جیت لے
اٹھ معرکہ حسین کی صورت سے جیت لے
دنیا ہے رنگ کرب و بلا میں رنگی ہوئی
شکل وفا ہے آج جفا میں رنگی ہوئی
ہے کائنات حسنِ فضا میں رنگی ہوئی
کفنی پہن لے صبر و رضا میں رنگی ہوئی
دیوانہ بن، حسین کی ایسی ادا بنا
اپنے لہو کے داغ کو قبلہ نما بنا
لے روشنی، جمال حسین شہید سے
لے تازگی، خیال حسین شہید سے
لے زندگی، وصال حسین شہید سے
لے چاندنی جلال حسین شہید سے
نام حسین آج بھی تابانیوں میں ہے
کچھ زندگی کا لطف پریشانیوں میں ہے
بنتا ہے تو غلام حسین شہید کا
پیتا ہے روز جام حسین شہید کا
رہتا ہے لب پہ نام حسین شہید کا
سمجھا نہیں پیام حسین شہید کا
خود کام اپنے کام میں تو شاد کام ہے
ہے مبتلا ہوس میں، محبت کا نام ہے
مخفی نہیں ہے راز حسین شہید کا
حق نے اٹھایا ناز حسین شہید کا
یہ سلسلہ دراز حسین شہید کا
ہے نام حق نماز حسین شہید کا
واللہ زیر تیغ بھی سجدہ ادا کیا
تو ان کا نام لیوا ہے اور تو نے کیا کیا؟
ہے جن کی چشم شوق میں رعنائی حسین
ڈرتے نہیں بلا سے وہ سودائی حسین
اعدا کا وہ ہجوم، وہ تنہائی حسین
مجلس میں کہہ رہے ہیں یہ شیدائی حسین
نانک نے کربلا کا مرقع دکھادیا
نظم آج وہ پڑھی کا کلیجا پلا دیا
جبین کائناتہندوستان کے مشہور اور معروف ہندو شاعر اہلبیت(ع) جناب مرحوم ماتھر لکھنوی کا کلام
یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شان حسین
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمان حسین
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدان حسین
معرفت کی انتہا ہے نور ایمان حسین
عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا
وعدہ پیغمبری تھا عہد و پیمان حسین
جھکتے جھکتے جھک گئی در پر جبین کائنات
رفتہ رفتہ ہو گیا تعمیر ایوان حسین
فہم انسان سے بھی اونچی ہیں یقیں کی منزلیں
حد امکان بنی ہے حد امکان حسین
سر بسجدہ ہیں پیمبر اور نواسہ پشت پر
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا شان حسین
بہتی دھاروں میں لہو کی رفتہ رفتہ ڈوب کر
خوشنما ہوتی گئی زلف پریشان حسین
اب تو کوئی قوم بھی باہر نکل سکتی نہیں
چھا گیا خالق کی رحمت بن کے دامان حسین
آنسوؤں میں روح غم اور دل میں حق کی روشنی
ضوفشاں ہے آج بھی شمع شبستان حسین
ڈوب کر خون وفا میں بن گیا اک یادگار
ہے شفق کے رنگ میں عکس گریبان حسین
آیتیں نیزے پہ پڑھ کے کر دیا حق کو بلند
اب کلام اللہ ہے لیکن بعنوان حسین
دو وسیلے ہیں گنہگاران امت کے لیے
حضرت زینب کی چادر اور دامان حسین
جلوے یک جا ہو رہے ہیں قلب ماتھر کے لیے
روشنی پہونچا رہی ہے شمع عرفان حسین
نام حسین(ع
)
حسین نام ہے باغ وفا کی نکہت کا
حسین نام ہے ہر پھول سے محبت کا
دوبارہ دین محمد نے زندگی پائی
حسین نام ہے اسلام کی حفاظت کا
بدل دیا تھا لہو نے نظام کون و مکاں
حسین نام ہے عاشور کی قیامت کا
بلندیاں ہیں انہیں کی ولا سے وابستہ
حسین نام ہے دونوں جہاں کی عظمت کا
یہی سمجھ کے تو آئے تھے دہر میں آدم
حسین نام ہے انسان کی خلافت کا
نہ ہوتے یہ تو نہ ہوتا جہاں میں دین خدا
حسین نام ہے توحید کی قدامت کا
خدا کا شکر مصیبت سے بچ گیا اسلام
حسین نام ہے رد بلائے بیعت کا
بلند نیزے پہ جنبش لبوں کی کہتی ہے
حسین نام ہے قرآن کی فصاحت کا
حسینیت نے دہائی ہے شرک کی طاقت
حسین نام ہے معبود تیری وحدت کا
وہ جذب جس میں کہ مذہب کی کوئ قید نہیں
حسین نام ہے انسان سے محبت کا
نہ سمجھے کوئی مگر ہم سمجھتے ہیں ماتھر
حسین نام ہے اسلام کی صداقت کا
قطعہ
یہ روز روز کا جھگڑا تمام ہو جائے
ہر اک شریک عزائے امام ہو جائے
