نوازحکومت کاسرائیکی خطے کی محرومیوں میں اضافے کا فیصلہ

ic-1-1Bridge-on-River-Indus-well-in-progress

خطے میں سرائیکیستان صوبے کے قیام اور یہاں کے لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے کے لیے بہت سی سیاسیپارٹیاں موجود ہیں-کچھ بہت پرانی اور کچھ کم پرانی ہیں-ان پارٹیوں کے کام اور ان کی استعداد بارے کئی طرح کی باتیں گردش میں بھی ہیں-ایسے میں ایک نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کیا جانا بہت سے سوالات کے اٹھائے جانا کا سبب بننا غیر امکانی عنصر نہیں ہے-سرائیکستان ڈیموکرٹیک پارٹی نامی جماعت کی تشکیل کا اعلان سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کئی سوالات اٹھائے جانے کا سبب بن گیا ہے-

چند روز پہلے ایس ڈی پی کی مرکزی قیادت (رانا فراز نون،عارف کمال ایڈوکیٹ،ملک مھدی الحسن،مطلوب بخاری،عبدالستار تھہیم و دیگر)نے سنئیر صحافیوں کو ایک مقامی ہوٹل میں مدعو کیا اور اس دوران ایک مذاکرے کا اہتمام کیا-اپنی پارٹی کے منشور کا ایک مجوزہ خاکہ بھی ایک بروشر کی شکل میں پیش کیا-اس منشور کے چند نکات کی تیاری میں اس راقم کا بھی حصّہ تھا-اس دوران اکثر سنئیر صحافیوں میں جن میں محترم جبار مفتی،شوکت اشفاق،امجد بخاری،مظہر جاوید ،جمشید رضوانی،شکیل ،عبدالستار قمر اور دیگر شامل تھے نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سرائيکی کاز کے حوالے سے یہ پہلی خطے کی پارٹی ہے جس نے اپنی سپریم کونسل اور منشور کمیٹی میں تمام لسانی گروہوں کو نمائندگی دی ہے اور اس طرح سے خطے کے تمام باشندوں کو سرائیکستان کے کاز کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے-

اس دوران جبار مفتی صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ سرائیکی خطے کے تمام لوگوں کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ سوال اٹھائیں کہ آخر اس ملک کی پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی تمام سیاسی جماعتیں کیوں سرائیکستان صوبے کے ایشو پر خاموش ہوگئیں ہیں-اور ملک کی برسراقتدار جماعت کے پنجاب کے چیف منسٹر کو یہ کہنے کا حوصلہ ہوا کہ “سرائیکی صوبے کے ڈرامے کو اب بند ہونا چاہئے؟

جبار مفتی کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ مسلم ليگ نواز کی حکومت کے سو دنوں میں اس خطے کے حوالے چند ایسے فیصلے ہوئے جس سے یہاں کی عوام براہ راست متاثر ہوئی مگر کسی بھی جماعت کے ایم این اے یا ایم پی اے نے ان فیصلوں کے خلاف نہ تو اسمبلی میں آواز بلند کی اور نہ ہی میڈیا پر آکر اس بارے کوئی احتجاج کیا-

