ڈاکٹر عبد المالک کیا کرپائیں گے؟
نیا جمہوری سفر شروع ہوچکا ہے-اس نئے جمہوری سفر میں امیدپرستوں کی جانب سے دو باتیں بہت تواتر کے ساتھ کہی جارہی ہیں-ایک تو یہ کہ بلوچستان میں نئی حکومت بہت بڑا کارنامہ ہے-یہ حکومت بلوچستان کے ایشو کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگی-دوسری بات یہ ہے کہ فیڈریشن میں پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ کا ایشو اب ختم ہوچکا ہے اس کے ابھرنے کے اب کوئی امکانات نہیں ہیں-
میں جب بلوچستان کے معاملے کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ امید پرست بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نظر آتے ہیں-اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر جہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بلوچ قوم کے ووٹر تھے وہاں ووٹ ڈالنے کی شرح شرمناک حد تک کم رہی-بلکہ ایک حلقہ تو ایسا ہے جہاں کل ووٹ 57000 تھے اور یہاں سے صرف 544 ووٹ کاسٹ ہوئے اور وہ بھی ایک ہی امیدوار کو ملے اور وہ کامیاب ٹہرا-ایسے میں اگر آزادی پسند ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بلوچی ذبان کے ٹی وی چینل وش کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ سوال کریں کہ”جہاں 57000 ووٹوں میں سے 544 ووٹ لینے والا کامیاب ٹہرے اس کو جمہوری عمل کیسے کہا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے بلامقابلہ چیف منسٹر منتخب ہوئے-انہوں نے اپنے خطاب کے دوران بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور آزادی پسند بلوچ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی-ان کا کہنا تھا کہ وہ بلوچ بچوں کے ہاتھ میں ہتھیاروں کی بجائے قلم دوات تھمائیں گے-اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں چبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کے ایشو کو بھی حل کریں گے-
جس وقت ڈاکٹر عبدالمالک ایوان میں یہ تقریر کررہے تھے اسی وقت کوئٹہ پریس کلب میں ذاکر مجید بلوچ کی بہن اور رشتہ دار خواتین پریس کانفرنس کررہی تھیں اور زاکر مجید بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کررہی تھیں-ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو سیکورٹی فورسز نے اغواء کیا اور آج تک ریاست ان کے بھائی کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے-مجھے بھی اس موقعہ پر یاد آگیا کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عید کے دوسرے روز ملتان سرکٹ ہاؤس میں صحافیوں کو مدعو کیا-جن میں میں بھی شامل تھا-اس ملاقات کے دوران مین نے سید یوسف رضا گیلانی سے سوال کیا تھا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس عید پر لاپتہ ہونے والے بلوچ عید اپنے گھر منائیں گے-لیکن ان کے وعدے پر عمل ایسے کیوں ہورہا ہے کہ گمشدہ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پہاڑوں سے مل رہی ہیں اور اپنے پیروں پر چل کر کوئی بلوچ اپنے گھر نہیں پہنچ رہے؟میں نے سید یوسف رضا گیلانی کو سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جنہوں نے ان کے باس آصف علی زرداری کی معافی کو غیر موثر بنادیا ہے-سید یوسف رضا گیلانی اس سوال کا جواب گول کرگئے تھے-اور بعد میں مجھے مدعو کرنے والے وزرات اطلاعات کے ایک افسر کو کہا گیا کہ آئیندہ ایسے لوگوں کو نہ بلایا جائے-سید یوسف رضا گیلانی کا اپنا بیٹا آج تک نہیں ملا ہے-وہ اسلام آباد میں کئی دنوں تک ڈیرے لگائے رہے اور وہاں سرکاری حکام نے ان کو جو مایوسی دی اس کا احوال جاننے والے سید یوسف رضا گیلانی کے حوصلے کو داد دینے پر مجبور نظر آتے ہیں-