یہ فرقہ وار فسادات ہو نہیں سکتے
اگر حسین کی تعلیم عام ہو جائے
نوحہ
ذوالفقار نقوی
علی کی بیٹی ہے سر برہنہ، نبی ۖکی عترت یوں دربدر ہے
بتا مسلماں ہے کیسی اجرت، رسولۖ کو کیا دیا ثمر ہے
دہائی دیتی ہیں بنت حیدر ،خرد سے لے کام تو اے ظالم
لگائی ہے جس کو آگ تم نے، وہی تمہارے بنیۖ کا گھر ہے
گلے میں عابد کے طوق ڈالا، ترس نہ بیمار پر بھی کھایا
اجاڑ ڈالا جو بن میں لاکر، وہ ساری دنیا کا راہبر ہے
جلایا تم نے ہے جسکا کرتا، جسے اندھیرے میں تم نے ڈالا
علی کی پوتی ہے اے لعینو،وہ دختر شاہ بحر وبر ہے
ہے نوک نیزہ پہ جس کی گردن، وہی ہے اسلام کا محافظ
اسی نے ظلمت سے دیں نکالا ،اسی سے حق کی ہوئی سحر ہے
جو نخل ایماں بے آب دیکھا ،کی آب یاری لہو سے اپنے
نہ کوئی آندھی گرا سکے گی، یہ ایسا سینچا ہوا شجر ہے
جگر کے ٹکرے ہیں مصطفی ۖکے، جو دشت میں تم ہو گھیر لائے
دیا ہے قرآن جس نے تم کو، اسی پہ خنجر ہے اور تبر ہے
صدائے ھل من پہ کربلا میں، بڑھامسلماں نہ کوئی آگے
گرا جو جھولے سے بہر نصرت ،وہ شہ کا ننھا سا اک پسر ہے
لبوں کی جنبش سے جس نے اپنی، یزیدی فوجوں کا پلٹا لشکر
دکھائے جس نے علی کے تیور، وہ بحر الفت کا اک گہر ہے
بڑے ہی نازوں سے جس کو پالا، حسین کی غمزدہ بہن نے
گرا یوں گھوڑے سے کھا کے برچھی ،کہ پارہ پارہ ہوا جگر ہے
وہ شہ کی بیٹی کے سر کا سایہ، وہ ام فروہ کے دل کا ٹکڑا
ہوا ہے پامال جس کا لاشہ ،یتیم شبر ہے بے پدر ہے
حسین ابن علی کے صدقہ ،کرم ہو نقوی پہ بھی خدایا
بدل دے ظلمت کو روشنی میں، رموز حق سے یہ بے خبر ہے
فراق گورکھپوری:
خون شہید کاترے آج ہے زیب دستاں نعرہ انقلاب ہے ماتم فتگاں نہیں
یاس یگانہ:
ڈوب کرپار اتر گیا اسلام آپ کیاجانیں کربلا کیا ہے
احمدندیم قاسمی:
یہ شہادت ہے اس انسان کی کہ اب حشر تلک آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں
جب تجھ سے ہوئے مرے تشنہ دہن کے لب اے دشت کربلا تری قسمت بدل گئی
یہ راہ حق میں صرف شہادت نہ تھی ندیم اک زندگی فنا سے بقا تک نکل گئی
علی سردار جعفری:
دنیا کی شہادت گاہ میں ہوجواپنے لہو سے سرخ کفن ہے چاک جگر کی شرط یہاں یہ حلقہ دل افگاراں ہے
در دریا ہے ایک بہتا ہوا جس کے ساحل بدلتے رہتے ہیں
وہی تلوار اوروہی مقتل صرف قاتل بدلتے رہتے ہیں
مجید امجد:
سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہا جوتیرا حکم، جوتیری رضا، جوتوچاہے
مجیدامجد عہدرفتہ کاایک منفرد شاعر ہے جب بھی چند بڑے شعراء کانام لیاجاتا ہے تومجید امجد کانام ضرور لیاجاتا ہے حضرت زینب عالیہ ؑ کی خدمت میں یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں:
وہ قتل گاہ، وہ لاشے، وہ بے کسوں کے خیام وہ شب، وہ سینہ کونین میں غموں کے خیام
وہ رات، جب تری آنکھوں کے سامنے لرزے مرے ہوؤں کی صفوں میں، ڈرے ہوؤں کے خیام
یہ کون جان سکے ، تیرے دل پہ کیاگذری لٹے جب آگ کی آندھی میں ، غمزدوں کے خیام
ستم کی رات، کالی قنات کے نیچے بڑے ہی خیمہ دل سے تھے عشرتوں کے خیام
تری ہی برق صدا کی کڑک سے کانپ گئے بہ زیرچتر مطلا شہنشہوں کے خیام
جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا اکھڑچکے ہیں ترے آنگنوں کے خیام
منیز نیازی ہمارے عہد کے ایک اہم اورمنفرد آواز ہے جنھوں نے اپنے مجموعے’’دشمنوں کے درمیان‘‘ کاانتساب ہی امام حسین علیہ السلام کے نام سے کیا ہے۔
خواب جمال عشق کی تعبیر ہے حسینؑ شام ملال عشق کی تصویر ہے حسینؑ
مصطفی زیدی کاایک نامکمل مرثیہ’’کربلااے کربلا‘‘ بہت مشہور ہے اس کے علاوہ ان کے اشعار میں کربلا کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔
نام حسینیت پہ سر کربلائے عصر کس کاعلم ہے کس کے علمدار دیکھنا
مجھ پرچلی ہے عین بہ ہنگامۂ سجود اک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکھنا
غیر تورمز غم کون ومکاں تک پہنچے کربلا تیرے یہ غمخوار کہاں تک پہنچے
شہرت بخاری:
جز حسینؑ ابن علیؑ مرد نہ نکلا کوئی جمع ہوتی رہی دنیا سرمقتل کیاکیا
آل نبی پرتنگ ہے اب تک ہرکوفے کی بستی پائے امیر شام یہ سجدہ عین عبادت ٹھہری
پھرکوئی حسینؑ آئے گا اس دشت ستم میں پرچم کسی زینب کی ردا ہوتی رہے گی
افتخار عارف کی شاعری میں کربلا کی تمام علامات نئے روپ لئے ہوئے ہیں:
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے مشکیزے سے تیر کارشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑنا ہے اورگھمسان کادن راتوں رات چلا جائے جس جس کوجانا ہے
خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے نوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
پتھر پہ سر رکھ کرسونے والے دیکھے ہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
خلیل الرحمن عظمی(آف انڈیا):
سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کاسر کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا
بس اک حسین کانہیں ملتا کہیں سراغ یوں ہرگلی یہاں کی ہمیں کربلا لگی
شاذ تمکنت(آف انڈیا):
کچھ لوگ تھے جودشت کوآباد کرگئے اک ہم ہیں جن کے ہاتھ سے صحرا نکل گیا
شہریار(آف انڈیا):
حسینؑ ابن علیؑ کربلا کوجاتے ہیں مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں
فارغ بخاری:
ہے فخر نسبت شبیر پرہمیں فارعؔ بغاوتوں کی روایت ہمارے گھر سے چلی
عبیداللہ علیم:
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کادن اب رہ گیا ہے شام کابازار دیکھنا
سلیم کوثر:
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہوسلیمؔ اھل حق ہوں توبہتر بھی غضب ہوتے ہیں
اقبال ساجد:
تونے صداقتوں کانہ سودا کیاحسینؑ باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی
امیرمینائی:
جوکربلا میں شاہ شہیداں سے پھرگئے کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھرگئے
اے۔جی جوش:
کی دفن جویزید نے اقدار دین کی پھرزندہ کرگئی ہے کرامت حسینؑ کی
بہادر شاہ ظفرؔ :
سکینہ نے کہاروکرکہ میرے کان دکھتے ہیں اتار اے شمر میری بالیاں آہستہ آہستہ
جوچلنا ہے توچل ظفرؔ اب شاہ کے روضے پر گذرجائے گی عمررواں آہستہ آہستہ
ڈاکٹر بیدل حیدری:
دشت کرب وبلا کاحال نہ پوچھ
دورتک گرد یاس ملتی ہے
بھوک ملتی ہے پیاس ملتی ہے
لیکن اس دشت میں مسافر کو
ایک مینار نور ملتا ہے
جس سے درس شعور ملتا ہے
نثار سید:
نہ سرپہ چادر زہرا نہ ساتھ بھائی کا تیرے نصیب میں زینب عجب سفر آئے
حسینیت سے کرواخذ رسم حق گوئی سواد جبر میں مشکل گھڑی آئے
قمر جلالوی:
اصغر جگر کوتھام کے روتی ہے فوج شام تم تیر کھا کے آئے ہویاتیر مار کے
گلزار بخاری:
کسی سے اب کوئی بیعت نہیں طلب کرتا کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کاہے
محسن نقوی:
شبیر کے ہاتھوں پرتواصغر تھاوہ لیکن نکلا سرمیداں علی اکبر کے برابر
محسنؔ کونہیں خوف تکبیرین لحد میں کوآئے گا مولا تیرے نوکرکے برابر
اس کم سنی میں یوں صف اعدا سے انتقام
اصغر توابتدا میں ہوا انتہا پسند
ثابت ہوئی یہ بات دیار دمشق میں
زینب خدا کے دین کوتیری ردا پسند
مرثیہ
فیض احمد فیض
