Asma Jahangir is not a PPP toady – by Munno Bhai
عاصمہ کی جیت اور جمہوری انتخابات کی آبرو
گریبان …منوبھائی
ہماری ایک نیوز ایڈیٹر نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات سے چند رو ز پہلے کہہ دیا تھا عاصمہ جہانگیر کی شکست اتنی بڑی خبر ہوگی کہ جو نام نہاد جمہوری انتخابات کو مکمل طور پر بے آبرو کرکے رکھ دے گی چنانچہ عاصمہ جہانگیر کی کامیابی کااعلان کرنے والوں نے اپنی آبرو بچانے کی کوشش کی ہے۔ عاصمہ کی کامیابی کسی ایک سیاسی دھڑے، نظریئے اور مکتب ِ فکر کی کامیابی نہیں ہے مگر عوام کے ذہنوں میں چلنے والے اس شوق کو ثابت کرتی ہے کہ کوئی مثبت تبدیلی آنی چاہئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر کے طور پر عاصمہ جہانگیر کا انتخاب اس تبدیلی کی علامت ہے جو وکیلو ں کی ایسوسی ایشن کو ایک نئی سیاسی جماعت بننے نہیں دے گی۔
نثار عثمانی کی وفات کے بعد انسانی حقوق کی پاکستان کونسل میں ان کی چھوڑی ہوئی جگہ ُپر کرنے اور اس خانہ پُری کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے مجھے عاصمہ جہانگیر کے تحت کام کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تازہ ترین کامیابی کی خوشیاں منانے والے اپنا یہ جشن زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک کسی بھی سیاسی دھڑے کا ساتھ نہیں دیں گی ۔جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا عاصمہ جہانگیر کی شدید تنقید کی زد میں آئے گا۔ کسی کو بھی کسی قسم کی معمولی سے معمولی بدتمیزی کی اجازت نہیں ملے گی۔
بینظیر بھٹو کے دوسرے عرصہ ٴ اقتدار میں ، میں بھی ان چند لوگوں میں شامل تھا جن سے کہا گیا تھا عاصمہ جہانگیر کو بینظیر کابینہ میں وزارت قبول کرنے کے لئے تیار کیا جائے مگر ہم میں سے کسی بھی ”طرم خان“ کی ہمت نہیں ہو رہی تھی عاصمہ سے اس موضوع پر بات کرے بالآخر بہت سارے طرم خانوں نے مل کر عاصمہ جہانگیر سے بات کرنے کی ٹھانی۔ دوسرے الفاظ میں ان کے سامنے مشترکہ طورپر ذلیل ہونے کا فیصلہ کیا۔ عاصمہ جہانگیر ہماری شکلیں دیکھ کر اور ”باڈی لینگوینج“ پڑھ کر ہی سمجھ گئی ہوں گی کہ ہمیں ان کے پاس کس نے بھیجا ہے؟ چنانچہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی کہی ہوئی باتیں ایوان اقتدار میں محترمہ بینظیر بھٹو تک بھی پہنچیں گی لیکن ہم وہ باتیں محترمہ بینظیر کے سامنے کرنے کی ہمت اورجرأت بھی نہیں رکھتے۔ ان کو صرف یہ بتایا گیا کہ عاصمہ جہانگیر وزارت کی پیشکش قبول کرنے سے معذوری کا اظہار کرتی ہیں۔
آج عاصمہ جہانگیر وہ خاتون ہیں جو محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح کہہ سکتی ہیں کہ وہ اسلام آباد کے علاوہ پورے ملک کے تمام صوبوں اور بڑے علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ پہلی خاتو ن وزیراعظم تھیں تو عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتو ن صدر ہیں اور اپنی ہمت اور استحقاق کے مطابق یہ عہدہ، منصب یا ذمہ داری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس میں ملک کے ترقی پسند، سنجیدہ،انصاف چاہنے والے عوام کے علاوہ خواتین کے حقوق کے پاسداروں کی کامیابی بھی موجود ہے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد سنائی دینے والی ایک بہت ہی اچھی خبر ہے جو مزید اچھی خبروں کی وجہ بن سکتی ہے اور بہت تیزی سے ”طالبانی“ رویئے اختیار کرنے کا شوق رکھنے والے وکیلوں کے لئے بہت بڑا اور ناقابل عبور سپیڈ بریکر بن سکتی ہے۔
Source: Jang 30 October 2010
یہ سب رواداری کا کمال ہے… آئینہ…مسعود اشعر
عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار کونسل کی صدر منتخب ہو گئیں، مقابلہ آسان نہیں تھا ۔احمد اویس ایک ایسے پینل کے امیدوار تھے جو گزشتہ دس سال سے کسی نہ کسی طرح بار کونسل کے انتخابات پر اثر انداز ہوتا رہا ہے اور پھر احمد اویس صاحب ذاتی طور پر بھی اچھے آدمی ہیں لیکن اس مرتبہ بار کونسل کے انتخاب میں کچھ اور مسئلے بھی سامنے آگئے تھے ۔ یہاں مقابلہ نئے اور پرانے کا تھا بلکہ یوں کہیئے کہ نئے اور پرانے خیالات کامقابلہ تھا۔نوجوان وکیل ، جن کی تعداد زیادہ ہے اب تبدیلی چاہتے تھے ۔ ججوں کی بحالی کی تحریک میں انہوں نے جس تبدیلی کے لئے قربانیاں دی تھیں انہیں وہ تبدیلیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
عاصمہ جہانگیر نئے خیالات اور نئی فکر کی نمائندہ ہیں۔ انسانی حقوق ، عورتوں کے حقوق اور اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لئے انہوں نے جو جدوجہد کی ہے اور آج بھی جو جدوجہد وہ کررہی ہیں اسے ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اسی حوالے سے وہ اقوام متحدہ کی ریپورٹئے بھی رہ چکی ہیں۔ وہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں پہچانی جاتی ہیں ۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق سے ان کی وابستگی اس وقت سے ہے جب جسٹس دراب پٹیل اس کے سربراہ تھے۔ اسے تیس چالیس سال ہو چکے ہیں۔بعد میں وہ خود بھی اس کمیشن کی صدر اور سیکریٹری جنرل رہ چکی ہیں ۔ہمارے لئے تو سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی کامیابی سے ساری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں، ہم تنگ نظر نہیں ہیں، ہم خرد افروزی کی روایات کے امین ہیں اور ہمارے وکیل ،جو معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں بہت ہی باشعور ہیں۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ اظہار رائے اور ضمیر کی آزادی عاصمہ جہانگیرکی گھٹّی میں ہے ۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حکومت یا اور گروپ کا ساتھ دیں گی خام خیالی ہے ۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=479623
منو بھائی کی پیشین گوئی اور عاصمہ جہانگیر…قلم کمان …حامد میر
شیطان نے اللہ تعالیٰ سے اختلاف کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کو ختم کرنے کی بجائے اسے برداشت کیا۔ افسوس کہ ہم انسان ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور معمولی اختلاف پر ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی رائے اور اپنے نظریئے سے اختلاف کو انا کا مسئلہ بناتے ہیں اور پھر یہ انا کا مسئلہ یا تو وطن سے دوستی اور دشمنی کی جنگ بن جاتا ہے یا پھر کفر و اسلام کی جنگ بن جاتا ہے۔
ہم اپنے مخالفین و ناقدین کو دلیل اور محبت سے قائل کرنے کی بجائے انہیں بھارت کا ایجنٹ، یہودیوں کا تنخواہ دار یا کافر ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ سچائی اختلاف کرنے والوں پر غصے میں نہیں آتی کیونکہ سچائی تو ایک ایسا سورج ہوتا ہے جسے اندھیروں سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ سچا انسان ہمیشہ اعلیٰ ظرف ہوتا ہے اور جھوٹا انسان کم ظرف ہوتا ہے۔ اعلیٰ ظرف اختلاف کو برداشت کرتا ہے اور کم ظرف اختلاف پر غصے میں آ جاتا ہے۔
سیاست میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے ایک دوسرے کے سیاسی وجود کا ثبوت ہے اور جو لوگ اختلاف کے ساتھ جینا نہیں سیکھ سکتے وہ مہذب کہلانے کے لائق نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور مہذب طبقے میں بھی برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔
وکلاء کو معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حالیہ الیکشن میں جس قسم کی الزام بازیاں سننے میں آئیں وہ ناقابل یقین تھیں۔ اس الیکشن میں وکلاء کے تین گروپ آمنے سامنے تھے اور تینوں نے پچھلے تین سال میں معذول ججوں کی بحالی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا لیکن ایک گروپ کی امیدوار عاصمہ جہانگیر کے خلاف گھٹیا اور گھناؤنے الزامات کی بھرمار کر دی گئی۔