گزشتہ پانچ سالوں میں جب ایک منتخب حکومت تھی-ایک بہت زیادہ آزاد عدلیہ تھی اور عسکری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے یہ دعوے جاری تھے کہ وہ آئین و قانون کے دائرے سے باہر جانے کا سوج بھی نہیں سکتے -اور ایک کیمشن لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بنا بھی-لیکن نہ تو بلوچستان کے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے حکومتی دعوے سچ ثابت ہوئے-نہ ہی سپریم کورٹ کی روزانہ کی سماعتیں کام آسکیں-نہ ہی کیمشن اپنے وعدے پورے کرسکا-میرے سامنے کوئٹہ پریس کلب ،اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر کافی عرصے تک گمشدہ بلوجوں کے لیے کیمپ لکانےوالی عورتوں اور بچوں کی تصویروں کا ایک ڈھیر موجود ہے-اور بھی ان مین بہت سی نوجوان لڑکیوں کے انٹرویوز بھی ہیں جس میں ان کے بھائیوں ،والد یا کسی اور پیارے کے اٹھالیے جانے سے لیکر ان کی تلاش کے دوران پیش آنے والے سارے واقعات کی کہانیاں ہیں-اور سب کی سب اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ان کی مدد نہ تو انتظامیہ کرسکی اور نہ ہی عدلیہ ان کی داد رسی کرسکی-اور تو اور اس دوران جو منتخب سیاست دان تھے وہ بھی چپ سادھ گئے-
میرے محترم ڈاکٹر عبدالمالک کا سیاسی ماضی کسی داغ سے پاک ہے -مجھے ان کی دیانت داری میں بھی کوئی شک نہیں ہے-ان کی جماعت بلوچستان کی ترقی پسند سیاست میں سنٹر لیفٹ کی جماعت کہی جاسکتی ہے-لیکن ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ اکثر ایسے سیاست دان بیٹھے ہیں جو بلوچستان کی مشرف دور اور پھر جمہوری دور میں بھی اقتدار کا حصّہ رہے-ان کے ان ادوار میں کردار پر بہت سے سیاہ حاشیے لگے ہوئے ہیں-اور ان سے یہ امید نہیں ہے کہ وہ بلوچستان کے اندر نادیدہ قوتوں کے خلاف کوئی ہمت والا سٹینڈ لے سکیں گے-جبکہ اکثر جیتنے والوں نے بہت کم ووٹ لیے ہیں-اور بلوچ قوم کی اکثریت ان پر اعتماد کرنے کو بھی تیار نہیں ہے
کیا یہ بھی محض اتفاق تھا کہ جس دن ڈاکٹر عبدالمالک نے حلف اٹھایا اور وہ قائد ایوان منتخب ہوئے اسی دن بلوچ گوریلا وار لڑنے والے ڈاکٹر اللہ نذر کا انٹرویو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر وش ٹی وی کی سائٹ سے لیکر پوسٹ کیا گیا-اس انٹرویو میں اللہ نذر نے بہت واضح طور پر بتایا کہ وہ اور دیگر بلوچ مزاحمت کار صرف و صرف ایک نکتے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور وہ ہے بلوچستان کی آزادی-ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہٹ کر وہ کسی اور شئے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے-میں اپنے قاری کو یہ بات بھی یاد کرانا چاہتا ہوں کہ یہ وہی ڈاکٹر اللہ نذر ہیں جن کے بارے میں سابق وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ “ایک اللہ نذر ہے جو ماننے کو تیار نہیں ہے باقی سب تیار ہیں”
ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ اس الیکشن کے دوران قدرے زیادہ ریڈکل موقف سے کم ریڈکل موقف تک آنے والی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ساتھ نادیدہ قوتوں نے جو کچھ کیا اور جس شرمناک طریقے سے ان کو انتخابات سے آؤٹ کیا گیا کیا اس کے بعد بھی یہ توقع رکھی جارہی ہے کہ کوئی اور گروہ رام ہوگا-
بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ سردار اختر مینگل اور ان کی پارٹی کے دیگر لوگوں کو پارلیمانی سیاست کا راستہ ترک کرنے کی تبلیغ کی گئی ہے اور بہت جلد مینگل کا فیصلہ ہمارے سامنے ہوگا-
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے ایشو کو حل کرنے میں کامیاب ہونے کی جو امید لگائے بیٹھے ہیں اس امید کے برآنے کے امکانات بہت کم ہیں-میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ سابق حکمرانوں کی طرح اقتدار سے ہر حال میں چمٹے رہنے کو ترجیح نہ دیں بلکہ پہلی ہزیمت پر ہی باہر آجائیں تاکہ اب تک ان کا دامن جو پاک ہے اس پر دھبے نہ ہوں-
بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اور وہاں پر اس وقت جو حالات ہیں ان کا ادراک ایک عام پنجابی کو نہیں ہوسکتا-مجھے دکھ کے ساتھ یہ بات لکھنا پڑرہی ہے کہ ہمارے پنجاب کے اکثر لوگوں میں مغالطوں اور بے خبری کا وہی عالم ہے جو بنگالی بھائیوں کے بارے میں تھا-ستم یہ ہے کہ اکثر تو اپنا رویہ بلوچ قوم کے بارے میں وہی رکھتے پائے جاتے ہیں جو کسی فاتح کا مفتوح کے بارے میں ہوا کرتا ہے-اور سارا الزام لے دےکر بلوچ سرداروں کے سرتھوپا جاتا ہے-وہ بلوچ سردار جو پہلے ہی اسلام آباد والوں کے ساتھ ہیں-بلوچ قوم کی قومی آزادی کی تحریک کی اس مرتبہ خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ عام غریب اور مڈل کلاس بلوچ کی تحریک ہے-اور اس میں عورتوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے-اس تحریک کے بارے میں جو قصّے کہانیاں مجھے پنجاب میں سننے کو ملتی ہیں ان کو سنکر ہنس بھی آتی ہے اور ان کے سنانے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل بھی کرتا ہے-
ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ حقیقت سے زیادہ افسانوں کو اہمیت دی ہے-فریب کھانا تو ہمیں بہت پسند ہے-سرابوں میں سرگشتہ پھرے جانا ہمیں بہت مرغوب ہے-ایک بھائی جب گھر چھوڑ کر جارہا ہو تو اس کو روکنے کی تدبیر ہم پر بہت بھاری گزرتی ہے اور جب وہ چھوڑ کر چلا جائے تو اس کے جانے کا سوگ منانے کا ہمیں خوب ڈھنگ آتا ہے-ہم گریہ و ماتم کا فن بھی خوب جانتے ہیں-سقوط ڈھاکہ کا دن ہمارے ہاں تقریبات مناتے گزرجاتا ہے مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ تازہ جو سقوط تیار ہیں ان کو کیسے روکا جائے-
بلوچستان میں احساس محرومی سے شروع ہونے والی کہانی آزادی تک آن پہنچی ہے-اور سرائيکی خطے میں بھی ابھی تک لوگ اپنا حق مانگنے کی بات کرتے ہیں-یہاں محرومی اور بے مائیگی کی جو کہانی ہے اس کو سمجھا جارہا ہے کہ الیکشن میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی سے وہ ختم ہوگئی ہے-میں پھر کہوں گا کہ حاکم طبقات کی یہ خوش فہمی ہے کہ معاملہ ختم ہوگیا ہے-یہاں طبقاتی خلیج اور غربت میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ اور پھر یہاں کی مڈل کلاس کے اندر بڑھتا ہوا احساس بے اختیاری زیادہ دیر تک الیکشن نتائج کے سحر کو باقی رہنے نہیں دے گا-اور سرائیکی وسیب میں وہ دن ایک اور طرح کے ریڈکل ازم کو جنم دے گآ جس دن اس خطے کے نوجوانوں کی اکثریت پارلیمانی سیاست سے نامید ہوگی اور ان کی زندگیوں میں کسی تبدیلی کے نہ آنے کا خود سے تجربہ اور احساس کرلے گی-اور میں حکمران طبقات کی جو روش دیکھ رہا ہوں اس کے بعد مجھے سرائیکی خطے میں حالات اسی سمت جاتے دکھائی دے ہے ہیں–
Comments
Tags: Balochistan