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپہ خواب میں مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِحرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے
اِک گوشے میں ان سوختہ سامانوں کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے
کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا
الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میںکامل ہیں تو ہم صبر میں کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو
پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا
پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے
فرمایا کہ کیوں درپۓ آزار ہو لوگو
حق والوں سے کیوں برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں آپ کے آقاؤں میں اور ہم میں ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے
سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں ہمیں بس ہے
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے
تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ابرار کہے گا
جو بندۂ حُر ہے، ہمیں احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا
کر ختم سخن محوِ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ فردوس کا در تھا
Tribute to Imam Hussain(a.s) & Karbala ideaology in the form of poems/nauhas & marsya is present in all Langauges literature and poetry around the World.This credit goes only to Imam Hussain(a.s) & Marka-e-Haq wo Batil KARBALA that it have given many separte sections to Poetry & Literauture Like Marsia, Nauha ,Qaseeda Sooz wo Salam .These mentioned sections like Marsia, Nauha ,Qaseeda Sooz wo Salam never existed before KARBALA ideaology. Here the three languages urdu/English & Pashto literature poetry of different poets and poetes is presented.
My dearest brother Abbas,
My standard-bearer Abbas,
Abbas my brother Abbas,
Abbas my brother Abbas. I’ll never understand,
How it felt to fall on that land,
On that red hot sand,
Without any hands.
Your loss is such great pain,
Tears drop like the rain,
Abbas, don’t leave me alone,
For you are my backbone.
Without you how can I cope,
You were my only hope,
Life’s hard now that you’ve gone,
Abbas, my back has broke.
Hussein, remove the blood,
Around my eyes they flood,
So for a last time I see,
The lovely face of thee.
Abbas, I have a request,
Before you meet the rest, Before you leave this nest,
To call me Ya Akhi,
You never said that to me.
We’ve lost someone who’s dear,
Abbas is no more here,
Your loss is so hard to bear,
Clothes of grief I shall wear.
Surely you’ve passed the test,
You are among the best,
Remembering you is a must,
On that day help us.
From Abbas we must learn,
Now that it is our turn,
How to remove that nafs,
How to clean ourselves.
Did you see how they treated your grandson,
Did you see what happened when you had gone,
Did you see what they done oh Rasool,
Did you see them slaughter the son of Batool. On Ashura, they trampled upon Hussein’s chest,
From Ashura till now I Zaynab can’t rest,
On Ashura, the skies shed tears for Hussein,
From Ashura I’ve gone through ever so much pain.
Zaynab says, Zaynab says, Oh father, Oh father,
I have so much to tell you ya hayder,
Let me explain to you of the great murder,
We sacrificed Hussein, Abbas and Akber,
Furthermore, Furthermore, In the way of Allah we gave away Asgher,
Ya hayder, Ya hayder, They showed no respect for the holy family,
My beloved Hussein’s head on the spear we would see,
This is Hussein, who the prophet kissed always,
But now his head on the spear has been raised.
Zaynab says, Zaynab says, Oh mother, Oh mother,
Allow me to come towards your holy grave,
Let me inform you and just let me explain,
Let me tell you what just happened and complain,
Let me tell you how they slaughtered our Hussein.
On that tremendously hot and sunny day,
Upon the sands the body of Hussein lay,
Whilst his head would be carried up on the spear,
This event made all of us shed so much tears.
Zaynab says, Zaynab says, Ya Abbas, Ya Abbas,
Did you hear when the kids shouted Al-Atash,
They screamed when on the floor the water had splashed,
They shouted even louder when the men burnt down the Khiyam,
And then they snatched the hijab from the women.
From that day till now my hair has become white,
I start to cry for how much we sacrificed,
I shed so much tears every day every night,
I remember you and Hussein, when there is water in sight.
Zaynab says, Zaynab says, Ya Hussein, Ya Hussein,
Oh brother, did you see what happened when you’d gone,
Oh brother, did you see what they done to your son,
They chained your son Ali Zaynul Abideen,
And then they made him walk all the way bare feet.
They made him walk all the way from Karbala to Shaam,
This is how all of them treated our beloved Imam,
Patience and Sabr we must learn from As-Sajjad,
For he taught us how to cope when times are hard
ڈیری دی خبری خو مطلب خبرہ دہ پکـــې
ھر څوک بہ حسین وؤ کہ نہ وی کربلا پکـــې
جس کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ بہت سے باتیں ہیں لیکن مطلب کی بات صرف ایک ہے وہ یہ کہ اگر معرکہ حق و باطل کربلا نہ ہوتی، تو دنیا میں بہت سے لوگ حسین کے نام کے ہوتے،لیکن کربلا نے سیدالشہداؑ اور حسین کا نام صرف کربلا سے منسوب کردیا۔کچھ اور مشہور شعرا بشمول حمزہ شینواری المعروف حمزہ بابا سے لے کر خوشحال خٹک کا کلام دیا جا رہاہے۔
اوښکـــې کډې بـــاروي طـــوفان د غـــم شو
شــــول تــــازه د زړۀ زخــمـــونـــه محـــرم شـــو
نــــن بـــه يې نـۀ ګڼې دا غــــم چې پرونے دے
ګــــويــــا هـــــــر پروسه کال يـــې ســــږنے دے
ابتـــــداء د غـــــم کــــــومـــــه نــــوے کـال دے
پـــه اول چې زړۀ خفه وي بيـــا خوشحــال دے
څوک چې ډېر د امام غم کا ډېر خوشحال شي
د ايمـــان شجــــر پـــه دې اوښکـــو نهـال شي ( حمزه بابا )
چـــې په جنګ کښې د علـــي له لــــوري ومــــړل
پــــــه هغـــــو ګـــــواهي لـــــولـــــه چې مرحوم دي
پـــــه يـــزيــــد بانـــدې لعنت شــــه پـــه اعوان يې
چـــــې په تېــــغ يــــې د نبــي نمسي مظلـــــوم دي
د امت يې بـــــــرګــــــــــزيــــن دي اثنــــــــــا عشــــر
پـــه بزرګــــۍ کښې د همـــه جهان مخــــدوم دي
د خـــوشحـــــال خټــــک دې حشر لـــــه هغـوشي
چې دوستدار د پنجتن پاک چارده معصوم دي
شهادت د حسین
فضل يزدان افتاب)
Hiya, I am really glad I’ve identified this info. Today bloggers publish only about gossips and internet and this really is genuinely frustrating. A very good internet web site with intriguing content material, that is what I need to have. Thanks for keeping this web-site, I’ll be visiting it. Do you do newsletters? Can not find it.
air max 97 cvs grey
[url=http://www.gallery-locator.com/sitemapartists.php?pid=4039]air max 97 cvs grey[/url]
Good work there. signed up to your rss feed!
nike air max 55 eur
[url=http://www.dezwartehond.nl/202-110.html]nike air max 55 eur[/url]