تم نہ مانو مگر حقیقت ہے، غصّہ انسان کی ضرورت ہے
ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ آدمی کی عظمت کا اندازہ ان باتوں سے لگایا جا سکتا ہے جن پر اس کو غصّہ آتا ہے. مجید نے جب سے یہ قول زریں پڑھا ہے بیوی بچوں ، دوستوں، رشتے داروں پر غصّہ کرنا چھوڑ دیا ہے، ابھی کل ہی تقاضائے بشریت پر خفا تھے کہ رات کو تین بجے منے میاں کو دودھ مانگنے پر اکساتی ہے، بیگم سے خوش رہتے ہیں مگر انسانی فطرت کی کج روی کو کوستے رہتے ہیں جو رات کو آٹھ بجے ‘بڑے اچھے لگتے ہیں’ دیکھتی رہتی ہے اور چولہا ٹھنڈا پڑا رہتا ہے. خود ہم نے بھی اب بہت سی باتوں پر غصّہ کرنا چھوڑ دیا ہے، اپنی عظمت کی حفاظت کا خیال آ جاتا ہے، اس قول کو پڑھنے کے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ اپنی عزت ہی نہیں بلکہ اپنی عظمت بھی اپنے ہاتھ ہی ہوتی ہے، اب اس کو مہنگے گوشت، مہنگے ترین چاول، لا پتہ گندم، کنکروں سے بھری دال ، سڑک کے کھڈوں ، یا آتی جاتی بلکہ محض جاتی جاتی بجلی کی نذر تو نہیں کیا جا سکتا نا. ہم کو پاکستانی قوم کی دور اندیشی کا بھی قائل ہونا پڑا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے ہی چھوٹی موٹی باتوں کو اپنے غصّے کے لائق نہیں سمجھا، جن باتوں پر ہماری اکثریت کو غصّہ آتا ہے وہ ان کی عظمت کی دلیل ہیں. اب رہ گئیں چوٹی موٹی معمولی باتیں جیسے مہنگائی، کساد بازاری، ملاوٹ، رشوت ستانی،چور بازاری، نا اہل ریاست، دہشت گردی، انتہا پسندی، اب یہ تو روز مرّہ ہے نا، ان پر غصّہ کرنا تو خود اپنی بھد بنانا ہے.
ویسے ہمارے خیال میں غصّہ بے بسی کی ایک شکل بھی ہے، غصّہ آنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان خود صورت حال کا نشانہ ہو یا خود کو کسی واقعے سے منسلک کر سکے، صرف محبت نہیں بلکہ غصے کے لئے بھی درد دل کا ہونا ضروری ہے. اب بلوچستان میں ہونے والے واقعات کو لے لیں، ہزارہ نسل کشی ہو یا بلوچ قوم پرستوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، ہماری اکثریت ان واقعات سے یوں لا تعلق ہے جیسے یہ سب کسی اور دنیا اور کسی اور ملک میں ہو رہا ہو، جب آپ کسی کا درد ہی نہیں محسوس کر سکتے تو یہ استحقاق بھی کھو بیٹھتے ہیں کہ ان کو اپنا کہہ سکیں اور اپنا کر رکھ سکیں، مشرقی پاکستان کسی کو یاد ہے ؟ ہر انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر انسان کی ذمّہ داری ہے، ہمارے عام آدمی میں یہ شعور ہی مفقود ہے. بھائی چارہ کوئی چورن نہیں ہے کہ جب چاہے پڑیا کھولی اور چاٹ لیا، بھائی چارہ بنائے رکھنے کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں، ڈنڈے کے زور پر چلنے والوں کے ہاتھ آخر کچھ نہیں آتا بلکہ پاؤں سے زمین بھی سرک جاتی ہے، تاریخ کا فیصلہ تو یہی ہے.
کاش ایک عام پاکستانی وہ درد اور تکلیف محسسوس کر سکے جو ایک اور پاکستانی کی کسی ویرانے میں پڑی، ہاتھ پیر بندھی، زخموں سے چور ملنے والی لاش کا سن کر ہونی چاہئے، آپ کے اپنے بھائی کی لاش. کاش ہر پاکستانی یہ مطالبہ کر سکے کہ ہر پاکستانی کو آزادی اظہار کی پوری آزادی ہے، اپنے حقوق کی حفاظت آپ اسی وقت کر سکتے ہیں جب سب شہریوں کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے محض خام خیالی ہے.
اس بادشاہ کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جس کو کوئی ہوشیار الو بنا گیا کہ اس نے ایک ایسا لباس بنایا ہے جو بے وقوفوں کو نظر نہیں آتا، بادشاہ سلامت کو بھی وہ لباس نظر نہیں آیا مگر خود کو بے وقوف تو نہیں کہلوا سکتے تھے لہٰذہ لباس کو بڑا پسند فرما کر زیب تن کر لیا، اب کیسے زیب تن کیا یا کروایا گیا یہ آپ کے خیال پر چھوڑتے ہیں، اس کے بعد ہوا یہ کہ عالی جناب نے دربار منعقد کیا تو سب درباری لباس کی تعریف کرتے رہے، پھر عوام کو درشن دینے شہشاہ محترم گھوڑے پر سوار دار الحکومت کے گلی کوچوں میں نکلے تو بھی خوب خوب داد سمیٹی، یہاں تک کہ ایک بچہ دیدار سے فیض یاب ہوتے ہی چلا اٹھا کہ ‘دیکھو بادشاہ ننگا گھوم رہا ہے’. ہمیں یقین ہے کہ بادشاہ سلامت کو اس کے بعد خود پر بڑا غصہ آیا ہوگا مگر پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ، اور دنیا نے کر لیا نظارہ. ایک عام پاکستانی کے لئے بھی آج بہت ضروری ہے کہ اس کو مختلف انداز میں عالی مرتبت، نجات یافتہ، ہدایت یافتہ، خوش قسمت، ساری دنیا سے الگ ہونے کے جو جامے پہنائے جا رہے ہیں ان کو حقیقت کی نظروں سے دیکھے خود کو دیگر دنیا کی نظروں سے جانچنے کی کوشش کرے، ساری دنیا کو رد کر کے اپنے خوابوں میں میاں نوشہ بنے گھومنے سے کامیابی کی دلہن ہاتھ نہیں آتی، بلکہ انسان انسانیت سے بھی گر جاتا ہے. دیکھ لیں ہمارے ہاں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ اسی بات کی عکاسی ہے.