مثال کے طور پر جب مسلم لیگ نواز نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں بےنظیر شہید پل مٹھن کوٹ اور خانیوال-فیصل آباد موٹروے کے لیے کوئی فنڈ نہیں رکھا-دونوں منصوبوں پر تادم تحریر کام رکا ہوا ہے-جبکہ ملتان کارڈیالوجی انسٹیٹوٹ کا بجٹ کٹوتی کرکے 29 کروڑ شہباز شریف نے کیا جوکہ سرائیکی خطے کے دل کے 11 اضلاع کے مریضوں کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع خاص طور پر لکّی مروت،ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک جبکہ سندھ کے سکھر ڈویژن اور پورے بلوچستان سے امراض دل کا شکار لوگوں کی آمد کا مرکز بنا ہوا ہے-جبکہ لاہور کا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جہاں پریشر کم ہے اور راول پنڈی کا کارڈیالوجی جہاں دباؤ اس سے بھی کم ہے بالترتیب ایک ارب اور اناسی کروڑ روپے کے سالانہ فنڈ حاصل کررہے ہیں-ملتان میں کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کے فنڈز میں کٹوتی سابقہ دور حکومت میں شہباز شریف نے کی اور اس سے کاٹے گئے فنڈ صوبائی فنانس منسٹری کے باوثو‍ق زرایع کے مطابق میٹرو بس پروجیکٹ میں لگادئے گئے تھے-اسی طرح سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں ،تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت کے فنڈز میں کٹوتیاں کی گئیں اور ان کو شہباز شریف نے اپنی صوابدید پر سنٹرل پنجاب کے بڑے شہروں کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرڈالا-یہ روش اب بھی جاری ہے-

نواز شریف اور شہباز شریف ترقی اور ڈویلپمنٹ کے اس تصور کو پھر سے نافذ العمل کرنے کی راہ پر چل رہے ہیں جو 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے 1947ء سے مرکز اور لاہور نے اختیار کئے رکھا تھا جس میں ایک چھوٹا سا ڈینٹ 1970ء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالا تھا اور پھر پہلی مرتبہ یہ ڈینٹ مقامی حکومتوں کے نظام کے نام پر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت نے ڑالا اور ضلعی سطح پر اس قدر فنڈز اور ترقی کا عمل شروع ہوا کہ نوآبادیاتی سوچ کا زوال ہوتا نظر آنے لگا-مگر جب 2008ء میں جمہوریت بحال ہوئی اور اٹھارویں ترمیم کے زریعے پہلی مرتبہ چھوٹے صوبوں کی زنجیریں کچھ ڈھیلی ہوئیں تو مقامی حکومتوں کے نظام کی بساط پلٹ دی گئی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکستان کے اضلاع کو ہوا-پنجاب حکومت نے ایم ڈی اے،بہاول پور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فنڈز میں کٹوتیاں کرڈالیں-جبکہ ڈیرہ غازی خان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو 1997ء میں نواز شریف کی حکومت نے ختم کرڈالا تھا جو دوبارہ نہیں بنی-بہاول پور ڈویلپمنٹ اتھارٹی آج بھی مستقل چیئرمین کے تقرر کی منتظر ہے-ملتان بگ سٹی کے نوٹیفیکشن کا آج بھی منتظر ہے-پنجاب پبلک سروس کیمشن اور فیڈرل سروس کیمشن کے زریعے پنجاب کے کوٹے میں ہونے والی بھرتیوں میں سرائیکی خطے کے 11 اضلاع کا کوٹہ 32 فیصد (1998ءکی مردم شماری کے مطابق) بنتا ہے لیکن آج بھی فیڈرل پبلک سروس اور پرونشل پبلک سروس میں یہ بالترتیب 7 اور 12 فیصد بنتا ہے-اس قدر کھلی زیادتی بڑی دیدہ دلیری سے جاری ہے اور اس کھلی ڈکیتی کے باوجود مسلم لیگ نواز سرائیکی خطے کے اکثر اضلاع میں کلین سوئپ کرتی ہے تو اس پر حیرت اور افسوس کے سواء اور کیا کیا جاسکتا ہے-

میرے دوست امجد بخاری ،اشفاق احمد اور جمشید رضوانی نے بالکل ٹھیک کہا کہ سرائیکی خطے میں سرائیکیستان ڈیموکریٹک پارٹی سمیت تمام سرائیکی پارٹیوں کو عوام کے اندر اپنی جڑیں بنانے اور اپنی پارٹیوں کی بنیادوں کو وسیع کرنا ہوگا-