سب سے پہلے انہیں کافر قرار دیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ قادیانی ہیں میں نے الزام لگانے والے ایک صاحب سے پوچھا کہ مولانا صلاح الدین کی نواسی قادیانی کیسے ہو سکتی ہے؟ جواب ملا کہ ان کے شوہر قادیانی ہیں۔ میں نے عاصمہ جہانگیر سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر قادیانی نہیں ہیں البتہ ان کے سسرال میں کچھ لوگوں کا تعلق احمدیوں کی لاہوری جماعت سے رہا ہے۔ یاد رہے کہ علامہ اقبال کے خاندان میں بھی کچھ قادیانی موجود تھے لیکن اس وجہ سے علامہ اقبال کو قادیانی نہیں کہا جا سکتا۔ عاصمہ جہانگیر کے حامیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ بار سے فتوے نہیں لینے بلکہ وکلاء کے حقوق کا تحفظ حاصل کرنا ہے لہٰذا ان کے نزدیک صدارتی امیدوار کے مذہبی عقائد کی کوئی اہمیت نہیں۔
جب ”کفر“ کا الزام کارگر ثابت نہ ہوا تو کہا گیا کہ عاصمہ جہانگیر آزاد عدلیہ کی مخالف ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ اس الزام کی وجہ شاید یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے کچھ حامی وکلاء ان کی حمایت کر رہے تھے حالانکہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی جسٹس (ر) فخرالنساء کھوکھر ان کی مخالفت بھی کر رہی تھیں۔
سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر کی کامیابی پر ہمارے بزرگ اور استاد جناب منو بھائی نے بڑا معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ منو بھائی لکھتے ہیں کہ ”پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عاصمہ جہانگیر کی کامیابی کی خوشیاں منانے والے اپنا یہ جشن زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکیں گے وہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک کسی بھی سیاسی دھڑے کا ساتھ نہیں دیں گی جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا عاصمہ جہانگیر کی شدید تنقید کی زد میں آئیگا“۔
منو بھائی کے یقین وجہ یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کو غدار قرار دے کر انہیں مارنے کی کوشش شروع کی تو عاصمہ جہانگیر نے بگٹی صاحب کو بچانے کی کوشش کی۔ جب اسلام آباد کی لال مسجد میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو عاصمہ جہانگیر نے امریکا کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس آپریشن کی کھل کر مخالفت کی۔
جو خاتون ایک فوجی ڈکٹیٹر اور امریکا کی ناراضگی سے نہیں ڈرتی وہ پیپلز پارٹی کی ناراضگی کو بھی خاطر میں نہیں لائیگی۔ منو بھائی کی پیشنگوئی پوری ہو رہی ہے۔ پاکستان بار کونسل کی طرف سے جوڈیشل کمیشن میں ڈاکٹر خالد رانجھا کی نامزدگی پر عاصمہ جہانگیر کے حامیوں کا اختلاف سامنے آ چکا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ڈاکٹر خالد رانجھا کا نام بار کونسل کی طرف سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر کاظم خان نے تجویز کیا۔ واضح رہے کہ بارکونسل کے ایک اجلاس میں علی احمد کرد نے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کا نام تجویز کیا تھا لیکن کاظم خان نے بارکونسل میں اپنے گروپ کی اکثریت کے بل بوتے پر فخرالدین جی ابراہیم کی بجائے ڈاکٹر خالد رانجھا کو ترجیح دی۔ کاظم خان نے یہ فیصلہ لطیف کھوسہ صاحب کی مشاورت سے کیا۔ علی احمد کرد اور فخرالدین جی ابراہیم نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر کی حمایت کی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے وکلاء نے ان کی نہیں مانی۔
آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ عاصمہ جہانگیر بھی پیپلز پارٹی کے وکلاء سے ڈکٹیشن نہیں لیں گی اور جن عناصر نے محض سیاسی اختلاف کی بناء پر عاصمہ جہانگیرکو آزاد عدلیہ کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش وہ آپ کو ”کافر“ اور ”غدار“ عاصمہ جہانگیر کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔
میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہوں۔ اس خوش فہمی کے جرم میں ایک ویب سائٹ پر مجھے اور میرے مرحوم والد کو بھی قادیانی قرار دیا جا چکا ہے کیونکہ میں نے 17جون 2010ء کو عاصمہ جہانگیر کے حق میں کالم لکھا تھا۔ میں اپنی خوش فہمی پر بدستور قائم ہوں۔ اس خوش فہمی کی وجہ منو بھائی کی پیشین گوئی کے علاوہ میرا اپنا یقین بھی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں عاصمہ جہانگیر کو جج بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔ دوسرے دور حکومت میں وزیر بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔ جس خاتون کو محترمہ بے نظیر بھٹو نہ جیت سکیں اسے جناب آصف علی زرداری کیسے جیت جائیں گے؟ جب بھی جمہوریت اور آمریت میں لڑائی ہوگی تو عاصمہ جہانگیر جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔ لیکن جب جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کی کوشش ہوگی تو عاصمہ اس جمہوری آمریت کو للکارنے والوں میں سب سے آگے ہوں گی۔
شاید آپ بھول گئے کہ وہ ملک غلام جیلانی کی بیٹی ہیں۔ وہی ملک صاحب جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر مارشل لاء ضابطے کے تحت گرفتار کیا گیا تو عاصمہ عدالت میں چلی گئیں اور یہ مقدمہ عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مقدمے کی تفصیل پڑھئے اور عاصمہ جہانگیر کو برداشت کیجئے
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=479872
بار کا کام ججوں کو تحفظ فراہم کرنا نہیں احتساب کرنا ہے،عاصمہ جہانگیر
لاہور…سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ بار کا کام ججوں کو تحفظ فراہم کرنا یا بنانا نہیں بلکہ انکا احتساب کرنا ہے اور اداروں کو بنانا ہے۔وہ لاہور میں اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کررہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ بار کا کام دو ججوں کو بٹھانا اور چار ججوں کو نکالنا نہیں بلکہ عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار کا غیرجانبدار اور آزاد ہونا ضروری ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر آج آئین میں ججوں کی تقرری کا ایک سسٹم موجود ہے اور ہماری حکومت دوسرے سسٹم کو لیکر چل رہی ہے تو ہمیں اسکو کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں پہلے ترمیم کرے اور اسکے بعد دوسرے سسٹم پر عمل کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جو ساتھی بھی جوڈیشل کمیشن میں جائیں پہلے وہ یہ دیکھیں کہ انکا کوئی رشتے دار جج نہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ 3 نومبرکو ہم نے ہڑتال کی کال نہیں دی کیونکہ ہڑتال کسی مطالبے کیلئے ہوتی ہے اور ہمار ا ابھی کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلا 3 نومبر کوایک آمر کے اقدام کے خلاف کالی پٹیاں باندھ کر اور سیاہ جھنڈے جھنڈے لہرا کر انا احتجاج ضرور ریکارڈ کروائیں
http://jang.com.pk/jang/nov2010-daily/02-11-2010/u51474.htm
سپریم کورٹ بارکی صدراورعہدیداران کوچیف جسٹس کی دعوت
اسلام آباد (نمائندہ جنگ) ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نو منتخب خاتون صدر عاصمہ جہانگیر سمیت بار کے موجودہ و سابق عہدیداران کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کر لیا ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کو 4 نومبر کیلئے(کل) دوپہر کے کھانے کی دعوت دی گئی ہے
http://www.jang.net/urdu/details.asp?nid=480592
یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں کسی کو احمدی کہ دینا ایک گھناؤنی گالی بن جاتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون