سعودی عرب شام میں دہشت گردوں کی ٹریننگ پہ لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے
سعودی عرب شام میں دہشت گردوں کی ٹریننگ پہ لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے جس سے وہ شام میں غیر ملکی دہشت گردوں کی ایک نیی فوج تیار کر کے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرا کر وہاں دہشت گردوں کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے
شامی ، عرب اور مغرب ابلاغی اداروں کے مطابق اس سلسلے میں سعودی عرب کی حکومت نے حال ہی میں تینتالیس گروپوں کے اتحاد سے عمل میں انے والے جیش الاسلام پہ سب سے زیادہ توجہ دے رکھی ہے –
اس گروہ میں القاعدہ سے مطلقہ گروہ اسلامی امارات عراق و شام اور وہابی سلفی جہادی گروہوں کو شامل نہیں کیا گیا- کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جیش السلام کو پاکستان میں ٹرینگ دی جائے گی لیکن کچھ ماہرین کے مطابق دہشت گردوں کے شام سے واپس آنے کے بعد یہ عمل شدید رد عمل اور خطرناک نتائج کا سبب بن سکتا ہے
سعودی شہزادہ اور انٹلیجنس چیف بندر بن سلطان نے اس سلسلے میں امریکا پہ زور دیا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو ٹینک اور اینٹی ایئر کرافٹ میزائل مہیا کرے اور اردن پہ اس معاملے میں شدید دباؤ ہے کہ وہ اپنی زمین کو دہشت گردوں کی رسد گاہ کے طور پر استعمال کرنی کی اجازت دے
سفارت کاروں کے مطابق سعودی عرب جیش السلام پہ اس بات پہ زور دے رہا ہے کہ وہ امریکی اور مغربی حمایت یافتہ سلیم ادریس کی ملترے کونسل کی حمایت کریں اور اسے اپنے لیڈر مان لیں –
مصطفیٰ علانی کے مطابق شام میں دو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ایک اسد کی حکومت کے خلاف اور ایک القاعدہ کے خلاف اور سعودی عرب دونوں جنگیں لڑ رہا ہے – سعودی عرب نے کھلے عام شام میں دہشت گردوں کو مسلح کرنے اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور وہ اسد کے خلاف مغربی جارحیت کا بھی سب سے بڑا حامی ہے –
جیش السلام کا لیڈر زہران الوش جو اس سے پہلے لواے اسلام کا لیڈر تھا ایک سلفی ہے -یہ اپنے گروہ کے ساتھ پہلے دمشق کے نواح میں شام کی فوج سے لڑائی میں مصروف رہا ہے – الوش نے کچھ ارسا قبل ہی سعودی شہزادے بندر بن سلطان اور سعودی تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات کی ہے یہ تاجر جیش السلام میں لڑنے والے گروہوں کو انفرادی طور پہ فنڈنگ کرتے ہیں -ایک اور میٹنگ ترکی میں ہوئی ہے جس میں قطر کے وزیر خارجہ اور شام کے لئے امریکی سفیر نے شرکت کی
اس معاملے میں بڑھتے ہوئے اعتماد کے اظہار اس سے بات سے ہو رہا ہی کہ جیش السلام نے باقاعدہ طور پر ائی ٹی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے لئے ایڈورٹائزنگ بھی کی ہے –
محمد کی فوج ” کا نمودار ہونا جو کے اسلامی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے ” یہ بھی انہی کوششوں کے حصہ ہے جس کے نتیجے میں سلفی وہابی مفتی کے مطابق شام میں مارچ دوہزار پندرہ تک ایک لکھ جہادیوں کی فوج بنانا مقصود ہے -لیکن ابھی ان عوامل کے زمینی طور پر جائزہ لینا اور کوئی نتیجہ اخذ کرنا کافی جلدی ہوگا –
ایک اعلی مغربی عہدےدار نے اس بارے میں کہا ہے کہ ” مجھے اس سب سے کوئی بری تبدیلی وقوع پذیر ہوتے نظر نہیں آتی – یہ ایک سیاسی قدم ہے اور اس میں صرف گروہوں کو نیی قیادت کے نیچے منظم کیا جارہا ہے اور یہ صرف اور صرف وسائل کا مقابلہ ہے –
لیکن سعودی اپنی سٹریٹیجی کو اور بڑھاوا دے رہے ہیں ، سودوں کے مطابق اگر اسد کے خلاف جہادیوں کی مدد نہ کی گیی تو یہ اور بڑا مسلہ ہو سکتا ہے – ایمل حوکم کے مطابق سعودی اس صورت حال کو نہایت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ اتحادی اور پراکسیز تخلیق کرنا چاہتے ہیں
سعودیہ کے ایران اور شام کے حوالے سے امریکی روئیے اور حملہ نہ کرنے پہ سعودی عرب میں سخت تحفظات پاے جاتے ہیں – سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی ایران اور شام کے حوالے سے امریکی رویہ کو افسوس ناک قرار دیا ہے – پچھلے مہینے سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی تقریر اور سیٹ سے بھی انکار کر دیا جس کی وجہ بھی امریکا کا شام پہ حملہ نہ کرنا تھا – سعودی اور اسرائیلی دونوں ہی امریکا اور ایران کے مذاکرات کے حوالے سے یکساں خدشات کا شکار ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں شاید امریکا ایران کو کسی لین دین کی صورت میں ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دے دے –
علانی کے مطابق القاعدہ شام میں طاقتور ہو رہی ہے اور جلد یا بدیر یہ سعودی عرب اور خیجی ریاستوں کو اس کی قیمت چکانی ہوگی – جیسے کہ پاکستان ، عراق اور افغانستان میں ہوا ہے –
کچھ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب بغیر کوئی سیاسی صورت حال اور سیاسی انتظام میں مختلف گروہوں کے مختلف کردار کو نظر انداز کر کے اور دہشت گردوں کو مسلح کر کے ایک بہت بڑا رسک لے سکتا ہے جس سے خطے کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے –
کارنیگی فاؤنڈیشن کے یزید صیغ کا کہنا ہے کہ ” سعودی حکومت کو اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ سعودیہ میں کیا بنا رہی ہے ، محمد کی فوج مکّہ بھی آسکتی ہے اور اس صورت میں سعودی عرب حالات پہ قابو نہیں رکھ پاے گا ”
ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کے پاس منظم اور تکنیکی مہارت کی کمی ہے اور اس معاملے میں وہ ہمیشہ سے اپنے مغربی دوستوں کی صلاحیتوں پہ بھروسہ کرتے ہیں – اسی وجہ سے سعودی عرب شام میں پہلے سے لڑائی میں مصروف گروہوں پر ہی بھروسہ کرنے پہ مجبور ہے اور وہ اس انتخاب میں محتاط بھی نہیں ہیں – اور وہ نہیں جانتے وہ کن پہ بھروسہ کر رہے ہیں اور کس کو نواز رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ کچھ گروہ زیادہ اور کچھ گروہ کم رقم کے ملنے کی وجہ سے اپس میں اختلف کا شکار ہو کے بکھر جایںگے
Source :