شکیل کہہ رہے تھے کہ سرائیکی قوم پرستوں کو جی ایم سید کی جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہئے کہ جب ان کو حکومت نے سیاست کرنے سے روکا تو انہوں نے سندھ کے گوٹھوں میں جاکر شاہ لطیف بھٹائی،سچل سرمست ،عبداللہ شاہ غازی اور لعل شہباز قلندر کے پیغام حریت اور بغاوت کا بیان کرنا شروع کردیا اور سندھ کا مقدمہ سندھ کے عام آدمیوں کو ازبر کراڈالا-آج سندھ میں جی ایم سید کا بچہ بچہ احترام کرتا ہے اور کسی سیاسی پارٹی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سندھ کے قومی مفادات کے خلاف اقدام اٹھانے کی کوشش کرے-وہ کہہ رہے تھے کہ سرائیکی خطے کے نوجوانوں کو پڑوس اور دنیائے عالم کے قوم پرست عظیم رہنماؤں کی سوانحعمریاں پڑھنی چاہئیں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ کیسے مظلوم قوم کا رول ماڈل بنا جاتا ہے-

میرے بھی ذھن میں یہ سوال بار بار پیدا ہورہا تھا کہ آخر سرائیکی دھرتی کے اندر محترم ریاض ہاشمی،زمان جعفری،تاج محمد لنگاہ،استاد فدا حسین گاڈی جیسے سیاسی دانشور اور سماجی سائینس دانوں کو وہ مقام کیوں نہیں مل سکا جو مقام سندھ میں جی ایم سید،حیدر بخش جتوئی،شیخ ایاز،بلوچ قوم میں گل خان نصیر،غوث بخش بزنجو،نواب خیربخش مری ،پشتون قوم میں باچہ خان،عبدالصمد اچکزئی اور اجمل خٹک اور غنی خان جیسے نابغہ لوگوں کو ملا-

ایک مہاتما گاندھی تھے جنہوں نے مرن بھرت اور سول نافرمانی کی پرامن جدوجہد کرکے اپنے لاکھوں پیروکار پیدا کرلئے تھے-ایسا کوئی رول ماڈل تاحال سرائیکی خطے میں پیدا ہوتا نظر نہیں آیا-اسی لیے اس خطے کے لوگوں کے حقوق کی پامالی،اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار اور ان کو امتیازی سلوک کا نشانہ آسانی سے بنالیا جاتا ہے-اور اس سارے عمل کے خلاف عوامی تحریک اور بڑی مزاہمتی تحریک مفقود نطر آتی ہے-

سینئر صحافی یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب تھے کہ آخر جب کارڈیالوجی کے فنڈ کی کٹوتی ہوئی یا بےںظیر شہید پل کی تعمیر رکی تو اس خطے کے لوگوں نے دھرنے،جلوس اور پنجاب اسمبلی کا محاصرہ کیوں نہ کیا-کیوں کوئی سرائیکی پارٹی کا رہنماء گاندھی کی طرح مرن بھرت پر نہیں بیٹھا؟کیا کوئی ارون دھتی رائے جیسی خاتون یہاں پر نہیں ہے جو چولستان کی ان زمینوں پر جاکر دھرنا دے جن کو موت چینی کمپنیوں کو دیا جارہا ہے جبکہ یہ طے ہی نہیں ہوا کہ سولر بجلی گھر جو بجلی پیدا کریں گے کہ ان میں سے کتنی نیشنل گرڈ سرائیکی خطے اور چولستان کے باسیوں کو دے گا؟

آخر کوئی ایک بھی سرائیکی پارٹی کا سربراہ یا مرکزی رہنماء ایسا کیوں نہیں کرتا کہ وہ انّا ہزارے یا مہاتما گاندھی کی طرح پنجاب اسمبلی کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرے اور اس وقت تک وہاں سے نہ اٹھے جب تک پنجاب کا چیف منسٹر کارڈیالوجی کے فنڈ ایک ارب ،چولستان سولر بجلی گھروں سے  پیدا ہونے  والی بجلی پر پہلا حق چولستانیوں کا دوسرا بہاولپور ڈویژن کا اور تیسرا حق سرائیکی خطّہ کا تسلیم نہ کریں اور بے نظیر شہید پل و خانیوال-فیصل آباد موٹروے پروجیکٹ کے لیے فنڈجاری نہ ہوجائیں-

سرائیکستان کے لیے کام کرنے والی پارٹیوں،لیڈروں اور کارکنوں کو اب راست اقدام کا سوچنا چاہئے-آگے بڑھ کر وہ پہلے ان فوری حل طلب ایشوز پر راست اقدام کریں اور پھر دوسرے مرحلے پر سرائیکی خطے کے 13 اضلاع کے لیے وفاقی،صوبائی ملازمتوں میں 32 فیصد کوٹہ نافذ کرائیں اور یہی کوٹہ تعلیمی اداروں میں داخلے میں بھی نافذ کرنے کا مطالبہ لیکر تحریک کا آغاز کرنا چاہئے-یہ ایسے مطالبات ہیں جن کا فائدہ اس خطے کے اضلاع کا ڈومی سائل رکھنے والوں کو ہوگا-

سرائیکی خطے میں پھیلتی غربت،بدحالی، اور جہالت کا سبب اس خطے کا استحصال اور اس خطے سے ہونے والا امتیازی سلوک ہےجس کے باعث یہاں پر ایک طرف تو چھوٹو گینگ،بوسن گینگ بن رہے ہیں تو دوسری طرف اس خطے میں شدت پسندوں کو اپنی جماعت کے لیے بنے بنائے کیڈر مل رہے ہیں-آخر سوچنے کا مقام ہے کہ ٹاپ کے تکفیری دھشت گردوں اور کمانڈروں کا تعلق سرائیکی خطے سے کیوں ہے؟صاف اور واضح بات ہے کہ جب ریاست اس خطے کے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہے تو نوجوانوں کا تفرقہ پسند شدت پسندی اور عسکریت پسندی کی طرف مائل ہونا کچھ اچنبھا نہیں ہے-

لشکر جھنگوئی،،پنجابی طالبان کی قیادت اور کمانڈ اگر اس خطے کے نوجوانوں کے پاس ہے تو اس میں حیران ہونے والی بات نہیں ہے-آخر کیا وجہ ہے کہ سرائیکی خطہ شیعہ اور دیوبندی مسالک کے شدت پسندوں کی ساری توانائی اس خطے کے اضلاع میں صرف ہورہی ہے-آج لیہ،مظفر گڑھ،کبیروالہ،خانیوال،بہاولپور،بہاولنگر ،ڈیرہ غازی حان ،بھکر کیوں آتش فشاں کے دھانے پرکھڑے نظر آتے ہیں؟ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کیوں ظلم و استحصال اور ناانصافی کے خلاف ایک پرامن سیاسی مزاحمتی تحریک کا حصّہ نہ بن سکی؟اس سوال پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے-یہ سوال اس خطے کی قوم پرست جماعتوں اور بائیں بازو کے ترقی پسندوں کو ضرور بپنے آپ سے کرنا چاہئے-

آج جب پی پی پی کی مرکزی قیادت اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کو اس خطے کے مسائل کے حل کرنے اور اس خطے کو نجات دلانے سے زیادہ آپس کی مفاہمت اور آپس میں سودے بازی کی فکر کھائے جارہی ہے تو اس خطے کے سیاسی کارکنوں،نوجوانوں،دانش وروں کو مزاحمتی کردار سے ان کو بتانے اور باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اس خطے کی عوام کو ترقی کا استحصالی ریورس گئیر قبول نہیں ہے-اگر اس خطے کو اس کے حقوق نہ ملے تو پھر مفاہمت نہیں لڑائی ہوگی-یہ پیغام لاہور اور اسلام آباد کو دینے کی ضرورت ہے-جتنی جلدی عملی قدم کی صورت یہ پیغام لاہور اور اسلام آباد گا اتنی جلدی نجات کی منزل قریب آنے کا امکان ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Malik Saleem
    -
  2. Tahir Abbas
    -
  3. zulqarnain jatoi
    -
  4. wahed ahmed
    -
    • Malik Saleem
      -